محو تسبیح

نور وجدان

لائبریرین
ہر کوئی محوِ تسبیح ہے مگر ادراک کَہاں

جگرمراد آبادی کے شعر کا یہ مصرعہ بہت پرلطف ہے گویا وہ کائنات کی ہرشے میں معنویت تلاش کررہے ہیں. خود خدا نے ہر شے کی مقصدیت کے بارے میں فرمایا ہے

سبح للہ ما فی السموت والارض

ہر شے جو زمین و آسمان میں ہے وہ اللہ کی تسبیح میں ہے. اگر خدا نے یَہاں ذکر کا لفظ استعمال کیا تھا تو کشمکش ہوجاتی ہے مگر تسبیح میں (کفر و یقین) دونوں کا استدلال ممکن ہے اس لیے ایسی بھی کشمکش نَہیں ہے........ تسبیح سے مراد تخلیق کی اپنے خالق سے ربط بذریعہ خیال ---- وہ خیال جس کے لیے خالق نے اُسے سوچا، چاہا کہ وہ ایسے ایسے کام کرے ---- اس نے ویسا کام یا ویسے خیال میں غرق ہوتے اللہ سے ربط قائم رکھا ہوا ہے. کائنات کا خودکار نظام اسی تسبیح سے چل رہا ہے .جیسا کہ خدا فرماتا ہے دن کی مجال نہیں وہ رات کو پکڑ لے یا رات دن سے قبل آجائے.

شیطٰن نے بھی کیا خدا کی تسبیح بیان کی؟ شیطن کی عبادت اسکا خدا سے ذکر تھا اور اسکی اطاعت میں چھپی بغاوت اور انکار کا رستہ بھی کیا اسکا خدا تک پہنچنے کا رستہ ہے؟ یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ شیطٰن کا انکار و اطاعت و بندگی سے بندے کو ہٹانا بھی وہبی ہے، کسبی نَہیں ہے..... شیطٰن آزاد نَہیں ہے تو کیا حضرتِ انسان آزاد ہے؟

یا آزادی کے نام پر بہلائے گئے ہیں؟

مجھ میں، اس میں --- اسکی پھونک ہے...انسان خلیفتہ اللہ ہے ....یعنی خدا کے بعد مقرر ہونے والا ---- جس میں پوشیدہ ہے خدا کا جاہ جلال بھی، جمال و انداز بھی، علم الارض و افلاک و حال بھی .......... میں نے سوچا کہ مری مرضیہے؟ ایسا لگتا ہے میں اس کے بڑے منصوبے کا اک جزو ہوں ....اگر میں کشمکش میں رہوں --- اس نے مری کشمکش چاہی....اگر میں اقرار و تسلیم میں، اس نے ایسا چاہا .....میں انکار و رد پر آجاؤں --- اس نے ایسا چاہا --- یہ تسبیح مجھ سے مرے ہونے کی معنویت و مقصدیت کے خیال میں غرق کا نام تو ہے ---- میں کون ہوں سے، میں ہوں تلک ----- سب میں وہ ہے ....گویا کفر میں وہ ہے اور اقرار میں وہ ظاہر ہے.....

اس لحاظ نفع و خسارہ کیسا ہے؟ جنت و دوذخ کیا ہے؟ اچھائی و برائی کیا ہے؟ انتخاب کا حق کیا ہے؟ یہ سب سوالات جو بیت چکے ہیں یا بیت چکے ہیں --- وہ اسکے خیال میں پہلے بیت چکے ہیں اور میں اس بیتن کی آگ میں سہکتے دہکتے دکھ و سکھ کا چلھا چلانے میں محو ہوِں ...
 
Top