مدیح خیر المرسلین ۔ محسن کاکوری (سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل)

فرخ منظور

لائبریرین
مدیح خیر المرسلین
از محسن کاکوروی

(حصہ اول)
سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

گھر میں اشنان کریں سرو قدانِ گوکل
جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طولِ امل

خبر اڑتی ہوی آئی ہے مہابن میں ابھی
کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل

کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی
ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل

جانبِ قبلہ ہوئی ہے یورشِ ابر سیہ
کہیں پھر کعبے میں قبضہ نہ کریں لات و ہبل

دھر کا ترسا بچہ ہے برق لئے جل میں آگ
ابر چوٹی کا برہمن ہے لئے آگ میں جل

ابر ِ پنجاب تلاطم میں ہے اعلیٰ ناظم
برق بنگالۂ ظلمت میں گورنر جرنل

نہ کھلا آٹھ پہر میں کبھی دوچار گھڑی
پندرہ روز ہوئے پانی کو منگل، منگل

دیکھئے ہوگا سری کرشن کا کیونکر درشن
سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بیکل

راکھیاں لے کے سلونوں کی برہمن نکلیں
تاربارش کا تو ٹوٹے کوئی ساعت کوئی پل

اب کے میلا تھا ہنڈولے کا بھی گرداب ِ بلا
نہ بچا کوئ محافانہ کوئی رتھ نہ بھل

ڈوبنے جاتے ہیں گنگا میں بنارس والے
نوجوانوں کا سنیچر ہے یہ ُبڑھوا منگل

تہہ و بالا کئے دیتے ہیں ہوا کے جھونکے
بیڑے بھادوں کے نکلتے ہیں بھرے گنگا جل

كبھی ڈوبی كبھی اچھلی مۂ نو كی كشتی
بحرۂ خضر ميں تلاطم سے پڑی ہے ہلچل

قمریاں کہتی ہیں طوبیٰ سے مزاج ِ عالی
لالۂ باغ سے ہندوئے فلک ، کھیم کسل

شب ِ دیجور اندھیرے میں ہے ظلمت کے نہاں
لیلی محمل میں ہے ڈالے ہوئے منہہ پر آنچل

شاہدِ كفر ہے مكھڑے سے اٹھائے گھونگھٹ
چشمِ كافر ميں لگائے ہوئے كافر كاجل

جو گيا بھيس كيے چرخ لگائے ہے بھبوت
يا كہ بيراگی ہے پربت پہ بچھائے كمبل

شب کو مہتاب نظر آئے نہ دن کو خورشید
ہے یہ اندھیر مچائے ہوئے تاثیرِ زحل

وہ دھواں دھارگھٹا ہے کہ نظر آئے نہ شمع
گرچہ پروانہ بھی ڈھونڈے اسے لیکر مشعل

نور کے پتلے ہوئے پردۂ ظلمت میں نہاں
چشمِ خورشید جہاں بیں میں ہیں آثارِ سبل

آتشِ گل کا دھواں بامِ فلک تک پہنچا
جم گیا منزلِ خورشید کی چھت میں کاجل

ابر بھی چل نہیں سکتا وہ اندھیرا گھپ ہے
برق سے رعد یہ کہتا ہے کہ لانا مشعل

جسطرف سے گئی بجلی پھر ادھر آ نہ سکی
قلعۂ چرخ میں ہے بھول بھلیّاں بادل

فیض تر طیب ہوا نے یہ دکھائی تاثیر
زرِ محلول ہے اخگر تو کھرل ہے منقل

آب ِ آئینہ تموّج سے بہا جاتا ہے
کہیئے تصو یر سےگرنا نہ کہیں دیکھ سنبھل

آج یہ نشوونما کاہے ستارہ چمکا
شاخ میں کاہکشاں کے نکل آئی کونپل

دیکھتے دیکھتے بڑھ جاتی ہے گلشن کی بہار
دیدہٗ نرگسِ شہلا کو نہ سمجھو احول

خضر فرماتے ہیں سنبل سے تری عمر دراز
پھول سے کہتے ہیں پھلتا رہے گلزار ِ امل

عطر افشاں ہے شبیہِ گل و نسرین و سمن
نخلِ داؤدیِ مومی سے ٹپکتا ہے عسل

لہریں لیتا ہے جو بجلی کے مقابل سبزہ
چرخ پر بادلا پھیلا ہے، زمیں پر مخمل

جگنو پھرتے ہیں جو گلبن میں تو آتی ہے نظر
مصحف ِ گل کے حواشی پہ طلائی جدول

ہم زباں وصف ِ چمن میں ہوئے سب اہل ِ چمن
طوطیوں کی ہے جو تضمین تو بلبل کی غزل

تختِ طاؤسیِ گلشن پہ ہے سایہ کیے ابر
چتر کھولے ہوئے فرق شۂ گل پر سینبھل

جس طرف دیکھیے بیلے کی کھلی ہیں کلیاں
لوگ کہتے ہیں کہ کرتے ہیں فرنگی کونسل

شاخ پر پھول ہیں جنبش میں زمیں پر سنبل
سب ہوا کھاتے ہیں گلشن میں سوار اور پیدل

پھول ٹوٹے ہوئے پھرتے روشوں پر ہیں نسیم
یا سڑک پر ہیں ٹہلتے ہوئے گلگوں کوتل

آہِ قمری میں مزا اور مزے میں تاثیر
سرو میں دیکھیے پھول آنے لگے، پھول میں پھل

ساتھ ساتھ آتے ہیں نالوں کے جگر کے ٹکڑے
شجرِ آہِ رسا میں نکل آئی کونپل

شجرے میں پیرِ مغاں کے نکل آئیں شاخیں
حرمتِ دخترِ رز میں نظر آتا ہے خلل

سبزۂ خط سے ہوا ہونے لگی سرخیِ لب
چمنِ حسن سے لال اوڑ گئے بن کر ہر یل

صاف آمادۂ پرواز ہیں شیامان کی طرح
پر لگائے ہوئے مژگانِ صنم سے کاجل

خندہ ہائے گلِ قالیں سے ہوا شور نشور
کیا عجب ہے جو پریشان ہے خوابِ مخمل

طرفہ گردش میں گرفتار عجب پھیر میں ہیں
سرمہ ہے نیند مری دیدۂ بیدار کھرل

شاخِ شمشاد پہ قُمری سے کہو چھیڑے ملہار
نونہالانِ گلستاں کو سنائے یہ غزل

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
غزل
سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
تیرتا ہے کبھی گنگا کبھی جمنا بادل

سمتِ کاشی سے گیا جانبِ متھرا بادل
برج میں آج سری کشن ہے کالا بادل

خوب چھایا ہے سرِ گوکل و متھرا بادل
رنگ میں آج کنہیا کے ہی ڈوبا بادل

شاہدِ گُل کا لیے ساتھ ہے ڈولا بادل
برق کہتی ہے مبارک تجھے سہرا بادل

سطحِ افلاک نظر آتی ہے گنگا جمنی
روپ بجلی کا سنہرا ہے روپہلا بادل

چرخ پر بجلی کی چل پھر سے نظر آتا ہے
سبزہ چمکائے ہلاتا ہوا برچھا بادل

جب تلک برج میں جمنا ہے یہ کہنے کا نہیں
ہے قسم کھائے اٹھائے ہوئے گنگا بادل

بجلی دو چار قدم چل کے پلٹ جائے نہ کیوں
وہ اندھیرا ہے کہ پھرتا ہے بھٹکتا بادل

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
چشمہِ مہر ہے عکسِ زرِ گُل سے دریا
پرتوِ برق سے سونے کا ہے بجرا بادل

میری آنکھوں میں سماتا نہیں یہ جوش و خروش
کسی بیدرد کو دکھلائے کرشما بادل

دلِ بے تاب کی ادنیٰ سی چمک ہے بجلی
چشم پر آب کا ہے ایک کرشما بادل

طپشِ دل کا اڑایا ہوا نقشہ بجلی
چشم پر آب کا دھویا ہوا خاکا بادل

اپنی کم ظرفیوں سے لاکھ فلک پر چڑھ جائے
میری آنکھوں کا ہے اترا ہوا صدقا بادل

کچھ ہنسی کھیل نہیں جوششِ گریہ کا ضبط
یہ مرا دل ہے یہ میرا ہے کلیجا بادل

جامِ عمرِ فلکِ پیر ہوا ہے لبریز
لیے آتا ہے جنازہ دیے کاندھا بادل

راجہ اندر ہے پری خانہِ مے کا پانی
نغمہِ نے کا سری کشن کنہیا بادل

جوش پر رحمتِ باری ہی چڑھاؤ خمِ مے
چشمکِ برق سے کرتا ہے اشارا بادل

دیکھتا گر کہیں محسنؔ کی فغان و زاری
نہ گرجتا کبھی ایسا نہ برستا بادل

پھر چلا خامہ قصیدے کی طرف بعدِ غزل
کہ ہے چکر میں سخن گو کا دماغ مختل
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
باغ میں ابرِ سیہ مست چڑھا کر آیا
جامِ خورشید مع مے کدۂ برجِ حمل

چشمِ مے کش میں گلابی ہے کہ پھولا ہے گلاب
پھول کیوڑے کا کھِلا ہے کہ کھُلی ہے بوتل

جام بے بادہ سے کہتے ہیں کہ رندوں کو نہ چھیڑ
دستِ بے جام سے کہتے ہیں کلیجوں کو نہ مل

گوہرِ دل کو بڑی سنگ دلی سے پیسا
کشتیِ مے کو بنایا مرے ساقی نے کھرل

کیسی افسردگی کیا بات ہے مرجھانے کی
غنچہ کہتا ہے لجالو سے کہ گلشن سے نکل

سر میں دشت کی مصروف ہے جو پاؤں ہے لنگ
شغل میں چاکِ گریبان کی ہے جو ہاتھ ہے شل

مصر والوں کو یہ ڈر ہے کہ زلیخا کے لیے
سرِ بازار نہ بکنے لگے سودے کا خلل

مئے گل رنگ ہے کیا شمعِ شبِ فکر کا پھول
چلتے چلتے جو قلم ہاتھ سے جاتا ہے نکل

کیا جنوں خیز ہے لکھنے میں صریرِ نےِ کلک
کہ سیاہی سے ہے ہر حرف کو سودے کا خلل

ہے سخن گو کو نہ انشا کی نہ املا کی خبر
ہو گئی نظم کی انشا و خبر سب محمل

دل میں کچھ اور ہے پر منہ سے نکلتا ہے کچھ اور
لفظ بے معنی ہیں اور معنی ہیں سب بے اٹکل

کتنا بےقید ہوا کس قدر آوارہ پھرا
کوئی مندر نہ بچا اس سے نہ کوئی استل

کبھی گنگا پہ بھٹکتا ہے کبھی جمنا پر
گھاگرا پر کبھی گزرا کبھی سوئے چمل

چھینٹے دینے سے نہ محفوظ رہی قلزم و نیل
نہ بچا خاک اڑانے سے کوئی دشت و جبل

ہاں یہ سچ ہے کہ طبیعت نے اڑایا جو غبار
ہوئی آئینہء مضموں کی دوچنداں صیقل

روئے معنی ہے بہکنے میں بھی اعلٰی کی طرف
تاکتا ہے تو ثریا کی سنہری بوتل

اک ذرا دیکھیے کیفیتِ معراجِ سخن
ہاتھ میں جامِ زحل شیشہء مے زیرِ بغل

گرتے پڑتے ہوئے مستانہ کہاں رکھا پاؤں
کہ تصور بھی وہاں جا نہ سکے سر کے بھل

یعنی اس نور کے میدان میں پہنچا کہ جہاں
خرمنِ برقِ تجلی کا لقب ہے بادل

تار باران مسلسل ہے ملائک کا درود
پئے تسبیح خداوندِ جہاں عز و جل

کہیں طوبیٰ کہیں کوثر کہیں فردوسِ بریں
کہیں بہتی ہوئی نہرِ لبن و نہرِ عسل
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
کہیں جبریل حکومت پہ کہیں اسرافیل
کہیں رضواں کا کہیں ساقیِ کوثر کا عمل

کنزِ مخفی کے کسی سمت نہاں تہ خانے
اک طرف مظہرِ قدرت کے عیاں شیش محل

عاشقِ جلوہ طلبگار کہیں چشمِ قبول
نازِ معشوق کے پردے میں کہیں حسنِ عمل

گُلِ بے رنگیِ مطلق کے لہکتے گلزار
بے نیازی کے ریاحین کے مہکتے جنگل

باغِ تنزیہہ میں سرسبز نہالِ تشبیہ
انبیا جس کی ہیں شاخیں عرفا ہیں کونپل

گلِ خوشرنگ رسولِ مدنی عربی
زیبِ دامانِ ادب طرّہِ دستارِ ازل

نہ کوئی اسکا مشابہ ہے نہ ہمسر نہ نظیر
نہ کوئی اسکا مماثل نہ مقابل نہ بدل

اوجِ رفعت کا قمر نخلِ دو عالم کا ثمر
بحرِ وحدت کا گہر چشمہء کثرت کا کنول

مہرِ توحید کی ضو اوجِ شرف کا مہِ نو
شمعِ ایجاد کی لو بزمِ رسالت کا کنول
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
مرجعِ روح امیں زیب دہِ عرشِ بریں
حامی دینِ متیں ناسخِ ادیانِ و ملل

ہفت اقلیمِ ولایت میں شہِ عالیجاہ
چار اطراف ہدایت میں نبیِ مرسل

جی میں آتا ہے لکھوں مصرعِ برجستہ اگر
وجد میں آ کے قلم ہاتھ سے جائے نہ اچھل

منتخب نسخہ وحدت کا یہ تھا روزِ ازل
کہ نہ احمد کا ہے ثانی نہ احد کا اول

دور خورشید کی بھی حشر میں ہو جائیگی صبح
تا ابد دور محمد کا ہے روز اول

شب اسریٰ میں تجلی سے رخِ أنور کی
پڑ گئی گردنِ رفرف میں سنہری ہیکل

سجدۂ شکر میں ہے ناصیۂ عرشِ بریں
خاک سے پاے مقدس کی لگا کر صندل

افضلیت پہ تری مشتمل آثار و کتب
اولویت پہ تری متفق ادیان و ملل

لطف سے تیرے ہوئے شوکت ایماں محکم
قہر سے سلطنتِ کفر ہوئی مستاصل

مبحثِ جاہ میں اعلی کے ہیں معنی ادنی
مصرف جود میں اکثر کا مرادف ہے اقل

شانہ حضرت کا ہے تشدید و لامِ واللیل
صاد ما زاغ بصر سرمۂ چشمِ اکحل​
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
جس طرف ہاتھ بڑھیں کفر کے ہٹ جائیں قدم
جس جگہ پاؤں رکھے سجدہ کریں لات و ہبل

تیری تشبیہ کا ہے آئینہ خانہ تنزیہہ
شانِ بیرنگی مطلق ہے تجھے رنگ محل

ہے حقیقت کو مجاز آپ کا حیرت کا مقام
بے نیازی کو نیاز آپ کا نازش کا محل

ہو سکا ہے کہیں محبوب خدا غیر خدا
اک ذرا دیکھ سمجھ کر مری چشمِ احول

رفع ہونے کا نہ تھا وحدت و کثرت کا خلاف
میمِ احمد نے کیا آ کے یہ قصہ فیصل

نظر آ ئے اگر احمد میں مجھے دال دوئی
روزِ محشر ہوں الہی مری آنکھیں احول

پھر اسی طرز کی مشتاق ہے مواجیِ طبع
کہ ہے اس بحر میں اک قافیہ اچھا بادل

کیا جھکا کعبے کی جانب کو ہے قبلا بادل
سجدے کرتا ہے سوے یثرب و بطحا بادل

چھوڑ کر میکدۂ ہند و صنم خانۂ برج
آج کعبے میں بچھاے ہے مصلا بادل

سبزۂ چرخ کو اندھیاری لگا کر لایا
شہسوارِ عربی کے لیے کالا بادل

بحر امکاں میں رسول عربی درِّ یتیم
رحمتِ خاص خداوندِ تعالیٰ بادل

قبلۂ اہلِ نظر کعبۂ ابروے حضور
موے سر قبلہ کو گھیرے ہوئے کالا بادل

رشک سے شعلۂ رخسار کے روتی ہے برق
برق کے منہ پہ ہے رکھے ہوے پلا بادل

دور پہنچی لب جان بخش نبی کی شہرت
سن ذرا کہتے ہیں کیا حضرت عیسیٰ بادل

چشم انصاف سے دیکھ آپ کے دندان شریف
درِ یکتا ہے ترا گرچہ یگانا بادل

تھا بندھا تار فرشتوں کا درِ اقدس پر
شبِ معراج میں تھا عرشِ معلی بادل

آمد و رفت میں تھا ہمقدمِ برق براق
مرغزارِ چمنِ عالمِ بالا بادل​
 
Top