حویلی
ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج
لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج
ایک مسلسل کرب میں ڈوبے ہوئے سب بام و در
جس طرف دیکھو اندھیرا جس طرف دیکھو کھنڈر
مار و کژدم کا ٹھکانا جس کی دیواروں کے چاک
اف یہ رخنے کس قدر تاریک کتنے ہولناک
جن میں رہتے ہیں مہاجن، جن میں بستے ہیں امیر
جن میں کاشی کے برہمن، جن میں کعبے کے فقیر
رہزنوں کا قصرِ شوریٰ، قاتلوں کی خواب گاہ
کھلکھلاتے ہیں جرائم، جگمگاتے ہیں گناہ
جس جگہ کٹتا ہے سر انصاف کا ایمان کا
روز و شب نیلا ہوتا ہے جہاں انسان کا
زیست کو درسِ اجل دیتی ہے جس کی بارگاہ
قہقہہ بن کر نکلتی ہے جہاں ہر ایک آہ
سیم و زر کا دیوتا جس جا کبھی سوتا نہیں
زندگی کا بھول کر جس جا گزر ہوتا نہیں
ہنس رہا ہے زندگی پر اس طرح ماضی کا حال
خندہ زن ہو جس طرح عصمت پہ قحبہ کا جمال
ایک جانب ہیں وہیں ان بے نواؤں کے گروہ
ہاں انھیں بے نان و بے پوشش گداؤں کے گروہ
جن کے دل کچلے ہوئے جن کی تمنا پائمال
جھانکتا ہے جن کی آنکھوں سے جہنم کا جلال
اے خدائے دوجہاں اے وہ جو ہر اک دل میں ہے
دیکھ تیرے ہاتھ کا شہکار کس منزل میں ہے
جانتا ہوں موت کا ہم ساز و ہمدم کون ہے
کون ہے پروردگارِ بزمِ ماتم کون ہے
کوڑھ کے دھبے چھپا سکتا نہیں ملبوسِ دیں
بھوک کے شعلے بجھا سکتا نہیں روح الا میں
اے جواں سالِ جہاں، جانِ جہانِ زندگی
ساربان زندگی روح روان زندگی
بجلیاں جس کی کنیزیں زلزلے جس کے سفیر
جس کا دل خیبر شکن جس کی نظر ارجن کا تیر
ہاں وہ نغمہ چھیڑ جس سے مسکرائے زندگی
تو بجائے سازِ اُلفت اور گائے زندگی
آ انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں
آ انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں
-مخدوؔم