حسان خان
لائبریرین
طالع نہ مہر ہے نہ اذاں زیبِ گوش ہے
نے طائروں کو زمزمہ سنجی کا ہوش ہے
آغاز صبح کا ہے نہ پیدا خروش ہے
ظلمت کدے میں اپنے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے
لکنت زباں میں چہرہ پسینے سے آب آب
بندِ قبا کھلے ہوئے الٹا ہوا نقاب
بے باکیاں ہیں اُتنی ہی جتنا تھا انقلاب
مے نے کیا ہے حسنِ خود آرا کو بے حجاب
اے شوق ہاں اجازتِ تسلیمِ ہوش ہے
آلاتِ مے کشی نہیں جو ہو غمِ شکست
نے محتسب کا ڈر کہ رہے فکرِ بندوبست
ہم ہر جگہ ہیں بے خطر و خوف مے پرست
دیدار بادہ ، حوصلہ ساقی، نگاہ مست
بزمِ خیال میکدۂ بے خروش ہے
سنتا ہے کون کس سےکہوں جا کے اپنا حال
کٹتے ہیں رنج و غم میں شب و روز و ماہ و سال
کہیئے تو کس طرح سے نہ ہو زندگی وبال
نے مژدۂ وصال نہ نظارۂ جمال
مدت ہوئی کہ آشتیِ چشم و گوش ہے
ق
چلتے ہو وہ ہی راہ کہ جو کچھ بتائے دل
کرتے ہو وہ ہی کام کہ جس میں رضائے دل
آگاہ ہو کہ حرص و ہوس ہے بنائے دل
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوسِ ناؤ نوش ہے
کیوں راہِ راست چھوڑ کے گم کردہ راہ ہو
سنبھلو ذرا نہ میری طرح سے تباہ ہو
پوچھو اگر تمہارا کوئی نیک خواہ ہو
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
اک عمر تک نگاہ بد و نیک پر نہ کی
گویا تھی ایک چادرِ غفلت پڑی ہوئی
آخر کو ہوش آئے تو آیا نظر یہی
ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے
رکھتا تھا دلکشی کا اثر گوشۂ بساط
تھا غیرتِ بہار مگر گوشۂ بساط
سمجھے ہوئے تھے باغِ نظر گوشۂ بساط
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے
یک سو صلائے بادہ و یک سو نوائے چنگ
وہ جلوہ ہائے دلکش و وہ نغمہ ہائے چنگ
دل میں ہوس شراب کی سر میں ہوائے چنگ
لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
یہ جنتِ نگاہ وہ فردوسِ گوش ہے
کیا پوچھتے ہو لطف اٹھایا جو بزم میں
وہ رنگ تھا کہ بار نہ تھا غم کو بزم میں
ہے رات ہی کی بات کہ دیکھا وہ بزم میں
یا صبح دم جو دیکھئے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے
نے دورِ جام ہے نہ وہ ساقی نہ وہ خوشی
افسردہ اہلِ بزم ہیں بیزار زندگی
اب کس سے پوچھئے کہ ہوئی کیا یہ برہمی
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
تعریف اس غزل کی ہمارے مقال میں
گویا کہ آبِ خضر ہے جامِ سفال میں
سالکؔ ؟؟؟ نہ ہو گر اپنے حال میں
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
(مرزا قربان علی بیگ خان سالک)