سعادت
تکنیکی معاون
شاید تین سال پہلے کی بات ہے جب میں نے پہلی مرتبہ "مدھم نیلا نقطہ" نامی تصویر کو دیکھا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک میں اس کے سحر سے نکل نہیں پایا۔
5 ستمبر، 1977 کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے Voyager 1 نامی ایک روبوٹِک خلائی کھوجی طیارہ لانچ کیا تھا۔ شروع میں اس کا ہدف نظامِ شمسی کے بیرونی حصے (خصوصاً مشتری اور زحل سیّاروں) کا مطالعہ کرنا تھا، لیکن اس ہدف کی تکمیل کے بعد اس کے مشن میں بین النجمی خلاء کے مطالعے کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ یہ طیارہ پچھلے 34 سالوں سے ناسا کے احکامات وصول کر رہا ہے، اور اپنا اکٹھا کیا گیا ڈیٹا واپس ارسال کر رہا ہے۔ انسان کی بنائی جانے والی تخلیقات میں سے خلاء میں سب سے زیادہ دور جانے والی تخلیق یہی طیارہ ہے، جو اس وقت نظامِ شمسی کی حدود سے باہر نکل چکا ہے اور سورج سے تقریباً 10.5 بلین میل کے فاصلے پر ہے۔
1981 میں جب یہ خلائی طیارہ اپنا بنیادی مشن مکمل کر کے سیّارہ زحل کے پاس سے گزر رہا تھا، تو ناسا کے ایک ماہرِ فلکیات، کارل سیگن (Carl Sagan)، نے یہ آئیڈیا پیش کیا کہ اس طیارے کا رُخ گھما کر زمین کی ایک تصویر اتاری جائے۔ سیگن کا کہنا تھا کہ ایسی تصویر سائنسی مطالعے کے لیے نہیں ہو گی (کیونکہ اتنے فاصلے سے طیارے کے کیمرے زمین کی تفصیلات کا احاطہ کرنے سے قاصر رہیں گے)، لیکن اس تصویر کے ذریعے کائنات میں زمین کی موجودگی کا درست تناظر (perspective) میں اندازہ لگایا جا سکے گا۔ کم و بیش نو سالوں تک تصویر کھینچنے کا یہ معاملہ مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوتا رہا، لیکن 1990 میں بالاۤخر تقریباً 6 بلین کلومیٹر (3.7 بلین میل)) کے فاصلے سے زمین کی تصویر اتار لی گئی۔
اس تصویر میں دائیں ہاتھ پر موجود بھورے رنگ کے بینڈ کے تقریباً وسط میں غور سے دیکھیے، آپ کو ایک نیلگوں مائل سفید نقطہ نظر آئے گا۔ یہ زمین ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اس تصویر کو پہلی مرتبہ دیکھنے کے بعد میں اپنی جگہ پر گنگ بیٹھا رہ گیا تھا۔ ہم بچپن سے "ہم کیا، ہماری اوقات کیا" اور "اتنی بڑی کائنات میں انسان کی کوئی حیثیت نہیں" اور اس قسم کے کئی جملے سنتے آئے ہیں، لیکن اپنی کم مائیگی کا جیسا احساس مجھے "مدھم نیلا نقطہ" کو دیکھ کر ہوا تھا، ویسا زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ رہی سہی کسر کارل سیگن کے ان جُملوں نے پوری کر دی جو انہوں نے اس تصویر کے بارے میں اپنی کتاب، Pale Blue Dot: A Vision of the Human Future in Space، میں لکھے تھے:
کارل سیگن کا کہنا بالکل درست تھا: یہ تصویر سائنسی مطالعے کے لیے اہم نہیں ہے، لیکن انسان کے perspective کو درست کرنے کے لیے شاید اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں ہے۔
(اس مراسلے میں شامل تمام مواد ویکیپیڈیا پر موجود "مدھم نیلا نقطہ" اور متعلقہ مضامین سے ترجمہ کر کے حاصل کیا گیا ہے۔ )
5 ستمبر، 1977 کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے Voyager 1 نامی ایک روبوٹِک خلائی کھوجی طیارہ لانچ کیا تھا۔ شروع میں اس کا ہدف نظامِ شمسی کے بیرونی حصے (خصوصاً مشتری اور زحل سیّاروں) کا مطالعہ کرنا تھا، لیکن اس ہدف کی تکمیل کے بعد اس کے مشن میں بین النجمی خلاء کے مطالعے کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ یہ طیارہ پچھلے 34 سالوں سے ناسا کے احکامات وصول کر رہا ہے، اور اپنا اکٹھا کیا گیا ڈیٹا واپس ارسال کر رہا ہے۔ انسان کی بنائی جانے والی تخلیقات میں سے خلاء میں سب سے زیادہ دور جانے والی تخلیق یہی طیارہ ہے، جو اس وقت نظامِ شمسی کی حدود سے باہر نکل چکا ہے اور سورج سے تقریباً 10.5 بلین میل کے فاصلے پر ہے۔
1981 میں جب یہ خلائی طیارہ اپنا بنیادی مشن مکمل کر کے سیّارہ زحل کے پاس سے گزر رہا تھا، تو ناسا کے ایک ماہرِ فلکیات، کارل سیگن (Carl Sagan)، نے یہ آئیڈیا پیش کیا کہ اس طیارے کا رُخ گھما کر زمین کی ایک تصویر اتاری جائے۔ سیگن کا کہنا تھا کہ ایسی تصویر سائنسی مطالعے کے لیے نہیں ہو گی (کیونکہ اتنے فاصلے سے طیارے کے کیمرے زمین کی تفصیلات کا احاطہ کرنے سے قاصر رہیں گے)، لیکن اس تصویر کے ذریعے کائنات میں زمین کی موجودگی کا درست تناظر (perspective) میں اندازہ لگایا جا سکے گا۔ کم و بیش نو سالوں تک تصویر کھینچنے کا یہ معاملہ مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوتا رہا، لیکن 1990 میں بالاۤخر تقریباً 6 بلین کلومیٹر (3.7 بلین میل)) کے فاصلے سے زمین کی تصویر اتار لی گئی۔
اس تصویر میں دائیں ہاتھ پر موجود بھورے رنگ کے بینڈ کے تقریباً وسط میں غور سے دیکھیے، آپ کو ایک نیلگوں مائل سفید نقطہ نظر آئے گا۔ یہ زمین ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اس تصویر کو پہلی مرتبہ دیکھنے کے بعد میں اپنی جگہ پر گنگ بیٹھا رہ گیا تھا۔ ہم بچپن سے "ہم کیا، ہماری اوقات کیا" اور "اتنی بڑی کائنات میں انسان کی کوئی حیثیت نہیں" اور اس قسم کے کئی جملے سنتے آئے ہیں، لیکن اپنی کم مائیگی کا جیسا احساس مجھے "مدھم نیلا نقطہ" کو دیکھ کر ہوا تھا، ویسا زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ رہی سہی کسر کارل سیگن کے ان جُملوں نے پوری کر دی جو انہوں نے اس تصویر کے بارے میں اپنی کتاب، Pale Blue Dot: A Vision of the Human Future in Space، میں لکھے تھے:
دور کے اِس مقام سے زمین شاید کسی خاص دلچسپی کا باعث نہیں ہو گی۔ لیکن ہمارے لیے یہ معاملہ مختلف ہے۔ اُس نقطے پر دوبارہ غور کریں۔ وہ نقطہ یہاں ہے۔ وہ نقطہ ہمارا گھر ہے۔ وہ نقطہ ہم ہیں۔ وہ تمام لوگ جو آپ کو عزیز ہیں، جنہیں آپ جانتے ہیں، جن کے بارے میں آپ نے کبھی بھی سُنا، ہر وہ انسان جو کبھی بھی تھا، ان سب نے اسی نقطے پر اپنی زندگی گزاری۔ ہماری تمام مسرتوں اور رنجوں کا مجموعہ، ہزاروں پُر یقین مذاہب، نظریات، اور معاشی عقائد، ہر شکاری اور متلاشی، ہر بہادر اور بزدل، تہذیبوں کا ہر بانی اور تخریب کار، ہر بادشاہ اور فقیر، محبت میں مبتلا ہر جوان جوڑا، ہر ماں اور باپ، پُر امید بچہ، موجد اور محقق، اخلاقیات کا ہر استاد، ہر کرپٹ سیاستدان، ہر "سُپر سٹار"، ہر "عظیم لیڈر"، ہر درویش اور عاصی جو بنی نوعِ انساں میں گزرا، سب اُسی مقام پر زندہ رہے -- شمسی شعاع میں معلق گرد کے ایک دھبے پر۔
زمین کائنات کے وسیع میدان میں موجود ایک بہت چھوٹا سا سٹیج ہے۔ خون کے اُن دریاؤں کے بارے میں سوچیے جو اُن تمام جرنیلوں اور حکمرانوں نے محض اس لیے بہا دیے تاکہ وہ اپنی فتح اور عظمت کے احساس میں مبتلا ہو کر اس نقطے کے ایک چھوٹے سے حصے کے وقتی مالکان بن سکیں۔ اُن لا محدود مظالم کے بارے میں سوچیے جو اِس پِکسل کے ایک کونے کے باشندوں نے کسی دوسرے کونے کے بمشکل پہچانے جانے والے باشندوں پر ڈھا دیے۔ ان کے اختلافات کتنے زیادہ ہیں، ایک دوسرے کو مار ڈالنے کے لیے یہ کتنے بے تاب ہیں، ان کی نفرتیں کس قدر شدید ہیں۔ ہمارے پُر نمود رویے، ہمارا خیالی احساسِ اہمیت، یہ خوش فہمی کہ ہم کائنات میں کوئی اعزازی مقام رکھتے ہیں، ان سب کو مدھم سی روشنی کا یہ مقام چیلنج کرتا ہے۔ ہمارا سیّارہ کائنات کی عظیم اور لپیٹ لینے والی تاریکی میں ایک تنہا سا ذرہ ہے۔ ہماری گُمنامی کے اس عالم میں -- اس تمام وسعت میں -- کہیں کوئی اشارہ نہیں ہے کہ ہمیں خود اپنے آپ سے بچانے کے لیے کسی اور جگہ سے مدد پہنچے گی۔ زمین ابھی تک وہ واحد معلوم دنیا ہے جہاں زندگی موجود ہے۔ کم از کم مستقبل قریب میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ہماری نسل ہجرت کر سکے۔ دورہ کیا جا سکتا ہے، لیکن قیام، تا حال نہیں۔ آپ کو یہ بات پسند آئے یا نہ، لیکن فی الوقت زمین ہی ہمارا ٹھکانہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلکیات کا علم آپ کو عاجزی سکھاتا اور آپ کے کردار کی تعمیر کرتا ہے۔ انسانی تکبر کی نادانیوں کا غالباً سب سے بہترین مظاہرہ ہماری ننھی سی دنیا کی اس تصویر کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ تصویر ہماری اس ذمہ داری کو نمایاں کرتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ خوشدلی سے پیش آئیں، اور اس مدھم سے نیلے نقطے کو عزیز رکھ کر اس کی حفاظت کریں، کہ یہی وہ واحد گھر ہے جسے ہم جانتے ہیں۔
کارل سیگن کا کہنا بالکل درست تھا: یہ تصویر سائنسی مطالعے کے لیے اہم نہیں ہے، لیکن انسان کے perspective کو درست کرنے کے لیے شاید اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں ہے۔
(اس مراسلے میں شامل تمام مواد ویکیپیڈیا پر موجود "مدھم نیلا نقطہ" اور متعلقہ مضامین سے ترجمہ کر کے حاصل کیا گیا ہے۔ )