مخدوم محی الدین : باغی

سید زبیر

محفلین
باغی
رعد ہوں،برق ہوں،بے چین ہوں پارا ہوں میں
خود پرستار 'خود آگاہ خود آرا ہوں میں
خرمن جور جلادے وہ شرارا ہوں میں
میری فریاد پہ اہل دول انگشت بہ گوش
لا 'تبر خون کے دریا میں نہانے دے مجھے
سر پر نخوت ارباب ِزماں توڑوں گا
شور نالہ سے در ارض و سما ںتوڑوں گا
ظلم پرور روش اہل جہاں توڑوں گا
عشرت آباد امارت کا مکاں توڑوں گا
توڑ ڈالوں گا میں زنجیراسیران قفس
دہر کو پنجہ عسرت سے چھڑانے دے مجھے
برق بن کر بُت ماضی کےگرانے دے مجھے
رسم کہنہ کو تہ خاک ملانے دے مجھے
تفرقے مذہب و ملت کے مٹانے دے مجھے
خواب فردا کو بس اب حال بنانے دے مجھے
آگ ہوں آگ ہوں ہاں ایک دہکتی ہوئی آگ
آگ ہوں آگ ' بس اب آگ لگانے دے مجھے


مخدوم محی الدین
 

نایاب

لائبریرین
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے باغی کو سلامتی کی دعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کب کوئی باغی بھڑکائے گا ایسی آگ ÷÷÷÷÷÷÷÷÷
برق بن کر بُت ماضی کےگرانے دے مجھے
رسم کہنہ کو تہ خاک ملانے دے مجھے
تفرقے مذہب و ملت کے مٹانے دے مجھے
خواب فردا کو بس اب حال بنانے دے مجھے
آگ ہوں آگ ہوں ہاں ایک دہکتی ہوئی آگ
آگ ہوں آگ ' بس اب آگ لگانے دے مجھے


بہت دعائیں
 

اوشو

لائبریرین
دہر کو پنجہ عسرت سے چھڑانے دے مجھے
برق بن کر بُت ماضی کےگرانے دے مجھے
رسم کہنہ کو تہ خاک ملانے دے مجھے
تفرقے مذہب و ملت کے مٹانے دے مجھے
خواب فردا کو بس اب حال بنانے دے مجھے

واہ کیا خوب کلام ہے۔
شکریہ محترم
 

عبدالحسیب

محفلین
عمدہ شراکت سیدزبیر صاحب
بہت شکریہ

مخدوم صاحب کی ایک نظم جو انھوں نے سقوطِ حیدرآباد کے وقت لکھی تھی (غالباً!) کی کافی عرصہ سے تلاش ہے اگر آپ کے علم میں ہو تو یہاں شریک کردیں ۔ پیشگی شکریہ کے ساتھ :) :)

نظم کا ایک شعر کچھ یوں ہے،

پڑی ہے فرق مبارک پہ ضربت کاری
جناب آصف سابع پہ ہے غشی طاری
 
Top