مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

سیما علی

لائبریرین
میں نے ندی کنارے لڑکیوں کو پانی بھرتے دیکھا اور میں دیر تک کھڑا ان کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ پانی بھرنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے اور رکوع میں جائے بغیر پانی نہیں بھرا جا سکتا ۔ ہر شخص کو رکوع میں جانے کا فن اچھی طرح سے آنا چاہیے تا کہ وہ زندگی کی ندی سے پانی بھر سکے ، اور سَیر ہو سکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسان جھکنے اور خم کھانے کا آرٹ آہستہ آہستہ بھول رہا ہے اور اس کی زبردست طاقتور انا اس کو یہ کام نہیں کرنے دیتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دعائیں اور ساری عبادت اکارت جا رہی ہے اور انسان اکھڑا اکھڑا سا ہو گیا ہے ۔
اصل میں زندگی ایک کشمکش اور جدوجہد بن کر رہ گئی ہے ۔ اور اس میں وہ مٹھاس ، وہ ٹھنڈک اور شیرینی باقی نہیں رہی جو حسن اور توازن اور ہارمنی کی جان تھی ۔ اس وقت زندگی سے جھکنے اور رکوع کرنے کا پر اسرار راز رخصت ہو چکا ہے ۔ اور اس کی جگہ محض جدوجہد باقی رہ گئی ہے ۔ ایک کشمکش اور مسلسل تگ و تاز ۔
لیکن ایک بات یاد رہے کہ یہ جھکنے اور رکوع میں جانے کا آرٹ بلا ارادہ ہو ورنہ یہ بھی تصنع اور ریاکاری بن جائے گا ۔ اور یہ جھکنا بھی انا کی ایک شان کہلائے گا ۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 558​
ناعمہ عزیز بی بی!!!!
جیتی رہیے بے حد عمدہ اقتباسات ۔ جو کے کتابیں پڑھ چکی تھی انکے بھی پڑھنے کا لطف دوبارہ آیا۔۔۔ تمام اقتباسات انمول۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
دلّی والے بڑے چٹورے مشہور تھے۔ دراصل وہ خوب کماتےتھے اور خوب کھاتے تھے ۔ خوش باش اور بے فکرے تھے۔ کوڑی تک کفن کو لگا نہیں رکھتے تھے۔ جزرس اور کنجوس آدمی کو منحوس سمجھتے تھے اور اس کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ کبھی صبح ہی صبح اگر کسی ایسے کی شکل اتفاقاً نظر آجاتی تو اندیشہ کرتے کہ دیکھئے آج کیا افتاد پڑتی ہے۔ اکژ ہوتا بھی یہی تھا کہ ان کے وہم کی وجہ سے کوئی نہ کوئی پریشانی پیش آجاتی تھی۔۔۔۔
۔
دلی والوں کی مثل تھی کہ ‘‘ایک داڑھ چلے ستّر بلا ٹلے’’۔کھانے کا تھک جانا ہی روگ کی جڑ ہے۔ دلّی والے گھر میں بھی اچھا کھاتے تھے اور باہر بھی ۔ غریبوں میں تو سبھی گھر والیاں خود کھانا پکاتی تھیں۔ اوسط درجے کے گھروں میں بھی سالن کی ایک یا دو ہنڈیا ں گھر والی بی بی خود پکاتی تھی۔ روٹی ڈالنے کے لیے ماما رکھی جاتی تھی۔ بغیر گوشت کے غریبوں کے حلق سے بھی روٹی نہیں اترتی تھی۔ اگر گوشت نہ ہونے کے باعث دال پکتی تو اس پر بھی دو دو انگل گھی کا کھڑا ہونا ضروری تھا ۔ سادی ترکاری کو ہندوؤں کا کھانا بتایا جاتا تھا۔
۔
اس زمانے میں دلّی میں ہوٹلوں اور چائے خانوں کا رواج بالکل نہیں تھا۔ شام ہوتے ہی چوک کی بہار شروع ہوجاتی۔ جامع مسجد کے مشرقی رخ جو سیڑھیاں ہیں ان پر اور ان کے پہلوؤں پر ہر قسم کا سودا ملتا تھا۔ یہیں شام کوچٹورپن بھی ہوتا تھا۔ سستے سمے تھے۔ ایک پیسے میں چار سودے آتے تھے۔ دست کار شام کو دھیانگیاں لے کر آتے، دھیلی پاؤ لا گھر میں دیتے، باقی اپنی انٹی میں لگائے رہتے۔ کارخانے یا کام پر سے آنے کے بعد میلے کپڑے اتارتے اور نہا دھو کر اجلا جوڑا پہن لیتے اور چھیلا بن کر گھر سے نکلتے۔
۔
اقتباس از ‘‘اجڑے دیار کی آخری بہار’’ شاہد احمد دہلوی

۔

فرہنگ:

دھیانگی = دہاڑی، مزدوری
انٹی = گرہ
 

سیما علی

لائبریرین
“ دنیا بھر کی سیاحتی منزلوں کے راستے طے ہوتے ہیں، وہ وہاں موجودہیں یہ طے ہوتاہے ۔ پیرس روم دمشق یا قرطبہ، بہر طور وہاں ہیں تو ان کی جانب سفر کا آغاز کرتے ہوئے آپ کے بدن میں ایک پر اشتیاق سنسنی پھیلتی ہے، خون میں شیمپیئن ایسے پر خُمار گلابی بلبلے پھوٹتے ہیں لیکن یہ جو دنیا جہان کے پار الاسکا ہے ، تو یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ وہاں ہے بھی کہ نہیں......صرف نقشے ہماری ڈھارس بندھاتے ہیں کہ وہاں ہونا چاہئے......
بے شک میری کوہ نوردیوں کا آغاز سولہ برس کی عمر میں ہوا جب میں گورنمنٹ ہائی کالج کی کوہ پیمائی کی ٹیم میں شامل ہو کر رتی گلی کی چوٹی تک پنہچا تھا...لیکن میں بلندیوں کا تب اسیر ہوا ,پہاڑوں کے جاہ و جلال کے اژدھے نے بھی مجھے ڈس کر ایک خمار آلود زہر میرے بدن میں تب داخل کیا جب میں درمیانی عمر کے زوال سے آشنا ہو رہا تھا....اور اس کے باوجود میں پہاڑوں کی گوری شاہ گوری کی کنواری برفوں تک جا پہنچا تھا جو ایک معجزے سے کم نہ تھا....!....اس خُمار آلود زہر کی سیاہ
طاقت کے سہارے میں جھیل کرومبرکے بلند اور تنہا خواب میں چلا گیا........ دنیا کا طویل ترین برفانی راستہ طے کر کے سنو لیک کے راستےعافیت سے ہیسپر کے گاؤں میں جا نکلا......لیکن تب مجھ میں کچھ ہمت اور سکت تھی ، ڈھٹائی تھی اور اب.......نہ ہمت تھی اور نہ سکت البتہ ڈھٹائی جوں کی توں موجود تھی......... مجھے کونج پر انحصار کرنا تھا کہ وہ مجھے اپنے پروں کے سہارے الاسکا تک لے جائے........وہ میری بیساکھی تھی....

الاسکا کے سفرکی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایک اور"ٹریجڈی" ہو گئی.......
مجھے خبر ہی نہ تھی..............
جیسے شمس تبریز نے مولانا روم کو کتابوں کے انبار میں محو مطالعہ دیکھ کر اپنی دیوانگی میں سوال کیا تھا کہ..........
یہ کیا ہے ؟
مولانا نے اپنے سرکاری درباری تکبر کے زعم میں نخوت سے کہا تھا کہ یہ وہ ہے جسکی تمہیں خبر نہیں...
تو اسی ساعت ان کتابوں میں آگ لگ گئی اور مولانا ہراساں ہو کر بولے..... یہ کیا ہے تو شمس تبریز نے بے اعتنائی میں کہا........یہ وہ ہے جسکی تمہیں خبر نہیں......

تو میں بھی وہ تھا جسے خبر نہ تھی.......!!”

مستنصر حسین تارڑ ۔ سفرنامے “الاسکا ہائی وے” سے اقتباس۔
 

سیما علی

لائبریرین

کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سہارا بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور گیس میں بدل جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے، جو موسم، جو رُت، جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔
(راجہ گدھ سے اقتباس)بانو قدسیہ
 

سیما علی

لائبریرین
بھلا زوال کیا ہوا تھا؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ابلیس کا گناہ فقط تکبر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تکبر کا حاصل مایوسی ہے۔ جب ابلیس اس بات پر مصر ہوا کہ وہ مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کر سکتا تو وہ تکبر کی چوٹی پر تھا لیکن جب تکبر ناکامی سے دو چار ہوا تو ابلیس اللہ کی رحمت سے نا اُمید ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے۔ وہ بھی جنت سے نکالے گئے۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ یہی تو ساری بات ہے۔ ابلیس نے دعویٰ کر رکھا ہے، میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا۔ نااُمید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغواء ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، صلیب پر لٹکیں، وہ مایوس نہیں ہوں گے۔
(سامان وجود سے اقتباس) بانو قد سیپ
 

Lateef Malik

محفلین
کیا خوب رشتہ ہے
دنیا میں ہر چیز کا جوڑ ہے سوائے محبت کے
محبت!
نامعلوم نٹورک کا نمبر ہے جو نہ ٹریس ہوسکتا ہے نہ بلاک نہ اس پر کال ملائی جاسکتی ہے نہ پیغام نہ وٹس ایپ نہ ٹک ٹاک
محبت طوفان کی طرح ہے سیلاب کی طرح ہے جو جس قدر تیراکی برداشت کرسکتا ہے تب تک ذندہ ہے جہاں ہاتھ پاوں نے کام چھوڑا بندہ غرق
 

فہد اشرف

محفلین
کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سہارا بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور گیس میں بدل جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے، جو موسم، جو رُت، جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔
(راجہ گدھ سے اقتباس)بانو قدسیہ
کون کس کا سیارہ بنایا جائے گا۔
 
رات کو ہمارے ساتھ ٹونی کی منگیتر تھی اور اُس کی دو سہیلیاں ۔ ایک تو بالکل سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، جیسے ایک ایک عضو پر خالق نے وقت صرف کیا ہو۔ آنکھوں کی ساخت، ہونٹوں کی بناوٹ،، پیشانی، گردن۔۔۔۔ہر چیز تراشیدہ معلوم ہوتی تھی۔ یہ مجسمہ کسی بُت تراش کا خواب تھا۔

’’کون ہے یہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ڈیفنی۔‘‘

’’نہیں۔۔یہ دیوی ایتھینا ہے۔‘‘

’’تُم لندن وندن چھوڑو اور آج ہی سے بُت تراشی شروع کردو۔ یونان کا موسمِ بہار بڑا تیز ہوتا ہے۔‘‘

’’تمہارے ہاں ہر چیز میں حُسن ہے۔۔ پانی، مٹی، پتھر، انسان، سب حسین ہیں۔ تبھی یونانیوں نے شعر کہے، نغمے گائے اور بُت تراشے۔‘‘

’’وہ قدیم یونانی تھے۔ اب ہم نکمے ہیں، قلاش ہیں۔‘‘

’’لیکن تُم بہت سے ملکوں سے اچھے ہو جو مفلس بھی ہیں اور حسن سے بھی محروم ہیں۔‘‘

ڈیفنی ہماری طرف دیکھ کر مسکرارہی تھی۔

’’تُم اسے گھر چھوڑ آنا۔‘‘

’’میں راستہ بھول جاؤں گا۔‘‘

’’یہ بتادے گی۔ یہ انگریزی جانتی ہے اور اس نے ہماری باتیں سمجھ لی ہیں۔‘‘

محفل ختم ہوئی۔ ٹونی کار چھوڑ گیا۔ ڈیفنی کو میں ایکروپولس لے گیا۔ ستونوں سے چاندنی چھن چھن کر آرہی تھی۔یہ حسین کھنڈر ایک شکستہ رباب معلوم ہورہا تھا۔ میں نے اسے اس جگہ کھڑا کردیا جہاں کبھی ایتھینا کا سونے اور ہاتھی دانت کا بنا ہوا مجسمہ تھا۔

’’مجھے چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟‘‘

فڈیاس نے اپنی ساری صناعی صرف کرکے ایتھینا کا بُت بنایا۔ صدیاں گزریں یہ مجسمہ کھو گیا۔ اتنے دنوں کے بعد آج ملا ہے۔ میں ایتھنز والوں کو بتانے جارہا ہوں کہ تمہاری دیوی واپس لوٹ آئی ہے۔۔‘‘

وہ مسکرانے لگی۔’’تمہیں ہمارے ملک کے ماضی کی ساری باتیں معلوم ہیں۔۔‘‘

’’لیکن ایتھینا! یونان تمہارا ہی نہیں ، میرا بھی ہے۔مجھے بھی حسین چیزوں سے الفت ہے۔‘‘

اگلا دن ہم نے کورنتھ میں گزارا۔ سمندر میں نہارہے تھے۔بہت سی نگاہیں ہم پر تھیں۔

شاید یہ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔‘‘ وہ بولی۔

’’نہیں۔ یونانیوں کو وہ نظارہ یاد آرہا ہےجب سمندر کی لہروں سے ایک بہت بڑی سیپی کھُلی اور اس میں سے دیوی وینس شرماتی لجاتی باہر نکل آئی۔‘‘

میں پہلے ہی بہت مغرور ہوں، تُم مجھے اور بگاڑ دو گے۔‘‘

’’زیوس کے بیٹے اپولو اور ڈیفی کی کہانی مجھے یاد ہے۔ دیویاں تو ہمیشہ مغرور ہوا کرتی ہیں۔‘‘

’’مگر میں تو آرٹ کی ایک معمولی سی طالبِ علم ہوں۔‘‘

آرٹ کے مجسموں کو آرٹ پڑھنا نہیں، پڑھانا چاہیےَ‘‘

(شفیق الرحمٰن کے سفرنامے برساتی سے اقتباس۔ مزید حماقتیں)
 

شمشاد

لائبریرین
بینک کی ملازمت میں پہلے پہل جس افسر کی ماتحتی میں کام شروع کیا وہ لطیفی صاحب تھے جو نہایت ملنسار، خوش خُلق اور باتدبیر تھے۔ اُن کی اہلیت اُن کے حوصلوں کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل سکتی تھی۔ سیدھی سڑک سے اُنہیں سخت الجھن ہوتی تھی، ہمہ وقت "شارٹ کٹ" کی تلاش میں رہتے خواہ وہ کتنا ہی اوبڑ کھابڑ کیوں نہ ہو۔

دشمنوں نے اُڑا رکّھی تھی کہ چوری چھپے پانچ بسیں چلاتے ہیں جن کی آمدنی کو ہر مہینے گیارہویں کی نیاز دلوا کر پاک کر لیتے ہیں، آخر جنّت کا بھی تو کوئی شارٹ کٹ ہو گا۔ نگاہِ بدبِیں نے کہاں کہاں اُن کا تعاقّب نہ کیا۔ اتوار کو دیکھا کہ اینگلو انڈین بھبوکا چھوکریوں کو کار میں بھر کے نہلانے دھلانے "Sand's Pit" لے جا رہے ہیں۔ ابھی کار کی سیٹیں ٹھیک سے ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی ہوں گی کہ دیکھا اُسی کار میں اٹااَٹ مولوی ٹھونسے شبینہ پڑہوانے گھر لے جا رہے ہیں اور ڈِکّی میں اُتنے ہی عدد مرغیاں بھری ہوئی ہیں۔

سنیچر کی رات کو "La Gourmet" میں اِس طرح ڈانس کرتے دیکھے گئے کہ دُور سے تو یہی لگتا تھا کہ ابھی تو پنجے لڑا رہے ہیں، دم کے دم میں گُتھ مریں گے۔ اہلِ درد نے اُنہیں پاک پتن میں روضے کی جالی پکڑے اشکبار بھی دیکھا۔ خود ہم نے اُنہیں 1952 میں جُھگیوں میں سات روپے سیر کے بمبئی کے آم تقسیم کرتے دیکھا۔ کہتے تھے، "روٹی تو رُوکھی سُوکھی سب کو مل جاتی ہے، قلمی آم غریبوں کو برسوں نصیب نہیں ہوتے۔" بقر عید پر پندرہ بیس بکرے ذبح کرواتے تھے تا کہ گورنمنٹ کے بڑے افسروں کو سالم رانیں بھیج سکیں۔

چھوٹے بڑے ہر بزنس مین سے اُن کی یاد اللہ تھی، سب سے جُھک کر ملتے۔ پورے سے بھی زیادہ سُود وصول کرتے اور تاکید و تقاضے میں بھی شہد گھول دیتے۔ اپنا کام نکالنا جانتے تھے۔ زمین میں ذرا سا بھی سوراخ کرنا ہو تو پوری قوّت سے کُدال چلانی پڑتی ہے لیکن خاک بسر بیج، کومل، کھوے اور نرم و نازک پنیری کس دھیرج سے اُسی زمین کو ایک ادا سے رضامند کر کے نکل آتے ہیں۔

لطیفی صاحب کو کامیاب ہونے میں دیر نہیں لگی، اِس لئے کہ دنیا جس زاویہ سے کج ہے اُسی زاویہ تک اُنہوں نے اپنی رفتار، گُفتار اور کردار میں کجی پیدا کر لی تھی۔ فرماتے تھے، "بزنس میں صرف گھاٹا حرام ہے، باقی سب چلتا ہے۔ زندگی ایک ناٹک ہے، ہر آدمی سوانگ بھر کے اپنا اپنا ڈائلاگ بولتا ہے۔ جھوٹ سچ کا سوال کہاں؟ کٹھ پُتلیوں کے لئے کیا پاپ، کیا پُن؟"

(مشتاق احمد یوسفی کی خودنوِشت "زرگزشت" سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں دل میں اترتی ہے، پھر اس سے زیادہ مکمل، خوبصورت اور بامعنی گفتگو کوئی اور چیز نہیں کرسکتی اور یہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے اور اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے کبھی دوبارہ کچھ کہنا نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔ کچھ کہنے کی ضرورت رہتی ہی نہیں !!!
(عمیرہ احمد کے ناول ’’حاصل‘‘ سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
محبت وہ شخص کرسکتا ہے جو اندر سے خوش ہو، مطمئن ہو اور پرباش ہو۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں لگالیا ۔۔۔۔۔ سونے کا تمغہ نہیں کہ سینے پر سجالیا۔۔۔۔ پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھوڑ کر۔ محبت تو روح ہے۔۔۔۔۔ آپ کے اندر کا اندر ۔۔۔۔ آپ کی جان کی جان ۔۔۔۔۔۔ محبت کا دروازہ صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا، اپنی ایگو اور اپنے نفس سے جان چھڑا لیتے ہیں۔
(اشفاق احمد کے ناول ’’من چلے کا سودا‘‘ سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
اوتھانٹ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری لاہور آئے۔ان کا استقبال کرنے والوں میں‌،میںبھی شامل تھا۔انہوں نے وی آئی پی روم میں کچھ دیر توقف کیا۔اخباری نمائندے بھی یہاں تھے۔وہ سوال پوچھتے رہے۔اوتھانٹ ٹالتے رہے۔میں دیکھتا اور سنتا رہا۔یہ انٹرویو مایوس کن تھا۔بے معنی جملے جو بےایمانی سے قریب اور حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔بےوزن باتیں جنہیں سفارتی آداب کہتے ہیں۔بے وجہ چشم پوشی اور جان بوجھ کر پہلو تہی۔ناحق اس عہدے دار کو دنیا کا غیر رسمی وزیراعظم کہتے ہیں۔یہ شخص تو دنیا بھر سے خائف رہتا ہے اور ہماری طرح سیدھی بات بھی نہیں‌کر سکتا ہے۔آٹوگراف بک جیب میں‌ہی پڑی رہی اور دوسرے دن انکا جہاز جاپان کے شہر ناگوما چلا گیا۔بات آئی گئی ہو گئی اور ایک مدت گذر گئی۔

میں جاپان کے اسی شہر میں ٹہرا ہوا تھا۔میں نے انگریزی اخبار اور رسالہ خریدا۔میں نے جب اسے کھولا تو اس میں‌اوتھانٹ کی تصویر تھی۔وہ برما گئے اور وہاں اپنی والدہ سے ملے۔یہ تصویر اس ملاقات کے متعلق تھی۔تصویر میں‌ایک دبلی پتلی سی بڑھیا اونچی کرسی پر ننگے پاؤں بیٹھی ہے ۔معمولی لباس اور اس پر بہت سی شکنیں۔سادہ سی صورت اور اس پر بہت سی جھریاں۔چہرہ البتہ مسرت سے دمک رہا ہے۔اسکے قدموں میں اوتھانٹ ایک نفیس سوٹ پہنے بیٹھا ہے۔اس تصویر کو دیکھ کر میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو بھول چکا ہوں او راب ایک سعادت مند بیٹے کی تلاش میں ہوں‌تاکہ وہ میری آٹوگراف بک میں اپنے دستخط کر دے۔

(مختار مسعود کی کتاب“آواز دوست“ سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
یہاں کھڑے ہو کر تجھ سے انبیاء دعا مانگا کرتے تھے۔ ان کی دعاؤں اور میری دعاؤں میں فرق ہے۔ میں نبی ہوتا تو نبیوں جیسی دعا کرتا۔ ۔مگر میں تو عام بشر ہوں اور گناہ گار بشر۔ میری خواہشات میری آرزوئیں سب عام ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر کبھی کوئی کسی عورت کے لیے نہیں رویا ہوگا۔ میری زلت اور پستی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ میں حرم پاک میں ایک عورت کے لیے گڑگڑا رہا ہوں۔ مگر مجھے نہ اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں... پر۔ یہ میں نہیں تھا جس نے اس عورت کو اپنے دل میں جگہ دی۔ یہ تو نے کیا۔ کیوں میرے دل میں ایک عورت کے لیے اتنی محبت ڈال دی کہ میں تیرے سامنے کھڑا بھی اس کو یاد کر رہا ہوں؟
کیوں مجھے اس قدر بے بس کر دیا ہے کہ مجھے اپنے وجود پر بھی کوئی اختیار نہیں رہا میں وہ بشر ہوں جسے تو نے ان تمام کمزوریوں کے ساتھ بنایا ہے وہ بشر ہوں جسے تیرے سوا کوئی راستہ دیکھانے والا نہیں۔ اور وہ عورت میری زندگی کہ ھر رستے پہ کھڑی ہے۔۔
مجھے کہیں جانے کہیں پہنچنے نہیں دے رہی۔ یا تو اس کی محبت کو اس طرح میرے دل سے نکال دے کہ مجھے کبھی اس کا خیال ہی نہ آئے۔ یا پھر اسے مجھے دے دے۔ وہ نہیں ملے گی تو میں ساری زندگی اس کے لیے روتا رہوں گا۔ وہ مل جائے تو تیرے علاوہ کسی اور کے لیے آنسو نہیں بہاؤں سکوں گا۔ میرے آنسو خالص ہونے دے۔ میری محبت کو خالص ہونے دے۔
اقتباس: ناول "پیر کامل" سے
 

سیما علی

لائبریرین
ہر وقت خدا کے احسانات یاد کر ۔ غور کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے ، یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی ۔ پھر تو بے بسی محسوس کرے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے ۔ وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرے گی ۔ تُو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے نوازا ، تجھ سے محبت کی ۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں تو کتنا حقیر ہے ۔ سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری کوئی پہچان نہیں ہے ۔ کوئی تجھ پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالے گا ۔ کسی کو پرواہ نہیں ہوگی کہ الہٰی بخش بھی ہے ۔ لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے ۔ تیری ضروریات پوری کرتا ہے ۔ تیری بہتری چاہتا ہے ، تجھے اہمیت دیتا ہے ۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی ۔ اس محبت کے ساتھ بھی یہ سوچتا رہے گا تو محبت میں گہرائی پیدا ہوگی ۔ اور پھر تجھے خدا سے عشق ہو جائے گا ۔
(’’عشق کا عین‘‘ از علیم الحق حقی سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
محبت کی مانند حسد کی سلگاہٹ بھی اندھی ہوتی ہے جو بلا جواز انسان کو راکھ کرتی رہتی ہے۔ ۔ مستنصر حسین تارڑ
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ کا نام بہت زیادہ لیا جائے یا کم،اپنا اثر ضرور رکھتا ہے۔دنیا میں بعض اشیاء ایسی ہیں کہ ان کا نام لینے سے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس خالق کائنات کا نام “اللہ“لیا جائے اور اس میں اثر نہ ہو۔خود خالی نام میں بھی برکت ہے۔

(اقتباس۔۔۔شہاب نامہ)
 

سیما علی

لائبریرین
اماں سردار بیگم

اماں جی کو باسی کھانے ،پرانے ساگ،اترے ہوئے چاول اور ادھ کھائی روٹیاں بہت پسند تھیں۔دراصل وہ رزق کی قدردان تھیں ،شاہی دسترخوان کی بھوکی نہیں‌تھیں۔
میری چھوٹی آپاکئی مرتبہ خوف زدہ ہوکر اونچی آواز میں‌چیخا کرتیں:
"اماں حلیم نہ کھاؤ'پھول گیا ہے۔بلبلے اٹھ رہے ہیں‌"
"یہ ٹکڑا پھینک دیں اماں سارا جلا ہوا ہے"
"اس سالن کو مت کھائیں ،کھٹی بو آرہی ہے"
"یہ امرود ہم نے پھینک دیئے تھے،ان میں سے کیڑا نکلا تھا"
"لقمہ زمین سے نہ اٹھائیں،اس سے جراثیم چمٹ گئے ہیں"
"اس کٹورے میں نہ پئیں،باہر بھجوایا تھا"
لیکن اماں چھوٹی آپا کی خوف ناک للکاروں کی پروا کئے بغیرمزے سے کھاتی جاتیں۔
چونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں‌تھیں‌ اس لئے جراثیموں سے نہیں ڈرتی تھیں،صرف خدا سے ڈرتی تھیں۔
اقتباس "اماں سردار بیگم"
صبحانے افسانے
اشفاق احمد
 
Top