شاہ نیاز مدرسے میں عاشقوں کےجسکی بسم اللہ ہو۔۔۔ ۔۔شاہ نیاز پریلوی

مدرسے میں عاشقوں کے جسکی بسم اللہ ہو
اوس کا پہلا ہی سبق یارو فنا فی اللہ ہو
یہ سبق طولانی ایسا ہے کہ آخر ہو ، نہ ہو
بے نہایت کو نہایت کیسی یا ربّاہ ہو
دوسرا پھر ہو سبق علم الفنا کا انتفا
یعنی اس اپنی فنا سے کچھ نہ وہ آگاہ ہو
دوڑ آگے تب چلے جب چوڑ پیچھے ہو مدد
اس دقیقے کو وہی پہنچے جو حق آگاہ ہو
تیسرا اسکا سبق ہے پھر کے آنا اس طرف
اب بقا باللہ حاصل اوسکو خاطرخواہ ہو
ڈھائی انچھر پیم کے مشکل ہے جنکا ربط و ضبط
حافظ و ملّا یہاں پر کب دلیلِ راہ ہو
حضرتِ عشق آپ ہوویں گر مدرّس چند روز
پھر تو علم و فقر کی تعلیم خاطر خواہ ہو
اے نیاز اپنے تو جو کچھ ہو تمہیں ہو بس فقط
حضرتِ عشق آپ ہو اور آپ دام اللہ ہو
اک توجّہ آپکی وافی و کافی ہے ہمیں
کیسا ہی قصہ ہو طولانی تو وہ کوتاہ ہو​
 
شاہ نیاز احمد بریلوی 1742 میں پیدا ہوئے۔ صوفی منش تھے۔ چشتی نظامی سلسلہ میں مولانا فخرالدین دہلوی سے خلافت و اجازت حاصل کی۔ کچھ عرصہ دہلی میں علومِ دینیہ کے مدرّس بھی رہے۔ مصحفی اور مومن کو نے بھی کچھ عرصہ اِن سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 95 برس کی عمر میں 1837 میں وفات پائی۔ انکا مختصر سا دیوان ہے جو خوش قسمتی سے میرے پاس بھی ہے۔ اہلِ تصوف میں انکا کلام کافی مقبول رہا ہے۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ غزنوی صاحب، پیش کرنے کو، آپ کی عقیدت پہ ہمیں رشک آتا ہے ،
( کئی ایک جگہ اغلاط ہیں مناسب خیال کیجے تو درست کرلیجے گا)‌والسلام
 

مغزل

محفلین
میں معافی چاہتا ہوں‌کہ نشاندہی کرنے کے باوجود بھی آپ تبدیلی نہ کرسکیں گے ۔ یوں ہی رہنے دیں ۔
 

عثمان رضا

محفلین
ماشاء اللہ خوب
جزاک اللہ آمین
بھائی شاید عنوان میں غلطی ہے
مدرسے میں عاشقوں کےجسکی بسم اللہ ہو۔۔۔۔۔شاہ نیاز پریلوی
 
مدرسے میں عاشقوں کے جسکی بسم اللہ ہو
اوس کا پہلا ہی سبق یارو فنا فی اللہ ہو
یہ سبق طولانی ایسا ہے کہ آخر ہو ، نہ ہو
بے نہایت کو نہایت کیسی یا ربّاہ ہو
دوسرا پھر ہو سبق علم الفنا کا انتفا
یعنی اس اپنی فنا سے کچھ نہ وہ آگاہ ہو
دوڑ آگے تب چلے جب چوڑ پیچھے ہو مدد
اس دقیقے کو وہی پہنچے جو حق آگاہ ہو
تیسرا اسکا سبق ہے پھر کے آنا اس طرف
اب بقا باللہ حاصل اوسکو خاطرخواہ ہو
ڈھائی انچھر پیم کے مشکل ہے جنکا ربط و ضبط
حافظ و ملّا یہاں پر کب دلیلِ راہ ہو
حضرتِ عشق آپ ہوویں گر مدرّس چند روز
پھر تو علم و فقر کی تعلیم خاطر خواہ ہو
اے نیاز اپنے تو جو کچھ ہو تمہیں ہو بس فقط
حضرتِ عشق آپ ہو اور آپ دام اللہ ہو
اک توجّہ آپکی وافی و کافی ہے ہمیں
کیسا ہی قصہ ہو طولانی تو وہ کوتاہ ہو
 

باباجی

محفلین
واہ بہت ہی خوب کلام

حضرتِ عشق آپ ہوویں گر مدرّس چند روز
پھر تو علم و فقر کی تعلیم خاطر خواہ ہو
اے نیاز اپنے تو جو کچھ ہو تمہیں ہو بس فقط
حضرتِ عشق آپ ہو اور آپ دام اللہ ہو
 
واہ غزنوی جی واہ
مکتب عشق کادستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
محمود احمد غزنوی جی برسبیل تذکرہ ایک واقعہ بیان کرتا چلوں۔۔۔۔ ایک صاحب معرفت سے تقریبا دس سال پہلے کسی کے توسط سے ملاقات ہوئی تصوف پر کافی لمبی چوڑی بات ہوئی ۔۔۔۔کہنے لگے جناب آپ تو اس میدان میں کافی تند و تیز و سرکش گھوڑے ہیں ابھی تک آزاد کیوں پھر رہے ہیں میں نے عرض کی جناب کوئی ایسا ملا ہی نہیں جو لگام ڈال سکے ۔۔۔۔۔ آپ سلطان باہو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قادری سروری سلسلے سے متعلق ہیں تو پھر کیا خیال ہے کہنے لگے سو بسم اللہ ۔۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے سو بیعت ہوگئے ۔۔۔۔۔تھوڑی سی توجہات ہوئیں ۔۔۔۔۔لیکن مجھ پتھر دل پر کیا اثر ہونا تھا۔۔۔ سو میں نے بھی جان چھڑوانی تھی ۔۔۔۔عرض کی ۔۔۔سروری طریقہ میں مرید ہوتے ہی اٹھارہ ہزار عالم انگوٹھے کے ناخن کی پشت پر نظر آتے ہیں لیکن مجھ ھیچ مدان کو تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔۔۔فرمانے لگے کہ جناب اس کے لیئے مرید کا فنا فی اللہ بقا باللہ ہونا ضروری ہے ۔۔۔ سو تم اس سے عاری ہو۔۔۔۔۔ میں عرض کی جناب ہم بھی آپ کی میدی سے باز آئے۔
ایک دوسرا واقعہ بھی ہے لیکن وہ موضوع سے متعلق نہیں ہے وہ پھر کبھی سہی۔۔۔لیکن ہے کافی ہنسنے والا
 
Top