خاورچودھری آج کل کہاں غائب ہیں۔ وہ خود یونی کوڈ اردو میں یہاں پیش کرتے تو مزا دو بالا ہو جاتا۔
لیجیئے قبلہ! اتفاق سے میں نے میل باکس کھولا تو خاور چودھری کی ای میل آئی ہوئی تھی جس میں اس کالم کی ان پیج فائل منسلک تھی سو یہاں پیش کیئے دیتا ہوں:
محنت اور محبت رائیگاں نہیں جاتی (چراغ بہ کف/خاورچودھری)
دھیان میں کھلتے پھولوں کی مہک محسوس کرنے کاانوکھاتجربہ ہوا۔میں جوبہت دنوں سے کسی خواب کی سی کیفیت میں تھا،اچانک ایک احساس نے جگادیا۔حسبِ معمول اذانِ فجرسے پہلے بیدارہواتویوں لگاجیسے میرے چاراطراف قطاراندرقطارپھول کھلے ہیں۔سُرخ،نیلے،پیلے،چمپئی اورگہرے اودھے رنگ کے ان پھولوں کاسحراتنازیادہ تھا کہ میری آنکھ بند ہونے کے باوجودمجھے ان کی موجودگی کااحساس ہورہاتھا۔ان کی خوش بو چھن چھن کرمیری سانسوں کومعطرکرتی جاتی تھی۔میں نے بسترچھوڑااوراُٹھ کربتی روشن کی۔سامنے کی طرف الماری میں نئی کتابوں کاڈھیراپنی بے ترتیبی کے حسن سے میری آنکھوں کوخیرہ کیاچاہتاتھا۔ان سب کتابوں سے اُوپرمحترم دوست سیدکفایت بخاری صاحب کاتصحیح وترتیب نوشدہ ’’مختصر جواہرالقرآن‘‘ پوری آب وتاب کے ساتھ موجودتھا۔میری نظراس کی پشت پرلکھے ہوئے جلی حروف’’جواہرالقرآن ‘‘ پرپڑی توبے اختیارلب سے اُن ہاتھوں کے لیے دعانکلی جنھوں نے یہ لکھے تھے۔اپنی کتاب’’چراغ بہ کف‘‘اٹھاکراُس کاسرورق دیکھاتواُسی بے اختیاری سے بزرگ دوست ملک مشتاق عاجزصاحب کے لیے حرفِ سپاس زبان پرموجودتھے۔انھوں نے کمال محبت سے میری اس کتاب کاٹائٹل اپنے ہاتھ سے بنایاتھا۔فنِ جمیل کی یہ خوب صورتیاں یقینامقدروالوں کوہی ملاکرتی ہیں۔ علم وفن کے یہ شیدائی جب اپنی محبتوں کوسیاہی میں گھول کر لکھتے ہیں توبلاشبہ ایک منظراُجال دیتے ہیں۔حیطۂ خیال میں پھیلی خوش بومیں یہ ذائقہ شامل ہوا توطبیعت صبح ہی بہت زیادہ ہشاش بشا ش ہوگئی۔میں نے آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھولااوریوں کھلے آسمان کے نیچے آگیا۔سردی سینے میں اُترتی تھی مگرجس احساس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا اُس کے سامنے یہ خنکی اورٹھنڈک کم تھی۔ بہت دیرتک میں یوں ہی ستاروں بھرے آسمان کی جانب دیکھتاگیا۔خیال آیا یہ محنتیں محبتوں کے بغیرکس قدراُدھوری ہوتی ہیں اور کیسے بے فیض ہوجایاکرتے ہیں وہ کام، جن کے پیچھے اخلاص نہیں ہوتا۔سب کچھ ہونے کے باوجودایک آنچ جیسی کسرپھربھی باقی رہ جاتی ہے اورجانیے یہ آنچ بھرکسرہی اہم ہوا کرتی ہے۔دراصل میری یہ حالت کلیتہً بے دھیانی کاثمرہ نہیں تھی، بلکہ اس کے پیچھے ایک مضبوط محرک اورپس منظر بھی تھا۔ورنہ یہ کتابیں اوران کے اُوپرکھنچی ہوئے خوب صورت کششیں پہلے بھی موجود تھیں۔ دستِ ہنروراں کی خاموش بازگشت میرے کمرے کی ساکت دیواروں سے پہلے بھی ٹکراتی رہی ہے۔میں خودکوآنے والے و قت کے لیے تیارکررہاتھا۔آج کے دن مجھے ایک ایسی تقریب میں جاناتھا،جہاں فنونِ لطیفہ کی ایک اہم صنف کی پذیرائی ہونی تھی۔میری یہ کوشش رہی ہے کہ میں ایسی علمی ،اَدبی وثقافتی تقریبات میں اگرشرکت کرتاہوں توپورے اہتمام کے ساتھ ،ورنہ معذرت کرلیتاہوں۔کیوں کہ فنونِ لطیفہ کے وابستگان جنونی ہوتی ہیں اور جنونیوں کی مجلس میں خردآمیزجنون ہی کام آتاہے۔گویاذہن کے آئینے میں اتنی گنجائش ضروربنالیتاہوں کہ کچھ تصویریں اُبھرسکتی ہوں، کچھ لفظ جاگ سکتے ہوں۔ سو اسی کوشش اور لگن میں کچھ اورکتابیں بھی دیکھ ڈالیں۔
اس تقریب کااہتمام اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے کانفرنس ہال میں کیاگیاتھا۔صدارت اکادمی کے چیئرمین جناب عبدالحمیدکررہے تھے اورمہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹرارشدمحمودناشاد(علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی) اورسیدشاکرالقادری (وجۂ تقریب) کے اسمائے گرامی شامل تھے۔تقریب کاانتظام اُردوویب ڈاٹ آرگ نے کیاتھا۔شاکر صاحب اٹک کی خاک میں کھلنے والاوہ پھول ہے، جس نے فنونِ لطیفہ کے کئی شعبوں کوبہ یک وقت اپنی مہک میں لے رکھا ہے۔شاعری کی بات ہو توفارسی، اُردو، پنجابی اورمقامی بولی میں ان کاکلام پڑھنے کوملتاہے اورخوب سلیقے سے ملتاہے۔خصوصاً مذہبی رنگ کی وجہ سے ان کے مضامین بجائے خودقابلِ قدرہوجاتے ہیں۔’’جوامع الکلم ‘‘کامنظوم ترجمہ دیکھیے توالگ سے ایک شان جھلکتی ہے۔اس میں چالیس احادیث مبارکہ منظوم ہوئی ہیں۔شاہ عبدالعزیزدہلوی رحمتہ اللہ کے عربی رسالہ’’سرالشہادتین‘‘ کی فارسی شرح ’’تحریرالشہادتین‘‘ کو اُردو میں ڈھالنا بھی ایک اہم کام ہے ۔دوسری جانب دس سال سے کم عمرکے بچوں لیے ’’مبادیات اسلام‘‘ کتابچہ بھی لکھا، جسے بعض اسکولوں نے اپنے نصاب کاحصہ بھی بنایا۔ ’’تاریخ اٹک‘‘ اور ’’برقِ بے تاب‘‘ جیسے تحقیقی کام شاکرالقادری کے دستِ ہنرسے نکلے ہوئے کارنامے ہیں۔عمرخیام نیشا پوری کی رباعیات کامنظوم ترجمہ بھی ان کے ذوقِ لطیف کااظہاریہ ہے۔ پھر انٹرنیٹ پراُردوکے فروغ کے لیے’’القلم ڈاٹ آرگ‘‘ کے پلیٹ فارم سے اداہونے والی خدمات ان کاایک جدارنگ پیش کرتی ہیں۔دراصل یہ تقریب اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ شاکر صاحب جب اس جانب آئے توان کی جمال آشناآنکھوں کو قرارآکے نہ دیا۔وہ اس دھارے میں شامل توتھے مگراپنے طورپرمطمئن نہیں تھے۔نگاہوں کوانٹرنیٹ پراُردوکاوہ رسم الخط درکار تھا جو ذوقِ لطیف کوتسکین دیتاہو، دل کے تارہلاتاہو۔اس کوشش اورکاوش میں وہ اپنے طور پرلگے رہے۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب انھوں نے خاموشی سے فونٹ سازی اورٹائپوگرافی جیسے کام میں عملی شمولیت کی ٹھانی۔ایک جانب مخدوش حالات اوردوسری جانب احساسِ نزاکت۔ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اگراُردوہماری زبان ہے توپھر’’اِن پیج‘‘ کی ملکیت ہندوستان کی کیوں کرہوگئی۔انھیں وہ لوگ ایک دم بے مایہ دکھائی دیے جنھوں نے پاکستان کی خاک میں نموپانے کے باوجودمحض پیسے کمانے کے لیے اپنے حقوق ہندوستان کی ایک فرم کو بیچ دیے۔
جنون تھا،شاکراورماہ وسال کاسلسلہ۔ تین برس کی مسلسل محنت کے بعد’’القلم تاج نستعلیق‘‘ منظرپرآگیا۔تیس ہزارسے زائداُردوترسیمہ جات کی تیاری کے لیے بہت زیادہ سرمایے کی ضرورت تھی اوریہ خدمات کوئی خطاط مفت فراہم کرنے کوتیارنہ تھا۔مآلِ کارشاکرصاحب نے خطاط الملک استادتاج الدین زریں رقم کی تختیوں’’مرقع زریں‘‘ سے استفادہ کیا اور کیریکٹر بیسڈفانٹ کی شکل میں ڈھال لیا۔اس کام میں اُن کے ساتھ رضاکارانہ تکنیکی خدمات انجام دینے والوں میں امجدعلوی(پشاور) اورفیصل آباد کے نوجوان اشتیاق علی بھی شامل رہے۔یوں یہ رضاکارانہ منصوبہ تکمیل آشنا ہوا اوراسی سال یومِ اقبال کے موقع پراس کی رونمائی ہوئی۔یہاں خاص بات یہ ہے کہ ان کی اس محنت کوبھی خریدنے کی کوشش کی گئی اور مشہور اداروں نے سات لاکھ روپے تک پیش کش کی مگراس مردِدرویش نے اپنی ضرورتوں اوراحتیاجات کوایک طرف رکھا اوراس خدمت کے تمام حقوق پاکستانی قوم کے نام کردیے۔ یعنی اب یہ مفت استعمال ہوسکتا ہے،البتہ تجارتی بنیادوں پراس کااستعمال (یعنی خریدوفروخت) ممنوع ہے۔ان کے اسی جذبے کوسراہنے کے لیے اُردو(محفل) ویب ڈاٹ آرگ جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارے نے اکادمی ادبیات پاکستان میں اہتمام کیاتھا۔اس تقریب میں پشاور، گجرات،اٹک،حضرو،راولپنڈی اوراسلام آباد سے تعلق رکھنے والے چنیدہ لوگوں نے شرکت کرکے سیدشاکرالقادری کی خدمات کوخراج تحسین پیش کیا۔اُردومحفل کے شریک منتظم محترم ساجدصاحب جب اپنے ساتھی نبیل حسن(مقیم جرمنی ) کاپیغام پڑھ کرسنارہے تھے تومیرے اردگردخوشیاںہالے بن رہی تھیں۔ڈاکٹرارشدمحمودناشاداورچیئرمین اکادمی ادبیات جناب عبدالحمیدصاحب کی بھرپوراورحوصلہ افزاگفتگوسے یہ تاثرملتا تھا کہ اب سرکاری ادارے بھی اپنے ہنرمندوں کی سرپرستی کریں گے۔اسی تقریب میںقادری صاحب کوشیلڈ پیش کی گئی۔ جب یہ منظرروشن تھا تومیں سوچ رہاتھاکہ لوگ اگرمحبتوں کاعوضانہ لینا شروع کر دیں تویقیناان کے صندوق بھرجائیں گے مگران کے حصے کی محبتیں چھن جائیں گی۔شاکرالقادری خوش نصیب ہیں کہ ان کی محبتیں اُن کے پاس محفوظ ہی نہیں بلکہ ان میں اضافہ ہواہے۔
جس شخص کے لیے افتخاراجمل بھوپال جیسے بزرگ آجائیں توسمجھ لیناچاہیے ،وہ خوش بخت ہے۔برادرم راشدعلی زئی،قاری بدرالعالم، حسین امجد، سیدبلال شاہ، امجدعلوی، خرم شہزادخرم اورشہدسے میٹھے الف نظامی کی موجودگی اس بات کاثبوت ہے کہ شاکرالقادری کی محنتیں اورمحبتیں رائیگاں نہیں گئیں۔اب جواس خط سے لاکھوں لوگ فیض یاب ہوں گے تو بلا شبہ ان کے حصے کی نیکیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔یہ اُصول ہے کہ محبت کابدل صرف محبت ہے۔مولاناصالح محمدخاںصاحب کاخلوص کیوں کربھلایاجاسکے گا،جنھوں نے اس پیرانہ سالی میں نوجوانوں کے طرح ہماراساتھ دیا۔اپنی رہائش پرپُرتکلف چائے پلانے پرطبیعت سیر نہیں ہوئی توہوٹل پرلے آئے اوریہاںایک بارپھرمحفلِ طعام سجادی۔واپسی پررات گیارہ بجے کے قریب جب میں اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہاتھاتویہ الفاظ ذہن میں برابر موجودتھے کہ محبتیں اورمحنتیں کبھی رائیگاں نہیں جایا کرتیں۔
عبدالروف اعوان