محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی - ڈاکٹر سلیم خان

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب مصر نے ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب اور ایران نے مصر و اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کے باعث ایک دوسرے سے تعلقات توڑ لئے تھے ۔یہ حسن اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا دونوں واقعات ؁۱۹۷۹ میں وقوع پذیر ہوئے ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ غیر جانبدار ممالک کی تحریک کا حالیہ اجلاس تہران میں منعقد ہو رہا ہے ۔ اس کی صدارت ایران کررہا ہے اور وہ کانفرنس کے بعد اپنے اس منصب کوآئندہ سال کیلئے مصر کے حوالے کرنے جارہا ہے ۔اس کانفرنس کی تیاری کیلئے وزرائے خارجہ کا اجلاس مصر کے شہر شرم الشیخ کے اندر ماہِ مئی میں منعقد ہواجس میں ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحہ شریک ہوئے ۔ ایران کے نائب صدرمحمد رضا رحیمی نےبنفسِ نفیس قاہرہ کا دورہ کرکے صدر محمد مورسی سے ملاقات کی اور انہیں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ اعزاز غیر جانبدار ممالک کی تحریک کے ۱۲۰ارکان ممالک اور ۲۱ مشاہدین میں سے صرف مصری صدر کیلئے مختص تھا ۔حالانکہ شام کے معاملے میں دونوں ممالک کا موقف مختلف ہے اور مورسی نے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا تھا اور اب پھر سے مصر اور سعودی عرب کے درمیان بحر احمر پر بنائے جانے والے رابطہ پل کی تعمیر کاکام شروع ہوا چاہتا ہے ۔مورسی اور رحیمی کی ملاقات علامہ اقبال کے اس شعر کی مصداق تھی ؎
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
مصر کے اندر گزشتہ سال انقلاب کے بعد حسنی مبارک سے اقتدار فوجی کاؤنسل نے ہتھیا لیا تھا۔ اس وقت کےنائب وزیر دفاع محمد مختار الملا تھا نے ایک مرتبہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلح افواج کی سپریم کونسل انتہا پسند دھڑوں کو مصر پر کنٹرول کرنےکی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مصر پر کسی خمینی کی حکمرانی نہیں چلے گی۔ مصر کی حکمران فوجی کونسل ان کے ملک پر کسی اور خمینی کی حکومت قائم نہیں ہونے دےگی ۔ محمد مختارکا اشارہ اخوان کی جانب تھا۔اکثرو بیشتر مغرب زدہ حکمرانوں کی مانند وہ بھی اسلام پسندوں کی روز افزوں کی پذیرائی سے پریشان تھے لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے اس عزم کا بھی اعادہ بھی کیا تھاکہ فوجی کونسل پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے بعد اقتدار سول حکومت کے حوالے کردے گی نیز اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرے گی۔ بیچارے محمد مختار یہ نہیں جانتے تھے کہ مذکورہ دونوں شرائط بیک وقت پوری نہیں ہوسکتیں اگر غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد ہوجاتا ہے تو یقیناً اقتدار انہیں لوگوں کے سپرد کرنا ہوگا جن سےوہ خدا واسطے کا بیررکھتے ہیں اور یہی ہوا ۔ انتخاب کے بعد مختار صاحب بے اختیار ہو گئے ۔بقول اقبال ؎
دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل
موجِ مضطر ہی اسے زنجیرِ پا ہوجا ئے گی
ایران و مصر کے درمیان ہونے والی پیش رفت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلینا نہ ہی امریکہ کیلئے ممکن تھا اور نہ ہی اسرائیل ایسے موقع پرخاموش تماشائی بنا رہ سکتا تھا ۔اس لئے اس دورے سے تین دن قبل رفح سرحد پر ایک ایسا غیر معمولی سانحہ برپا کیا گیا جس سے اخوان اور مورسی دونوں کے خلاف یکلخت فضا تیار ہوگئی ۔ عین افطار کے وقت اسرائیل سے لگی ایک فوجی چوکی پر جنگؤوں نے حملہ کر دیا جس میں حفاظتی دستے کے ۱۶ اہلکار جان بحق ہوگئے ۔ پھر کیا تھا ذرائع ابلاغ نے اس حملہ کیلئے اخوان کوموردِ الزام ٹھہرادیا اور صدر کو فوجیوں کا قاتل بنا کر پیش کردیا ۔ فضا اس قدر مکدر کر دی گئی کہ محمد مورسی کو جنازے میں شرکت سے احتراز کرنا پڑا نیز وزیر اعظم حشام قندیل کو جلوسِ جنازہ کے اندر احتجاج اور غم وغصہ کا سامنا کرنا پڑا ۔ایسا لگنے لگا کہ کسی بھی لمحہ پھر ایک بار فوجی جنرل حرکت میں آئیں گے اور قومی سلامتی کا بہانہ بنا کر عوامی نمائندوں کو اقتدار سے محروم کر دیں گے ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو اسرائیل کے وارے نیارے ہوجاتے ۔ وہ پھر ایک بار فلسطینیوں اور مصریوں کے درمیان اختلاف پیدا کرکے اپنا الو سیدھا کر لیتے ۔لیکن وہ سب تو نہیں ہوا ہاں جو کچھ ہوا وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی مصداق تھا ؎
نالۂ صیّاد سے ہوں گے نوا ساما ں طیور
خونِ گل چیں سے کلی رنگیں قبا ہوجائے گی
مصر میں اخوان المسلمون کی کامیابی پر سابق صدر حسنی مبارک کے حامی ذرائع ابلاغ سیخ پا ہیں۔ ملک کے بیشتر اخبارات اور نشریاتی ادارے سابق دور کے پروردہ ہیں۔ اسی لئے وہ موجودہ حکومت کے خلاف مسلسل زہر افشانی کر تےرہتے ہیں۔ انہی میں الفراعین ٹی وی چینل بھی شامل ہے، جو سابق صدر حسنی مبارک کی اندھی حمایت میں پیش پیش رہا ہے۔ ‘‘الفراعین’’ ٹی وی کے مالک توفیق عکاشہ نے صدر محمد مورسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے ساتھ سیاہ وحشی موجود ہیں جو انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گےاور صدر محمد مورسی کا منصب صدارت پر فائز ہونا صہیونیوں اور اسرائیلیوں کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ انہیں صدر محمد مورسی کی طرف سے لاحق خطرات سے آگاہ رہنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ توفیق عکاشہ نے صدر محمد مورسی کو ہلاک شدگان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا اس لئے کہ فوجیوں کو تحفظ دلانے میں ناکامی پر عوام کے اندر صدر مورسی کے خلاف سخت غصہ ہے۔ اگر وہ مقتولین کے جنازوں میں شریک ہوئے تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو گا۔
یہ کوئی ہمدردانہ مشورہ نہیں تھا بلکہ اس سے عوام کو اکسانہ مقصود تھا ایک اور صحافی باقری نے بھی اسی طرح عوام کواخوان کے خلاف اشتعال دلانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں قاہرہ کے اندر اخوان کے دو دفاتر کو منصوبہ بند طریقہ پر دن دہاڑے نذرآتش کر دیا گیا ۔ کسی بر سرِ اقتدار جماعت کے دفتر کو دارالخلافہ کے اندر جلانے کا یہ انوکھا واقعہ تھا ۔یہ لوگ قوم کی اس نازک گھڑی میں عوام کو بغاوت پر اکسا رہے تھے لیکن پھر حکومت حرکت میں آئی اور اس نے الفراعین کی نشریات پر ایک ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی نیز ٹی وی کی انتظامیہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے حدود سے تجاوز کا سلسلہ جاری رکھا تو لائسنس منسوخ کر دیا جائے گاْ۔ جو لوگ اپنے مخالف کی شرافت کو اس کی کمزوری سمجھتے ہیں انہیں اسی طرح کے انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔
مصری صدرنے اپنے پہلے صدارتی حکم نامہ کے بعد جس سے خاصہ ہنگامہ ہوا تھا اس صورتحال میں ایک اور حکم نامہ جاری کر دیا اورخفیہ ایجنسی کےچیف مراد موافی کو جبراً ریٹائر اور شمالی سیناء کے گورنر عبدالوہاب مبروک کو بر طرف کر دیا ۔نیز فوج اور خفیہ اداروں کی تنظیم نو کا حکم دےدیا ہے۔ محمد رافت عبدالواحد شہاتہ کو مراد موافی کی جگہ خفیہ ادارے جنرل انٹیلی جنس کا عبوری سربراہ مقرر کردیا گیااور وزیر دفاع فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی کو ملٹری پولیس کا نیا سربراہ تلاش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس کے علاوہ ملٹری پولیس کے سربراہ حامدی بدین کو شہید فوجیوں کے جنازے کو محفوظ بنانے میں ناکامی کے باعث تبدیل کیا گیا ۔ میجر جنرل احمد محمد ذکی کو صدارتی حفاظتی دستہ کا سربراہ نامزد کیا گیا میجر جنرل اسامہ محمد الصغیرکو وزیر داخلہ کا نائب بنایا گیا ۔اس طرح گویا صدر مورسی کو کمزور کرنے کا خواب دیکھنے والوں نے انہیں ازخود تنظیم نو کا موقع دے دیا ۔ انہوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھا کرسابقہ نااہل عہدہ داروں سے پیچھا چھڑا لیااورقابلِ اعتماد لوگوں اہم قومی ذمہ داریوں پر فائز کر کے دشمنوں کا داؤں انہیں پر الٹ دیا ۔اس کے ساتھ ساری دنیا نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اقتدار کی اصل باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ؟
مصرکے ذرائع ابلاغ یہ خبر اچھالتے رہے ہیں کہ مورسی بہت ہی کمزور صدر ہیں اور انہوں نے اپنی ہی طرح ایک نامعلوم اور غیر تجربہ کارشخص کو وزیر اعظم بنا دیا ہے لیکن قوم کی اس نازک گھڑی میں صدر مورسی نے صحرائےسیناء کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے جاری آپریشن کی قیادت بنفس نفیس اپنے ہاتھ میں لے کریہ غلط فہمی بھی دور کر دی ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ یہ آپریشن سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہونے تک جاری رہے گا اور میں خود لمحہ بہ لمحہ اس کی نگرانی کروں گا۔مصری روزنامے "الیوم السابع"سے ایک خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہاکہ شہریوں، پولیس اور فوجی اہلکاروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ جس کسی نے اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کی، تو میں انہیں ادب سکھانے کے لئے خود آؤں گا۔ سیکیورٹی امن کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ ہدف قانون کے مساویانہ نفاذ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ وطنِ عزیز میں کسی پر ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔
ان اقدامات کے بعد مورسی نے رفح کراسنگ کا دورہ کیا سرحد پر موجود فوجیوں کے ہمراہ ایک فوجی چوکی میں زمین پر بیٹھ کر افطارکرنے کے بعد اعلان کیا کہ ان کا ملک، قومی شہیدوں کے خون کا قصاص لینے پر مصر ہے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں بتایا کہ اہل سیناء اپنے علاقے کی ترقی کی خاطر زمین اور دیگر وسائل استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ غزہ کی پٹی کے ساتھ رفح بارڈر کراسنگ کو پھر سے کھول دیا گیا اور اس سرحدی گزرگاہ سے فلسطینیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ۔صدر کےیہ اقدامات اور اعلانات اس شعر کے ترجمان بن گئے ؎
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہوجائے گی
اخوان المسلمون نے اپنے ایک بیان میں اس حملہ کو موساد کی حرکت قراردیا اور کہا اسرائیل ہمیشہ سے حسنی مبارک کا حامی رہا ہے اور اب وہ اخوانی صدر کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا اسی لئے اس نے یہ حرکت کی ہوگی ۔فلسطینی اسلامی تحریک مزاحمت ‘‘حماس’’ کے سیاسی شعبہ کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ مصری فوجیوں پر قاتلانہ حملے میں کوئی فلسطینی یا غزہ کا شہری ملوث نہیں تھا۔ابو مرزوق سے جب پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں رفح حملے میں کون ملوث ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اس حملے میں اسرائیل ملوث ہے کیونکہ مصری فوجیوں پر حملہ صرف اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی جہادی تنظیم روزہ دار مسلمان بھائیوں پر اس وقت حملہ کر دے جب وہ افطاری کی تیاری کر رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے کے نتائج چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہوں تاہم فائدہ صرف اسرائیل کو پہنچنا تھا اور حملہ آور فرار بھی اسرائیل کی طرف ہو رہے تھے۔ڈاکٹر ابو مرزوق نے کہا کہ فوجیوں کے قتل پر جو دکھ مصری عوام کو پہنچا ہے، فلسطینیوں نے بھی اتنا ہی دکھ محسوس کیا ہے۔ حماس پر اس طرح کی کارروائیوں کا الزام شیطانی چال اور سازش کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔اس طرح گویا فلسطینیوں اور مصریوں کے درمیان ناچاقی پیدا کرنے کی یہ ناپاک سازش دونوں فریقوں نے مل کر ناکام بنا دی ۔
ایران کے نائب صدر کی واپسی کے بعد قطر کے امیر حماد بن خلیفہ الثانی نے مصر کا دورہ کیا اور باہمی تعاون کے مسئلہ پر صدرِ مملکت سےتبادلۂ خیال کیا ۔ اس نشست کے بعد قطر نے ۲۰۰کروڈ ڈالر مصر کے خزانے میں جمع کرائے اس طرح مصر کے اندرقطری سرمایہ کاری کاسال رواں میں ۷۴ فی صد اضافہ ہوا ہے ۔ویسے قطر کو ہمیشہ سے اخوان کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے ۔اسرائیل کے حکام ابھی اس حملہ کے ذریعہ اپنے مقاصد کی بازیابی میں ناکامی سے ابھر بھی نہ پائے تھے کہ ایک اور اور بری خبر ان کے کانوں سے ٹکرائی ۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پایا جانے والا اختلاف اورسعودی عرب کے ساتھ امریکہ کی دوستی سےاسرائیل کو بڑی امیدیں وابستہ رہتی ہیں لیکن اس بار یہ تشویشناک خبر سعودی عرب سے آئی تھی ۔
یوپی آئی نیوز نے اسرائیلی روزنامہ یدیعوت احرنوت کے مطابق سعودی عرب نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ اسے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے گا اور اس سے گزر کر ایران پر حملہ کرنےکےلیے جانے والے اسرائیلی جنگی طیاروں کو مارگرائے گا۔اسرائیل عرصۂ دراز سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ ایسی خبریں بھی آرہی تھیں امریکی صدر براک اوبامہ نے اسرائیل کو انتخاب سے قبل حملہ کی اجازت دے دی ہے ۔ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے لیے تین فضائی راستوں میں سے کوئی ایک استعمال کرسکتا ہے۔اوّل شمالی روٹ ہے،جو ترکی اور شام کی فضائی حدود سے گزرتا ہے۔ دوسرا جنوبی راستہ ہے جو سعودی عرب کے اوپرسے گزرتا ہے اور تیسرا درمیانی ہے جو اردن اور عراق سے گزرتا ہے۔ ایک زمانے میں عراق ایران کا دشمن تھا اور ترکی اسرائیل کا دوست تھا ، سعودی عرب سے ایران کے تعلقات اس قدر کشیدہ تھے کہ وہ ایران کے خلاف خاموش تماشائی بن سکتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں ، عراق میں ایران کی ہمدرد حکومت قائم ہو گئی ہے ۔ شام ایران کی مدد کرنے پر مجبور ہے اور سعودی عرب نے اسرائیل کو اپنے فضائی حدود کے استعمال سے منع کردیاہے ۔چند سال قبل اس حیرت انگیز تبدیلی کا تصور بھی محال تھا اسی لئے کہنا پڑتا ہے ؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس کا تہران میں ایران کی سربراہی منعقد ہونا بجائے خود اسرائیل اور امریکہ کیلئے پر یشانی کا سبب تھا اس پر اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کا بذاتِ خود اس میں شریک ہونے کا اعلان ان دونوں شیطانوں کیلئے عذابِ جان بن گیا اسی لئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بان کی مون کے دورہ ایران کو غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ غیر جانبدار کانفرنس میں ان کی شرکت سے ایران کو حوصلہ ملے گا۔اور اس عمل سے ایران کے جوہری پروگرام کو بڑھاوا ملے گا اور اسے ایران کےجوہری پروگرام کو اقوام متحدہ کی حمایت تصور کیاجائے گا جو کسی بھی وقت اسرائیلی دفاع کے لئے خطرہ بن سکتا ہے لہذا بان کی مون کو اس دورے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کانفرنس میں بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری سمیت پچاس سے زائد ملکوں کے سربراہانِ مملکت نے شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب سنا ہےامریکی حکومت سعودی عرب کے شاہ عبداللہ پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک نہ ہوں لیکن اگر شاہ عبداللہ ، صدر محمدمورسی اورصدراحمدی نژادایک اسٹیج پر جمع ہو جاتے ہیں تویہ تاریخی اتحاد اس شعر کی عملی تفسیر بن جائیگا ؎
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
غیر وابستہ ممالک کی تحریک اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے لیکن اسے یو این او پر اس طرح فوقیت حاصل ہے کہ اس کی بنیاد امتیاز و تفریق پر نہیں بلکہ عدل و مساوات پر رکھی گئی ۔اس میں کسی ملک کو ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ اس کے ارکان میں سے تین چوتھائی آزاد فلسطین کے حامی ہیں ۔ اب وقت آ گیا ہے یہ تنظیم اپنا مؤثر کر دار ادا کرنا شروع کرے اور اقوام ِ متحدہ کا متبادل بن کر ابھرے ۔ اس لئے کہ یوروپ کے ممالک ایک کر کے قلاش ہوتے جارہے ہیں اور امریکہ دن بدن اپنے بوجھ سے ٹوٹتا جارہا ہے ۔ اگر یہ تحریک جس میں مسلم ممالک کا مؤثر کردار ہے فعال ہو جاتی ہے تو ممکن ہے اقوام متحدہ کے توسط سے قائم یوروپ و امریکہ کی عالمی بالا دستی کا خاتمہ ہو جائےاورکوئی بعید نہیں کہ اہلِ اسلام کی سربلندی کا راستہ ہموار ہوجائےاگر ایسا ہوجاتا ہے تو ؎
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی
مضمون بشکریہ
ڈاکٹر سلیم خان
ربط
http://www.urduvb.com/forum/archive/index.php/t-28129.html
 
ز
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب مصر نے ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب اور ایران نے مصر و اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کے باعث ایک دوسرے سے تعلقات توڑ لئے تھے ۔یہ حسن اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا دونوں واقعات ؁۱۹۷۹ میں وقوع پذیر ہوئے ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ غیر جانبدار ممالک کی تحریک کا حالیہ اجلاس تہران میں منعقد ہو رہا ہے ۔ اس کی صدارت ایران کررہا ہے اور وہ کانفرنس کے بعد اپنے اس منصب کوآئندہ سال کیلئے مصر کے حوالے کرنے جارہا ہے ۔اس کانفرنس کی تیاری کیلئے وزرائے خارجہ کا اجلاس مصر کے شہر شرم الشیخ کے اندر ماہِ مئی میں منعقد ہواجس میں ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحہ شریک ہوئے ۔ ایران کے نائب صدرمحمد رضا رحیمی نےبنفسِ نفیس قاہرہ کا دورہ کرکے صدر محمد مورسی سے ملاقات کی اور انہیں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ اعزاز غیر جانبدار ممالک کی تحریک کے ۱۲۰ارکان ممالک اور ۲۱ مشاہدین میں سے صرف مصری صدر کیلئے مختص تھا ۔حالانکہ شام کے معاملے میں دونوں ممالک کا موقف مختلف ہے اور مورسی نے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا تھا اور اب پھر سے مصر اور سعودی عرب کے درمیان بحر احمر پر بنائے جانے والے رابطہ پل کی تعمیر کاکام شروع ہوا چاہتا ہے ۔مورسی اور رحیمی کی ملاقات علامہ اقبال کے اس شعر کی مصداق تھی ؎
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
مصر کے اندر گزشتہ سال انقلاب کے بعد حسنی مبارک سے اقتدار فوجی کاؤنسل نے ہتھیا لیا تھا۔ اس وقت کےنائب وزیر دفاع محمد مختار الملا تھا نے ایک مرتبہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلح افواج کی سپریم کونسل انتہا پسند دھڑوں کو مصر پر کنٹرول کرنےکی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مصر پر کسی خمینی کی حکمرانی نہیں چلے گی۔ مصر کی حکمران فوجی کونسل ان کے ملک پر کسی اور خمینی کی حکومت قائم نہیں ہونے دےگی ۔ محمد مختارکا اشارہ اخوان کی جانب تھا۔اکثرو بیشتر مغرب زدہ حکمرانوں کی مانند وہ بھی اسلام پسندوں کی روز افزوں کی پذیرائی سے پریشان تھے لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے اس عزم کا بھی اعادہ بھی کیا تھاکہ فوجی کونسل پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے بعد اقتدار سول حکومت کے حوالے کردے گی نیز اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرے گی۔ بیچارے محمد مختار یہ نہیں جانتے تھے کہ مذکورہ دونوں شرائط بیک وقت پوری نہیں ہوسکتیں اگر غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد ہوجاتا ہے تو یقیناً اقتدار انہیں لوگوں کے سپرد کرنا ہوگا جن سےوہ خدا واسطے کا بیررکھتے ہیں اور یہی ہوا ۔ انتخاب کے بعد مختار صاحب بے اختیار ہو گئے ۔بقول اقبال ؎
دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل
موجِ مضطر ہی اسے زنجیرِ پا ہوجا ئے گی
ایران و مصر کے درمیان ہونے والی پیش رفت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلینا نہ ہی امریکہ کیلئے ممکن تھا اور نہ ہی اسرائیل ایسے موقع پرخاموش تماشائی بنا رہ سکتا تھا ۔اس لئے اس دورے سے تین دن قبل رفح سرحد پر ایک ایسا غیر معمولی سانحہ برپا کیا گیا جس سے اخوان اور مورسی دونوں کے خلاف یکلخت فضا تیار ہوگئی ۔ عین افطار کے وقت اسرائیل سے لگی ایک فوجی چوکی پر جنگؤوں نے حملہ کر دیا جس میں حفاظتی دستے کے ۱۶ اہلکار جان بحق ہوگئے ۔ پھر کیا تھا ذرائع ابلاغ نے اس حملہ کیلئے اخوان کوموردِ الزام ٹھہرادیا اور صدر کو فوجیوں کا قاتل بنا کر پیش کردیا ۔ فضا اس قدر مکدر کر دی گئی کہ محمد مورسی کو جنازے میں شرکت سے احتراز کرنا پڑا نیز وزیر اعظم حشام قندیل کو جلوسِ جنازہ کے اندر احتجاج اور غم وغصہ کا سامنا کرنا پڑا ۔ایسا لگنے لگا کہ کسی بھی لمحہ پھر ایک بار فوجی جنرل حرکت میں آئیں گے اور قومی سلامتی کا بہانہ بنا کر عوامی نمائندوں کو اقتدار سے محروم کر دیں گے ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو اسرائیل کے وارے نیارے ہوجاتے ۔ وہ پھر ایک بار فلسطینیوں اور مصریوں کے درمیان اختلاف پیدا کرکے اپنا الو سیدھا کر لیتے ۔لیکن وہ سب تو نہیں ہوا ہاں جو کچھ ہوا وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی مصداق تھا ؎
نالۂ صیّاد سے ہوں گے نوا ساما ں طیور
خونِ گل چیں سے کلی رنگیں قبا ہوجائے گی
مصر میں اخوان المسلمون کی کامیابی پر سابق صدر حسنی مبارک کے حامی ذرائع ابلاغ سیخ پا ہیں۔ ملک کے بیشتر اخبارات اور نشریاتی ادارے سابق دور کے پروردہ ہیں۔ اسی لئے وہ موجودہ حکومت کے خلاف مسلسل زہر افشانی کر تےرہتے ہیں۔ انہی میں الفراعین ٹی وی چینل بھی شامل ہے، جو سابق صدر حسنی مبارک کی اندھی حمایت میں پیش پیش رہا ہے۔ ‘‘الفراعین’’ ٹی وی کے مالک توفیق عکاشہ نے صدر محمد مورسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے ساتھ سیاہ وحشی موجود ہیں جو انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گےاور صدر محمد مورسی کا منصب صدارت پر فائز ہونا صہیونیوں اور اسرائیلیوں کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ انہیں صدر محمد مورسی کی طرف سے لاحق خطرات سے آگاہ رہنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ توفیق عکاشہ نے صدر محمد مورسی کو ہلاک شدگان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا اس لئے کہ فوجیوں کو تحفظ دلانے میں ناکامی پر عوام کے اندر صدر مورسی کے خلاف سخت غصہ ہے۔ اگر وہ مقتولین کے جنازوں میں شریک ہوئے تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو گا۔
یہ کوئی ہمدردانہ مشورہ نہیں تھا بلکہ اس سے عوام کو اکسانہ مقصود تھا ایک اور صحافی باقری نے بھی اسی طرح عوام کواخوان کے خلاف اشتعال دلانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں قاہرہ کے اندر اخوان کے دو دفاتر کو منصوبہ بند طریقہ پر دن دہاڑے نذرآتش کر دیا گیا ۔ کسی بر سرِ اقتدار جماعت کے دفتر کو دارالخلافہ کے اندر جلانے کا یہ انوکھا واقعہ تھا ۔یہ لوگ قوم کی اس نازک گھڑی میں عوام کو بغاوت پر اکسا رہے تھے لیکن پھر حکومت حرکت میں آئی اور اس نے الفراعین کی نشریات پر ایک ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی نیز ٹی وی کی انتظامیہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے حدود سے تجاوز کا سلسلہ جاری رکھا تو لائسنس منسوخ کر دیا جائے گاْ۔ جو لوگ اپنے مخالف کی شرافت کو اس کی کمزوری سمجھتے ہیں انہیں اسی طرح کے انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔
مصری صدرنے اپنے پہلے صدارتی حکم نامہ کے بعد جس سے خاصہ ہنگامہ ہوا تھا اس صورتحال میں ایک اور حکم نامہ جاری کر دیا اورخفیہ ایجنسی کےچیف مراد موافی کو جبراً ریٹائر اور شمالی سیناء کے گورنر عبدالوہاب مبروک کو بر طرف کر دیا ۔نیز فوج اور خفیہ اداروں کی تنظیم نو کا حکم دےدیا ہے۔ محمد رافت عبدالواحد شہاتہ کو مراد موافی کی جگہ خفیہ ادارے جنرل انٹیلی جنس کا عبوری سربراہ مقرر کردیا گیااور وزیر دفاع فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی کو ملٹری پولیس کا نیا سربراہ تلاش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس کے علاوہ ملٹری پولیس کے سربراہ حامدی بدین کو شہید فوجیوں کے جنازے کو محفوظ بنانے میں ناکامی کے باعث تبدیل کیا گیا ۔ میجر جنرل احمد محمد ذکی کو صدارتی حفاظتی دستہ کا سربراہ نامزد کیا گیا میجر جنرل اسامہ محمد الصغیرکو وزیر داخلہ کا نائب بنایا گیا ۔اس طرح گویا صدر مورسی کو کمزور کرنے کا خواب دیکھنے والوں نے انہیں ازخود تنظیم نو کا موقع دے دیا ۔ انہوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھا کرسابقہ نااہل عہدہ داروں سے پیچھا چھڑا لیااورقابلِ اعتماد لوگوں اہم قومی ذمہ داریوں پر فائز کر کے دشمنوں کا داؤں انہیں پر الٹ دیا ۔اس کے ساتھ ساری دنیا نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اقتدار کی اصل باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ؟
مصرکے ذرائع ابلاغ یہ خبر اچھالتے رہے ہیں کہ مورسی بہت ہی کمزور صدر ہیں اور انہوں نے اپنی ہی طرح ایک نامعلوم اور غیر تجربہ کارشخص کو وزیر اعظم بنا دیا ہے لیکن قوم کی اس نازک گھڑی میں صدر مورسی نے صحرائےسیناء کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے جاری آپریشن کی قیادت بنفس نفیس اپنے ہاتھ میں لے کریہ غلط فہمی بھی دور کر دی ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ یہ آپریشن سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہونے تک جاری رہے گا اور میں خود لمحہ بہ لمحہ اس کی نگرانی کروں گا۔مصری روزنامے "الیوم السابع"سے ایک خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہاکہ شہریوں، پولیس اور فوجی اہلکاروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ جس کسی نے اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کی، تو میں انہیں ادب سکھانے کے لئے خود آؤں گا۔ سیکیورٹی امن کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ ہدف قانون کے مساویانہ نفاذ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ وطنِ عزیز میں کسی پر ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔
ان اقدامات کے بعد مورسی نے رفح کراسنگ کا دورہ کیا سرحد پر موجود فوجیوں کے ہمراہ ایک فوجی چوکی میں زمین پر بیٹھ کر افطارکرنے کے بعد اعلان کیا کہ ان کا ملک، قومی شہیدوں کے خون کا قصاص لینے پر مصر ہے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں بتایا کہ اہل سیناء اپنے علاقے کی ترقی کی خاطر زمین اور دیگر وسائل استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ غزہ کی پٹی کے ساتھ رفح بارڈر کراسنگ کو پھر سے کھول دیا گیا اور اس سرحدی گزرگاہ سے فلسطینیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ۔صدر کےیہ اقدامات اور اعلانات اس شعر کے ترجمان بن گئے ؎
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہوجائے گی
اخوان المسلمون نے اپنے ایک بیان میں اس حملہ کو موساد کی حرکت قراردیا اور کہا اسرائیل ہمیشہ سے حسنی مبارک کا حامی رہا ہے اور اب وہ اخوانی صدر کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا اسی لئے اس نے یہ حرکت کی ہوگی ۔فلسطینی اسلامی تحریک مزاحمت ‘‘حماس’’ کے سیاسی شعبہ کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ مصری فوجیوں پر قاتلانہ حملے میں کوئی فلسطینی یا غزہ کا شہری ملوث نہیں تھا۔ابو مرزوق سے جب پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں رفح حملے میں کون ملوث ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اس حملے میں اسرائیل ملوث ہے کیونکہ مصری فوجیوں پر حملہ صرف اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی جہادی تنظیم روزہ دار مسلمان بھائیوں پر اس وقت حملہ کر دے جب وہ افطاری کی تیاری کر رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے کے نتائج چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہوں تاہم فائدہ صرف اسرائیل کو پہنچنا تھا اور حملہ آور فرار بھی اسرائیل کی طرف ہو رہے تھے۔ڈاکٹر ابو مرزوق نے کہا کہ فوجیوں کے قتل پر جو دکھ مصری عوام کو پہنچا ہے، فلسطینیوں نے بھی اتنا ہی دکھ محسوس کیا ہے۔ حماس پر اس طرح کی کارروائیوں کا الزام شیطانی چال اور سازش کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔اس طرح گویا فلسطینیوں اور مصریوں کے درمیان ناچاقی پیدا کرنے کی یہ ناپاک سازش دونوں فریقوں نے مل کر ناکام بنا دی ۔
ایران کے نائب صدر کی واپسی کے بعد قطر کے امیر حماد بن خلیفہ الثانی نے مصر کا دورہ کیا اور باہمی تعاون کے مسئلہ پر صدرِ مملکت سےتبادلۂ خیال کیا ۔ اس نشست کے بعد قطر نے ۲۰۰کروڈ ڈالر مصر کے خزانے میں جمع کرائے اس طرح مصر کے اندرقطری سرمایہ کاری کاسال رواں میں ۷۴ فی صد اضافہ ہوا ہے ۔ویسے قطر کو ہمیشہ سے اخوان کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے ۔اسرائیل کے حکام ابھی اس حملہ کے ذریعہ اپنے مقاصد کی بازیابی میں ناکامی سے ابھر بھی نہ پائے تھے کہ ایک اور اور بری خبر ان کے کانوں سے ٹکرائی ۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پایا جانے والا اختلاف اورسعودی عرب کے ساتھ امریکہ کی دوستی سےاسرائیل کو بڑی امیدیں وابستہ رہتی ہیں لیکن اس بار یہ تشویشناک خبر سعودی عرب سے آئی تھی ۔
یوپی آئی نیوز نے اسرائیلی روزنامہ یدیعوت احرنوت کے مطابق سعودی عرب نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ اسے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے گا اور اس سے گزر کر ایران پر حملہ کرنےکےلیے جانے والے اسرائیلی جنگی طیاروں کو مارگرائے گا۔اسرائیل عرصۂ دراز سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ ایسی خبریں بھی آرہی تھیں امریکی صدر براک اوبامہ نے اسرائیل کو انتخاب سے قبل حملہ کی اجازت دے دی ہے ۔ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے لیے تین فضائی راستوں میں سے کوئی ایک استعمال کرسکتا ہے۔اوّل شمالی روٹ ہے،جو ترکی اور شام کی فضائی حدود سے گزرتا ہے۔ دوسرا جنوبی راستہ ہے جو سعودی عرب کے اوپرسے گزرتا ہے اور تیسرا درمیانی ہے جو اردن اور عراق سے گزرتا ہے۔ ایک زمانے میں عراق ایران کا دشمن تھا اور ترکی اسرائیل کا دوست تھا ، سعودی عرب سے ایران کے تعلقات اس قدر کشیدہ تھے کہ وہ ایران کے خلاف خاموش تماشائی بن سکتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں ، عراق میں ایران کی ہمدرد حکومت قائم ہو گئی ہے ۔ شام ایران کی مدد کرنے پر مجبور ہے اور سعودی عرب نے اسرائیل کو اپنے فضائی حدود کے استعمال سے منع کردیاہے ۔چند سال قبل اس حیرت انگیز تبدیلی کا تصور بھی محال تھا اسی لئے کہنا پڑتا ہے ؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس کا تہران میں ایران کی سربراہی منعقد ہونا بجائے خود اسرائیل اور امریکہ کیلئے پر یشانی کا سبب تھا اس پر اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کا بذاتِ خود اس میں شریک ہونے کا اعلان ان دونوں شیطانوں کیلئے عذابِ جان بن گیا اسی لئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بان کی مون کے دورہ ایران کو غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ غیر جانبدار کانفرنس میں ان کی شرکت سے ایران کو حوصلہ ملے گا۔اور اس عمل سے ایران کے جوہری پروگرام کو بڑھاوا ملے گا اور اسے ایران کےجوہری پروگرام کو اقوام متحدہ کی حمایت تصور کیاجائے گا جو کسی بھی وقت اسرائیلی دفاع کے لئے خطرہ بن سکتا ہے لہذا بان کی مون کو اس دورے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کانفرنس میں بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری سمیت پچاس سے زائد ملکوں کے سربراہانِ مملکت نے شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب سنا ہےامریکی حکومت سعودی عرب کے شاہ عبداللہ پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک نہ ہوں لیکن اگر شاہ عبداللہ ، صدر محمدمورسی اورصدراحمدی نژادایک اسٹیج پر جمع ہو جاتے ہیں تویہ تاریخی اتحاد اس شعر کی عملی تفسیر بن جائیگا ؎
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
غیر وابستہ ممالک کی تحریک اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے لیکن اسے یو این او پر اس طرح فوقیت حاصل ہے کہ اس کی بنیاد امتیاز و تفریق پر نہیں بلکہ عدل و مساوات پر رکھی گئی ۔اس میں کسی ملک کو ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ اس کے ارکان میں سے تین چوتھائی آزاد فلسطین کے حامی ہیں ۔ اب وقت آ گیا ہے یہ تنظیم اپنا مؤثر کر دار ادا کرنا شروع کرے اور اقوام ِ متحدہ کا متبادل بن کر ابھرے ۔ اس لئے کہ یوروپ کے ممالک ایک کر کے قلاش ہوتے جارہے ہیں اور امریکہ دن بدن اپنے بوجھ سے ٹوٹتا جارہا ہے ۔ اگر یہ تحریک جس میں مسلم ممالک کا مؤثر کردار ہے فعال ہو جاتی ہے تو ممکن ہے اقوام متحدہ کے توسط سے قائم یوروپ و امریکہ کی عالمی بالا دستی کا خاتمہ ہو جائےاورکوئی بعید نہیں کہ اہلِ اسلام کی سربلندی کا راستہ ہموار ہوجائےاگر ایسا ہوجاتا ہے تو ؎
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی
مضمون بشکریہ
ڈاکٹر سلیم خان
ربط
http://www.urduvb.com/forum/archive/index.php/t-28129.html
زبردست حصہ ڈالا ہے شاہ جی۔ خوش رہئے۔
 
دنیا کیا سے کیا ہوگئی۔۔۔ ۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
بس کیا کریں بھائی مسلم ممالک میں ہی کچھ ایسے ہیں جو اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیتے
ان میں سعودی عرب اور ایران قابل ذکر ہیں
 
شاہ جی۔۔۔ ریٹنگ تو ہو چکی۔۔۔
یہ مراسلہ تو صرف دعائیں پانے کے لئے ہے۔۔۔ :)
دعاؤں کی جھولی تو کبھی خالی نہیں ہوتی :)
اللہ آپ کی ہر پریشانی اور مشکل آسان فرمائے فراخی رزق علم اور عمر میں برکت عطا فرمائے آمین
 
Top