محمد علم اللہ
محفلین
مدرسہ الاصلاح: ایک تحریک، ایک تنظیم
نشاة ثانیہ اور کھوئے ہوئے وقارکی تلاش
محمد علم اللہ اصلاحی
نئی دہلی
انیسویں صدی بر صغیر میں مسلم اقتدار کے زوال کے بعد کی صدی تھی. مغل حکومت کے اختتام اور بر طانوی سامراج کے استحکام نے مسلم معاشرے کے لئے سنگین مسائل پیدا کر دئے تھے، اقتدار سے محرومی نے جہاں ایک طرف شکست خوردگی کی ذہنیت کو جنم دیا وہیں بہت سی معاشرتی برائیاں بھی در آئیں. جہالت، بدعات اورمشرکانہ رسوم مسلم معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی تھیں. اعظم گڑھ کا دور افتادہ علاقہ ان مسائل سے کچھ زیادہ ہی متاثر تھا. چنانچہ یہاں کے کچھ حساس اور درد مند افراد نے اس صورتحال کی اصلاح کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اور مولانا محمد شفیع کی قیادت میں اس مقصد سے ایک انجمن "اصلاح المسلمین" کی بنیادرکھی گئی. اصلاح معاشرہ کے میدان میں اس تنظیم کی ناقابل فراموش خدمات ہیں. جب انجمن کی طرف سے کام شروع ہوا تو لوگوں کو یہ شدت سے محسوس ہوا کہ دعوت دین اور اصلاح ملت کے ساتھ ہی ایک دینی مدرسہ کا قیام بھی بہت ضروری ہے جس سے نونہالان قوم کو مذہب اسلام کی تعلیم دی جا سکے اور انہیں مسلکی اور گروہی عصبیت سے پاک خالص اسلامی افکار ونظریات کا حامل بنایا جا سکے.
اس وقت تک اعظم گڑھ یا اس کے آس پاس کے علاقہ میں کوئی قابل ذکر تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ یہاں کے لوگوں کوعلم کے حصول کے لئے شہر جونپور کا رخ کرنا پڑتا تھا جو اپنی علمی حیثیت کے لحاظ سے شیرازہند کے لقب سے سرفراز تھا. اس لئے 1908 ءمیں باضابطہ طور پرانجمن اصلاح المسلمین کے نام پر مدرسہ اصلاح المسلمین کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر مدرسة الاصلاح ہوگیا. اس مدرسے کے قیام کے کچھ ہی دنوں بعد یعنی 1910 ء یا 1911 ء میں مولانا محمد شفیع بانی مدرسہ کی دعوت پر مورخ اسلام علامہ شبلی نعمانی نے اس کی سر پرستی اور علامہ فراہی نے علامہ شبلی کی تجویز اور مشورہ پر اس کی نظامت سنبھالی اوراس کی بنیادی شکل بھی تیار کی جس کی تصدیق علامہ فراہی کے نام علامہ شبلی کے خط سے ہوتی ہے: "کیا تم کچھ دن سرائے میر کے مدرسہ میں قیام کر سکتے ہو میں بھی شاید آؤں اوراسکا نظم و نسق درست کر دیا جائے اسکو گروکل کے طور پر خالص مذہبی مدرسہ بنایا جائے یعنی سادہ زندگی اور قناعت اور مذہبی خدمت مطمح نظر ہو ".(شبلی، 2 اپریل 1910)
چنانچہ ان نابغہ روزگارشخصیتوں نے مدرسہ کا انتظام و انصرام صحیح کیااور وقفہ وقفہ سے یہاں آکر اس کا جائزہ بھی لیتے رہے. علامہ شبلی نعمانی نے تو ندوة سے مایوسی کے بعد مدرسة الاصلاح اور دارالمصنفین کو اپنی تمام ترعلمی، عملی اور تعمیری کوششوں اور کاوشوں کا مرکز بنا لیا جیسا کہ شبلی نعمانی امام فراہی کے نام اپنے ایک خط میں شبلی نیشنل کالج کا مختصر ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "بحث یہ ہے کہ ہماری قومی قوت سرائے میر پرصرف ہو یا اعظم گڑھ پر دونوں کے قابل قوم نہیں ہے. کم سے کم یہ کہ دونوں کی جداگانہ پوزیشن قائم ہونی چاہئے اور ان کا باہمی تعلق بھی، کبھی کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ، ان میں سے ایک کو مر کزبنا کر اسی کو دینی و دنیاوی تعلیم کا مرکز بنایا جائے. یہیں خدام دین بھی تیار ہوں اور مذہبی اعلی تعلیم بھی دلائی جائے، گویا گر و کل ہو. تم اپنی رائے لکھو. ندوة میں لوگ کام کرنے نہیں دیتے تو اور کوئی دائرہ عمل بنانا چاہئے ہم سب کو وہیں بود وباش اختیار کرنی چاہئے، ایک معقول کتب خانہ بھی وہاں جمع ہونا چاہئے اگر تم عزم و جزم موجود ہو تو میں موجود ہوں ".(23 اکتوبر عیسوی 1913 شبلی،)
حالات کے اس پس منظر میں علامہ شبلی نعمانی علی گڑھ کے بعد ندوہ کو خیر باد کہہ کر 1914 ءمیں اپنے وطن اعظم گڑھ واپس لوٹ آئے اور مدرسة الاصلاح اور دار المصنفین پر توجہ مرکوز کر دی، ان کے وہ خواب جو ندوة میں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے تھے، مدرسة الاصلاح کا مجوزہ منفردنظام تعلیم ان کی تعبیربن کر سامنے آنے والا تھا، لیکن یہاں پہنچنے کے بعد ان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور اپنے بعد اس خاکہ میں رنگ بھر نے کام اپنے خاص عزیزوں اورشاگردوں کے لئے چھوڑ کر دسمبر 1914 ء میں ہمیشہ کے لئے اس دار دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے.
علامہ شبلی نعمانی کے انتقال کے بعد ایک طرف دارالمصنفین کی ذمہ داری علامہ سید سلیمان ندوی نے سنبھالی، وہیں دوسری طرف مدرسة الاصلاح کی نظامت کی ذمہ داری امام فراہی نے اپنے سر لی. اور 1919 ءمیں حیدرآباد کی ملازمت سے سبکدوش ہو کرمدرسة الاصلاح کو اپنی تمام تر توجہات کا مرکز بنا لیا. یہاں کے اساتذہ اور درجات اعلٰی کے طلبہ کو ہفتہ میں چند دن درس دیاکرتے، مدرسہ کے لئے قدیم درس نظامی سے ہٹ کر ایک جامع نظام تعلیم اور مناسب حال نصاب تجویز کیاجس میں قرآن مجید تمام علوم و فنون کے محور کے طور پرتسلیم کیا گیا تاکہ اس کے ذریعہ طلبہ میں وسیع علم اور تحقیقی صلاحیت کے ساتھ کمال درجہ کا اطمینان و صبر، تقوی اور للہیت اور عمدہ کرداروصفات بھی پیداہو سکیں اور اس طرح اپنی ساری سوچ اور علمی توانائی صرف کرکے انہوں نے اس بنجر زمین میں مولانا محمد شفیع کے لگائے ہوئے پودے کو ایک تناور درخت کی صورت دی، اس پاکیزہ درخت کی مانند جس کی جڑیں (زمین میں) مضبوط ہیں اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں لیکن جب اس پودے نے برگ اور بارلانا شروع کیا تو اس کا مالی اس چمنستان سے جداہو کر دور بہت دور اپنے آقا کے جوار میں پہنچ گیا.
امام فراہی کی وفات کے بعد ان کے قابل اور لائق شاگردوں مولانا اختر احسن اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے تشنہ تکمیل کاموں کو مکمل کرنے کی ذمہ داری سنبھالی اور شاگردی کا حق ادا کردیا، علمی دنیا تا ابد ان کے علمی کارناموں سے حظ اٹھاتی رہے گی. ایک نے علمی فکری وراثت سنبھالی اور ان کے نامکمل کی ترتیب اور ترجمہ و اشاعت کےلئے کاموں کو آگے بڑھایا تو دوسرے نے علم کے ساتھ شخصیت سازی پر توجہ دی. امام فراہی کی غیر مطبوعہ تصانیف کی گیا 1935 ءمیں مدرسہ الاصلاح میں دائرہ حمیدیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیااس کے علاوہ اس ادارہ سے اردومیں "الاصلاح" کے نام سے ایک معیاری رسالہ شائع کیا گیا تا کہ اردو دا ں طبقہ کو بھی امام فراہی کے نظریات اور خیالات سے واقف کرایا جا سکے. رسالہ نامساعد حالات کی وجہ سے کچھ سالوں میں ہی بند ہو گیا لیکن ادارہ بہر صورت کام کرتا رہا اور آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے.
مدرسة الاصلاح کا نشان امتیاز قرآن مجید کی محققانہ تعلیم، حدیث کے ساتھ فقہ مقارن اور دینی کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم بھی ہے. یہ ہندوستان کا وہ ممتاز ادارہ ہے جس مےں طلبہ کیلئے عصری تعلیم لازم قرار دی گئی اورآج بھی یہاں کے نصاب تعلیم میں انگریزی، ہندی، جغرافیہ، تاریخ، سیاسیات، اور اردوو فارسی کے علاوہ معاشیات، سماجی سائنس ریاضی، علم طبعیات، علم کیمیا اوراورحیاتیات جےسے عصری علوم کی بھی تعلیم دی جا رہی ہے. جس کی وجہ سے یہاں کے طلبہ جدید دانش گاہوں میں بھی حصول تعلیم کی اہلیت سے مکمل طورپرمتصف ہوکر فراغت حاصل کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فارغین آج کئی جدید اداروں میں بڑے عہدوں پر بھی متمکن ہیں. مدرسة الاصلاح ایسا علمی افق ہے جس پر طلوع ہونے والا ہر ستارہ اپنے علم کی روشنی سے ایک عالم کو تابندہ کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ تاحال قائم ہے، تاہم اب پہلی باتیں نہیں، جہاں مرور ایام سے بڑ ی بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، تعلیم وتعلم کا ذوق بھی پھیکا پڑ چکاہے جس کا ہر کسی کو احساس ہے، بس اس کے تسلیم کرلےنے اور تلافی مافات کی ضرور: ت ہے
کیسی وفا و الفت کھاتے عبث ہو قسمیں
مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں
(میر تقی میر)
قلق تو ان اقدار کی پامالی کا ہے جن کی پاسبانی میں مدرسة الاصلاح ممیز تھا، ہم اپنے زخم اس لئےکریدتے ہیں تاکہ زخمی ہونے کا احساس زندہ اور علاج کی ضرورت محسوس ہوتی رہے، مدرسة الاصلاح کی تحریک ایسے مقام پر آپہنچی ہے کہ اب اس کی نشاة ثانیہ اوراس کے کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کی ضرورت ہے اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب مدرسہ کے تعلیمی وتربیتی نظام کا از سر نو جائزہ لے کر اصلاحات کے لئے اقدام کیا جائے.
نشاة ثانیہ اور کھوئے ہوئے وقارکی تلاش
محمد علم اللہ اصلاحی
نئی دہلی
انیسویں صدی بر صغیر میں مسلم اقتدار کے زوال کے بعد کی صدی تھی. مغل حکومت کے اختتام اور بر طانوی سامراج کے استحکام نے مسلم معاشرے کے لئے سنگین مسائل پیدا کر دئے تھے، اقتدار سے محرومی نے جہاں ایک طرف شکست خوردگی کی ذہنیت کو جنم دیا وہیں بہت سی معاشرتی برائیاں بھی در آئیں. جہالت، بدعات اورمشرکانہ رسوم مسلم معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی تھیں. اعظم گڑھ کا دور افتادہ علاقہ ان مسائل سے کچھ زیادہ ہی متاثر تھا. چنانچہ یہاں کے کچھ حساس اور درد مند افراد نے اس صورتحال کی اصلاح کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اور مولانا محمد شفیع کی قیادت میں اس مقصد سے ایک انجمن "اصلاح المسلمین" کی بنیادرکھی گئی. اصلاح معاشرہ کے میدان میں اس تنظیم کی ناقابل فراموش خدمات ہیں. جب انجمن کی طرف سے کام شروع ہوا تو لوگوں کو یہ شدت سے محسوس ہوا کہ دعوت دین اور اصلاح ملت کے ساتھ ہی ایک دینی مدرسہ کا قیام بھی بہت ضروری ہے جس سے نونہالان قوم کو مذہب اسلام کی تعلیم دی جا سکے اور انہیں مسلکی اور گروہی عصبیت سے پاک خالص اسلامی افکار ونظریات کا حامل بنایا جا سکے.
اس وقت تک اعظم گڑھ یا اس کے آس پاس کے علاقہ میں کوئی قابل ذکر تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ یہاں کے لوگوں کوعلم کے حصول کے لئے شہر جونپور کا رخ کرنا پڑتا تھا جو اپنی علمی حیثیت کے لحاظ سے شیرازہند کے لقب سے سرفراز تھا. اس لئے 1908 ءمیں باضابطہ طور پرانجمن اصلاح المسلمین کے نام پر مدرسہ اصلاح المسلمین کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر مدرسة الاصلاح ہوگیا. اس مدرسے کے قیام کے کچھ ہی دنوں بعد یعنی 1910 ء یا 1911 ء میں مولانا محمد شفیع بانی مدرسہ کی دعوت پر مورخ اسلام علامہ شبلی نعمانی نے اس کی سر پرستی اور علامہ فراہی نے علامہ شبلی کی تجویز اور مشورہ پر اس کی نظامت سنبھالی اوراس کی بنیادی شکل بھی تیار کی جس کی تصدیق علامہ فراہی کے نام علامہ شبلی کے خط سے ہوتی ہے: "کیا تم کچھ دن سرائے میر کے مدرسہ میں قیام کر سکتے ہو میں بھی شاید آؤں اوراسکا نظم و نسق درست کر دیا جائے اسکو گروکل کے طور پر خالص مذہبی مدرسہ بنایا جائے یعنی سادہ زندگی اور قناعت اور مذہبی خدمت مطمح نظر ہو ".(شبلی، 2 اپریل 1910)
چنانچہ ان نابغہ روزگارشخصیتوں نے مدرسہ کا انتظام و انصرام صحیح کیااور وقفہ وقفہ سے یہاں آکر اس کا جائزہ بھی لیتے رہے. علامہ شبلی نعمانی نے تو ندوة سے مایوسی کے بعد مدرسة الاصلاح اور دارالمصنفین کو اپنی تمام ترعلمی، عملی اور تعمیری کوششوں اور کاوشوں کا مرکز بنا لیا جیسا کہ شبلی نعمانی امام فراہی کے نام اپنے ایک خط میں شبلی نیشنل کالج کا مختصر ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "بحث یہ ہے کہ ہماری قومی قوت سرائے میر پرصرف ہو یا اعظم گڑھ پر دونوں کے قابل قوم نہیں ہے. کم سے کم یہ کہ دونوں کی جداگانہ پوزیشن قائم ہونی چاہئے اور ان کا باہمی تعلق بھی، کبھی کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ، ان میں سے ایک کو مر کزبنا کر اسی کو دینی و دنیاوی تعلیم کا مرکز بنایا جائے. یہیں خدام دین بھی تیار ہوں اور مذہبی اعلی تعلیم بھی دلائی جائے، گویا گر و کل ہو. تم اپنی رائے لکھو. ندوة میں لوگ کام کرنے نہیں دیتے تو اور کوئی دائرہ عمل بنانا چاہئے ہم سب کو وہیں بود وباش اختیار کرنی چاہئے، ایک معقول کتب خانہ بھی وہاں جمع ہونا چاہئے اگر تم عزم و جزم موجود ہو تو میں موجود ہوں ".(23 اکتوبر عیسوی 1913 شبلی،)
حالات کے اس پس منظر میں علامہ شبلی نعمانی علی گڑھ کے بعد ندوہ کو خیر باد کہہ کر 1914 ءمیں اپنے وطن اعظم گڑھ واپس لوٹ آئے اور مدرسة الاصلاح اور دار المصنفین پر توجہ مرکوز کر دی، ان کے وہ خواب جو ندوة میں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے تھے، مدرسة الاصلاح کا مجوزہ منفردنظام تعلیم ان کی تعبیربن کر سامنے آنے والا تھا، لیکن یہاں پہنچنے کے بعد ان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور اپنے بعد اس خاکہ میں رنگ بھر نے کام اپنے خاص عزیزوں اورشاگردوں کے لئے چھوڑ کر دسمبر 1914 ء میں ہمیشہ کے لئے اس دار دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے.
علامہ شبلی نعمانی کے انتقال کے بعد ایک طرف دارالمصنفین کی ذمہ داری علامہ سید سلیمان ندوی نے سنبھالی، وہیں دوسری طرف مدرسة الاصلاح کی نظامت کی ذمہ داری امام فراہی نے اپنے سر لی. اور 1919 ءمیں حیدرآباد کی ملازمت سے سبکدوش ہو کرمدرسة الاصلاح کو اپنی تمام تر توجہات کا مرکز بنا لیا. یہاں کے اساتذہ اور درجات اعلٰی کے طلبہ کو ہفتہ میں چند دن درس دیاکرتے، مدرسہ کے لئے قدیم درس نظامی سے ہٹ کر ایک جامع نظام تعلیم اور مناسب حال نصاب تجویز کیاجس میں قرآن مجید تمام علوم و فنون کے محور کے طور پرتسلیم کیا گیا تاکہ اس کے ذریعہ طلبہ میں وسیع علم اور تحقیقی صلاحیت کے ساتھ کمال درجہ کا اطمینان و صبر، تقوی اور للہیت اور عمدہ کرداروصفات بھی پیداہو سکیں اور اس طرح اپنی ساری سوچ اور علمی توانائی صرف کرکے انہوں نے اس بنجر زمین میں مولانا محمد شفیع کے لگائے ہوئے پودے کو ایک تناور درخت کی صورت دی، اس پاکیزہ درخت کی مانند جس کی جڑیں (زمین میں) مضبوط ہیں اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں لیکن جب اس پودے نے برگ اور بارلانا شروع کیا تو اس کا مالی اس چمنستان سے جداہو کر دور بہت دور اپنے آقا کے جوار میں پہنچ گیا.
امام فراہی کی وفات کے بعد ان کے قابل اور لائق شاگردوں مولانا اختر احسن اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے تشنہ تکمیل کاموں کو مکمل کرنے کی ذمہ داری سنبھالی اور شاگردی کا حق ادا کردیا، علمی دنیا تا ابد ان کے علمی کارناموں سے حظ اٹھاتی رہے گی. ایک نے علمی فکری وراثت سنبھالی اور ان کے نامکمل کی ترتیب اور ترجمہ و اشاعت کےلئے کاموں کو آگے بڑھایا تو دوسرے نے علم کے ساتھ شخصیت سازی پر توجہ دی. امام فراہی کی غیر مطبوعہ تصانیف کی گیا 1935 ءمیں مدرسہ الاصلاح میں دائرہ حمیدیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیااس کے علاوہ اس ادارہ سے اردومیں "الاصلاح" کے نام سے ایک معیاری رسالہ شائع کیا گیا تا کہ اردو دا ں طبقہ کو بھی امام فراہی کے نظریات اور خیالات سے واقف کرایا جا سکے. رسالہ نامساعد حالات کی وجہ سے کچھ سالوں میں ہی بند ہو گیا لیکن ادارہ بہر صورت کام کرتا رہا اور آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے.
مدرسة الاصلاح کا نشان امتیاز قرآن مجید کی محققانہ تعلیم، حدیث کے ساتھ فقہ مقارن اور دینی کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم بھی ہے. یہ ہندوستان کا وہ ممتاز ادارہ ہے جس مےں طلبہ کیلئے عصری تعلیم لازم قرار دی گئی اورآج بھی یہاں کے نصاب تعلیم میں انگریزی، ہندی، جغرافیہ، تاریخ، سیاسیات، اور اردوو فارسی کے علاوہ معاشیات، سماجی سائنس ریاضی، علم طبعیات، علم کیمیا اوراورحیاتیات جےسے عصری علوم کی بھی تعلیم دی جا رہی ہے. جس کی وجہ سے یہاں کے طلبہ جدید دانش گاہوں میں بھی حصول تعلیم کی اہلیت سے مکمل طورپرمتصف ہوکر فراغت حاصل کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فارغین آج کئی جدید اداروں میں بڑے عہدوں پر بھی متمکن ہیں. مدرسة الاصلاح ایسا علمی افق ہے جس پر طلوع ہونے والا ہر ستارہ اپنے علم کی روشنی سے ایک عالم کو تابندہ کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ تاحال قائم ہے، تاہم اب پہلی باتیں نہیں، جہاں مرور ایام سے بڑ ی بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، تعلیم وتعلم کا ذوق بھی پھیکا پڑ چکاہے جس کا ہر کسی کو احساس ہے، بس اس کے تسلیم کرلےنے اور تلافی مافات کی ضرور: ت ہے
کیسی وفا و الفت کھاتے عبث ہو قسمیں
مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں
(میر تقی میر)
قلق تو ان اقدار کی پامالی کا ہے جن کی پاسبانی میں مدرسة الاصلاح ممیز تھا، ہم اپنے زخم اس لئےکریدتے ہیں تاکہ زخمی ہونے کا احساس زندہ اور علاج کی ضرورت محسوس ہوتی رہے، مدرسة الاصلاح کی تحریک ایسے مقام پر آپہنچی ہے کہ اب اس کی نشاة ثانیہ اوراس کے کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کی ضرورت ہے اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب مدرسہ کے تعلیمی وتربیتی نظام کا از سر نو جائزہ لے کر اصلاحات کے لئے اقدام کیا جائے.