سائنس نے انسان کو رفتار دی ، لیکن یہ رفتار بے سمت و بے جہت ہے -
آج کی راہیں کوئے جاناں کو نہیں جاتیں -
آج کا انسان اپنے آپ سے فرار چاہتا ہے -
اپنے جامے سے باہر نکلنے والا انسان اپنی بے مائیگی کا احساس نہیں کرتا -
وسیع و بسیط خلا اس کسی بنانے والی کی طرف متوجہ نہیں کرتی -
انسان جلدی جلدی محنت کرتا ہے اس آدمی کی طرح جو گھاس کی رسی بن رہا تھا اور اس کے پاس اس کا گدھا اس کی بنی ہوئی رسی کو کھاتا جا رہا تھا - برسوں کی محنت کے بعد اس کی کل پونجی رسی کا اتنا حصہ تھی جو اس کے ہاتھ میں تھی -
باقی گدھا کھا چکا تھا -
انسان نے ذرے کا دل چیر کر طاقت دریافت کی ہے ، لیکن ذرے میں طاقت پیدا کرنے والے کو دریافت نے کر سکا-
انسان نے آسمانوں کے راستے دریافت کیے ہیں ، لیکن اسے دل کا راستہ نہیں ملا-
باہر کی کائنات نے انسان کو اندر کی کائنات سے غافل کر رکھا ہے -
خارجی کائنات میں رفتار ہے -
گردشیں ہیں ، عجلت ہے ، زمان و مکان کی وسعتوں میں ہر شے تیزی سے متحرک ہے -
انسان اس حرکت سے خود ہی متحرک ہو جاتا ہے
وہ لپکتا ہے ستارو پر ،
وہ دوڑتا ہے سایوں کے پیچھے ،
بھاگتا ہے سرابوں کے تعاقب میں ،
وہ چاہتا ہے کہ راز ہائے سر بستہ معلوم کر لے .......
لیکن اسے معلوم نہیں ، کہ وہ خود ہی اسرار کلید ہے.......
وہ خود شاہکار تخلیق ہے -
حسن لازوال کا مرقع جمال ہے -
جب تک وہ اپنا راز معلوم نہ کرے وہ راز کائنات معلوم نہیں کر سکتا -
از واصف علی واصف قطرہ قطرہ قلزم