امان زرگر
محفلین
محنت کش: اﷲ کا دوست
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ محنت کش اﷲ کا دوست ہے‘‘اگر انسان کی محنت خدا کے قرب اور دوستی کا وسیلہ اور ذریعہ ہے تو پھر کسی بھی انسان کی بے کاری اور سہل پسندی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ ہر انسان اپنی جگہ اہمیت کا حامل، اور عقل و شعور سے مزین ہے۔ سب انسان باہم رشتۂ اخوت و مساوات میں جڑے ہوئے ہیں اور انسانیت میں کسی بھی قسم کی تقسیم اور طبقات کا وجود انسانی عظمت و شرف کی حد درجے پامالی کا مظہر اور فطرت کے لازوال اصولوں کے منافی ہے۔
لیکن دور حاضر کا یہ المیہ اور کس قدر بد قسمتی ہے کہ آج ہم محنت کی عظمت سے ناآشنا اور بے خبر ہیں۔ جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ سماج میں محنت و مشقت کے دھنی افراد کو حشرات الارض جتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی اور ان محنت کشوں کی محنت اور ثمرات پر گلچھرے اڑانے والے سرمائے کے پجاریوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔
جس کا ردعمل یوں ہوتا ہے کہ محنت کی عظمت کا انکار سامنے آتا ہے۔ محنت کی حوصلہ شکنی اور محنت کش کی تحقیر اور استہزا کا چلن عام ہوجاتا ہے۔ لوگ محنت سے جی چرانے لگتے ہیں اور اس طرح کے معاشرے اجتماعی طور پر زوال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں محنت کی عظمت ایک عالم گیر صداقت اور مسلمہ اصول ہے، جس کو اپنانے والی اقوام مسلسل آگے بڑھتے ہوئے عالمی قیادت کی دعوے دار ہیں اور جن اقوام کے ہاں یہ اصول جڑ نہیں پکڑ سکا وہ اپنے ہاں قدرتی خزانوں اور وسائل سے انجان دوسروں کی دست نگر ہیں۔
ہمیں اگر عزت سے جینا ہے تو اپنے دست یاب قدرتی وسائل اور افرادی قوت پر تکیہ کرکے انہی کو بحق قوم اور انسانیت بروئے کار لانا ہوگا۔ اسی طرح مقتدر طبقات کو یہ التزام بھی کرنا ہے کہ عوام کو بلا امتیاز عزت کے ساتھ روٹی بھی میسر آئے اور ساتھ ہی ان کے لیے باعزت روزگار کے مواقع بھی پیدا کرنے ہوں گے۔
اور پھر پوری قوم تقسیم اور طبقات سے اوپر اٹھ کر اجتماعیت، مساوات اور عدل کی اساس پر محنت کی عظمت کو لازم پکڑے اور خود کفالت اور اجتماعی ترقی کے اہداف کو پانے کے لیے کمر بستہ ہوجائے اور اس طرح سرمائے کے مقابلے میں محنت کو بنیادی اور کلیدی اہمیت دے کر زراعت، صنعت اور تجارت میں اسلام کے عادلانہ اصولوں کے عین مطابق آجر اور اجیر کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا اور اک نیا جہان تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ جہاں جبر ہو اور نہ کوئی جابر و مجبور اور نہ ہی بندۂ مزدور کو تلخیٔ ایام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے باعث معذور ہونا پڑے۔
آج بالعموم سرکاری اور نجی سطح پر مزدور کا حق محنت پورا ادا نہیں کیا جاتا جس کے باعث مشقت کے باوجود محنت کش کو ضروریات زندگی حاصل نہیں ہوپاتیں۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘ (ابن ماجہ)
استحصال یہ بھی ہے کہ مزدور کو حقیر سمجھا جائے۔ حالاںکہ تمام انبیا اور برگزیدہ ہستیوں نے مختلف پیشے اختیار فرمائے اور خود نبی اکرمؐ نے مزدوری، تجارت، گلہ بانی اور پتھر اٹھانے جیسی مشقتیں بحسن و خوبی سرانجام دیں۔
مدینہ منورہ میں سعدؓ ایک مال دار صحابی تھے۔ جنھیں لوگوں نے کسی جگہ اپنی دولت، معاشرتی رتبے اور فضیلت کا ناروا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔ اس کی اطلاع آپؐ کو پہنچی تو آپؐ نے بلاکر فرمایا:
’’سعدؓ! کیا یہ مال جس پر تم فخر کرتے ہو، یہ تمہارے زور بازو کا صلہ ہے؟ ہرگز نہیں یاد رکھو! تمہاری امتیازی اور مالی حیثیت کا اصل ذریعہ معاشرے کے محنت کش اور غریب لوگ ہیں۔ یوں مت اتراؤ اور اپنی مال داری کا ذکر کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی کبھی تحقیر نہ کرو۔‘‘
نبی اکرمؐ نے ہمیشہ غریب، محروم اور محنت کش لوگوں کا غیر معمولی خیال رکھا۔ مدینہ میں ایک مزدور صحابیؓ پسینے میں شرابور کھڑے تھے کہ حضورؐ کا گزر ہوا۔ مزدور صحابیؓ کو دیکھا اور پیچھے تشریف لاکر اپنے دست مبارک اس کی آنکھوں پر رکھ دیے۔ آپؐ کی خوش بو سے صحابیؓ سمجھ گئے کہ اس خوب صورت ڈھب سے اظہار محبت کرنے والے کون ہیں؟
اس لیے جان بوجھ کر اس مزدور نے اپنے پسینے سے تر جسم کو آپؐ کے ساتھ جوڑ دیا اور جب تک اس صحابیؓ کا دل خوش نہیں ہوگیا آپؐ اس کی پسینہ کی بو کے باوجود اس کے ساتھ چمٹے رہے۔ ایک اور مزدور کے مشقت سے نشان زدہ ہاتھوں کو دیکھ کر آپؐ نے بے اختیار چوم لیا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم محض رسمی طور پر سال میں ایک دفعہ ’’یوم مزدور‘‘ منانے سے چند قدم آگے بڑھیں۔ ہمیں اپنے زوال کو عروج و اقبال میں بدلنے کے لیے ماہ و سال کے تمام صبح و شام بندۂ مزدور کے نام کرنے ہوں گے اور اﷲ کے اس دوست کے پسینے کی بو اک اعلیٰ ترین خوشبو کی مانند اپنے اوپر چھڑکنا ہوگی اور محنت کش کی دست بوسی کا راز جان کر آقائے دو جہاں ؐ کی اس عظیم سنت کا احیا کرنا ہوگا۔
(ماخوذ)