مدیر الحمراء کے نام ایک مکتوب

راشد اشرف

محفلین
مکرمی ! تسلیمات
الحمراء جولائی 2012 کا شمارہ موصول ہوا۔ سب سے پہلے تو بیحد شکریہ کہ جناب ابن صفی پر خاکسار کے مضمون کو الحمراءجیسے خالص ادبی پرچے کی زینت بنایا۔ جب یہ خط شائع ہوگا، 26 جولائی کی تاریخ صفی صاحب کی بتیسویں برسی لیے گزر چکی ہوگی ۔چند روز قبل خاکسار کی صفی صاحب پر کتاب بھی شائع ہوئی اور یوں ایک فریضے سے سبکدوش ہوا۔اس مرتبہ آپ کا الحمراءاور خاکسار کی کتاب، دونوں کتاب سرائے، لاہور پر موجود ہوں گے۔ لاہور سے جناب حسن نثار کے فون نے تو مجھے حیران کردیا۔دو روز قبل فون کیا اور چند ہی لمحوں میں پہلے جذباتی ہوئے اور پھر رونے لگے، ادھر میں ایسا سٹپٹایا کہ کچھ نہ پوچھیے۔اس خاکسار کے حق میں ایک دعائیہ فقرے کو چار پانچ مرتبہ دوہرایا پھر یہ کہتے ہوئے فون رکھ دیا کہ ’ مجھ سے اس وقت بات نہیں ہورہی ہے۔‘ ۔۔ادھر میرا حال نہ پوچھیے، اس قدر اپنائیت و دلنوازی سے کون کسی کی ستائش کرتا ہے۔ حسن نثار صاحب کا رونا ابن صفی سے ان کی انتہائی نوعیت کے جذباتی لگاو کی غمازی کرتا ہے۔ ایسے کتنے پرستار رہے ہوں گے۔یہ چند سطور آپ کے لیے بھی دعائے خیر سموئے ہوئے ہیں۔
شکیب اپنے تعارف کے لئے یہی بات کافی ہے

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیںجو رستہ عام ہو جائے
ابن صفی کی وضع کردہ راہ ِسری ادب آج تک ایک جداگانہ شناخت رکھتی ہے۔۔۔!

الحمراءکی محفل احباب د لوں کو ملانے کا کام بھی کرتی ہے۔ صوابی سے جناب محمد خلیل کا فون آیا۔ محبت سے بات کرتے رہے۔ اردو کے استاد ہیں۔کئی طرح کے ادبی جرائد ان کے پاس آتے ہیں۔ان ہی کا مشورہ تھا کہ الحمراءکا ای میل پتہ تخلیق کیا جائے۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا ہی عجیب ہے۔ خاکسار کو چند روز قبل پرانی کتابوں کے اتوار سے بہاولپور کے سہ ماہی الزبیر کا 1964 میں شائع ہوا آپ بیتی نمبر ملا ۔ یہ ایک ’ہائی ویلیو ٹارگٹ‘ تھا۔ خیر صاحب، ہم نے اس کا سرورق اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کردیا ۔تین روز گزرے تھے کہ گورنمنٹ کالج ناروال کے وائس پرنسپل ڈاکٹر محمود احمد کاوش کا ای میل موصول ہوا کہ ہم ایک عرصے سے مذکورہ نمبر کی تلاش میں ہلکان ہوئے جاتے تھے اور آپ ہیں کہ اسے رکھ کر بیٹھے ہیں، ذرا مشفق خواجہ کا فلاں فلاں مضمون روانہ تو کیجیے۔سو ڈاکٹر صاحب کے حکم کی تعمیل کی اور ان سے شناسائی کا آغاز بھی ہوا ۔ دنیا اسی طرح سمٹ کر کمپیوٹر کے ’کی بورڈ ‘میں سما چکی ہے۔ صحافی لوگ بھی اس کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتے۔ اخبار جہاں کے ۹ تا 15 جولائی کے شمارے میں کشور ناہید صاحبہ کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔ مصاحبہ گو خاتون نے تین تصاویر سے صفحے کو مزین کیا۔ انٹرنیٹ سے مدد لی جہاں کشور ناہید کا نام لکھنے سے جو تصویر اول اول سامنے آتی ہے ،وہ خاکسار کی کشور صاحبہ کے ساتھ ہے۔خاتون نے یہ جانا گویا فقیر کوئی اہم شخصیت ہے ، جھٹ اسے شامل کیا اور ذیلی عبارت میں لکھا ” راشد اشرف کشور ناہید کے ہمراہ“۔ کشور صاحبہ مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے ہنس پڑیں، کہا ’ بھئی اس بی بی نے فون پر انٹرویو لیا تھا‘۔۔چلیے چھٹی ہوئی۔صاحب! فون پر نکاح ہو یا انٹرویو، ہمیں کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔

ارے صاحب! اور سنیے! علی گڑھ میں میرے کرم فرما ،معروف ادیب پروفیسر اطہر صدیقی رہتے ہیں۔ خرابی صحت کی وجہ سے ویل چیئر کا استعمال رہتا ہے۔ الحمراء کے قدردانوں میں سے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پرچہ انہیں پہنچ جایا کرتا تھا، اب یہ سلسلہ بوجوہ موقوف ہوچکا ہے لیکن خاکسار جو ہے۔ ”الحمراءسے ایک انتخاب “ کے دل لبھاتے عنوان کے تحت ہر ماہ پروفیسر صاحب کو مزے دار مضامین بذریعہ ای میل پہنچ جاتے ہیں ، وہ خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہ بھی سن لیجیے کہ الحمراءکا یہ انتخاب بذریعہ احقر، اسکینڈے نیوین ممالک تک بھی جاتا ہے۔امریکہ میں بھی اس کے طلبگار موجود ہیں۔

ذکر ہورہا تھا الحمراءکے تازہ شمارے کا۔ موصول ہوتے ہی سب سے پہلے ”جتروفا کیا ہے“پر نظر ڈالی، اسے اپنی جگہ پا کر ایک تسلی سی ہوتی ہے، پھر ہی آگے بڑھتا ہوں۔اس مرتبہ تو کمال ہی ہوا ہے، تمام ہی مضامین دلچسپ رہے ہیں۔”پرش وستر میں لپٹی رودالی“ ۔۔عقیل روبی کے اس مضمون کا یہ عنوان پڑھ کر پہلے خیال آیا کہ یہ کسی ہندوستانی آرٹ فلم پر لکھا گیاہے۔ متن پڑھ کر اطمینان ہوا ۔ ایک جگہ گرش کرناڈ کا نام لکھا دیکھا۔یہ ہند کی آرٹ فلموں کا ایک معتبر نام ہے۔ منتھن اور نشانت جیسی مشہور زمانہ فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔

انتظار حسین صاحب پر یہ مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ حال ہی میں انتظار حسین کی خودنوشت ”جستجو کیا ہے“ شائع ہوئی ہے۔ کراچی پہنچی اور پہلے ہی روز پڑھ ڈالی۔ چراغوں کا دھواں کی ایکسٹیشن کہیے۔ لیکن ناشر پر حیرت ہوئی کہ پروف کی کل 28 اغلاط ہم نے نکالیں جو ان کی کتابوں میں عموما ہوتا نہیں ہے۔انتظار صاحب کو فون کیا، استقامت سے بات سنتے رہے،کہنے لگے فلاں پتے پر ای میل کردیجیے، ہندوستانی ایڈیشن میں کوشش کروں گا کہ یہ غلطیاں دوہرائی نہ جائیں۔ خیر صاحب، پروف کی اغلاط سے کس کو مکر ہے ، خود ہماری کتاب میں بھی ہوہی گئی ہیں لیکن یہ کیا غضب کیا کہ ایک جگہ معروف صحافی جناب مکین احسن کلیم کو ”کمین احسن کلیم“ لکھا گیا۔ اس بات پر انتظار صاحب سچ مچ گڑبڑا گئے، پریشان کن لہجے میں کہا ” بھئی! یہ اچھا نہیں ہوا “۔

عذرا اصغر صاحبہ کا مضمون ” اب انہیں ڈھونڈ“، ڈاکٹر انور سدید کا ”کچھ وقت کتابستان میں“ ، اعزاز آذر کا ” وہ منظر جھانکتے ہیں“دلچسپی سے پڑھے گئے۔ آپ بیتیوں کی اقساط حسب معمول عمدہ رہیں۔احمد حسین صاحب کا مضمون ”اردو بحیثیت قومی و ملکی زبان“ پڑھ کر جناب محمود شام سے ایک حالیہ ملاقات میں ان کا سنایا واقعہ یاد آیا۔ شام صاحب کی کتاب ”ترقی کرتا دشمن“ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ دورہ ہندوستان میں ایک کانفرنس میں انہوں نے شرکاءکو دوران تقریر بتایا کہ پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل کی خاتون میزبان چند برس قبل سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں پر امدادی پروگرام میں خاصے اعتماد سے کہہ رہی تھیں کہ ” قوم اس وقت مشکل میں ہے، آگے بڑھیے ، ہم آپ کی دست درازیوں کے منتظر ہیں“۔ اس نیک بی بی کی صاف گوئی پر سب ششدر رہ گئے۔طلبی ہوگئی اور کہا گیا کہ بی بی ! جانتی ہیں اس کا مطلب کیا ہے ؟۔ خاتون نے اک شان بے نیازی سے کہا کہ ان کا مقصد تو پروگرام دیکھنے والوں کا تعاون حاصل کرنا تھا۔

جناب جمیل یوسف کی آپ بیتی سے ایک ٹکڑا ” ایک دلخراش سفر“ کے عنوان سے پڑھا۔خاکسار کو ہندوستانی سفرناموں سے لگاو ہے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیے ہیں۔ زیادہ تر مصنفین نے بے لاگ تبصرے کیے ہیں، پاک و ہند کے حالات، غربت ، مہنگائی وغیرہ جیسے مسائل کا موازنہ تو لازمی ہوتا ہے۔ پڑھنے والے کے سامنے صورتحال واضح ہوکر آجاتی ہے۔ جمیل یوسف پر جو بیتی ،انہوں نے بیان کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی سفرناموںمیں راقم نے ایک سفرنامے کو نہایت منفرد پایا ۔یہ سید انیس شاہ جیلانی کا ” سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان“ ہے۔ جن لوگوں کی نظر سے یہ گزرا ہے، وہ شاید اس بات کی تائید کریں۔ جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے محمد آباد میں راقم شاہ صاحب سے 2005 میں ملاقات کو گیا تھا ،شاہ صاحب کے والد مرحوم سید مبارک شاہ جیلانی کی قائم کردہ ’مبارک لائبریری ‘بھی دیکھی اور شاہ صاحب کی باتیں بھی سنیں ۔ ویرانے میں اردو کی شمع جلائے بیٹھے ان بزرگ کو اللہ تعالی سلامت رکھے۔

ہند یاترا، دیواروں کے پار، دلی دور است، اے آب رود گنگا، دیکھا ہندوستان، دلی دور ہے اور سفر گزشت کا اپنا ہی رنگ ہے۔

الحمراءکے ’ عین بیچوں بیچ‘ جناب انتظار حسین کا ’اسکیچ‘ دیکھا۔اس کے تخلیق کار اسلم کمال ہیں۔ کرسی پر بیٹھے انتظار صاحب کے کان کے قریب بیٹھا ایک مور ان کی باتیں سنتا دیکھا۔جبکہ کھڑکی میں کبوتر بھی مشتاق نظر آیا۔ اسلم صاحب بڑے مصور ہیں ، ہم ایسوں کی ناقص عقل میں یہ باتیں کہاں آ سکتی ہیں۔ بس یہ ضرور ہوا کہ خامہ بگوش یاد آگئے جنہوں نے عالی جی کے بارے میں ایک جگہ لکھا تھا ” ۔ جمیل الدین عالی کے نغمے بچے بچے کی زبان پر تھے اور آخری زمانے میں تو صرف بچوں کی زبان پر ہی رہ گئے تھے۔ “۔

تصویر مذکورہ کے نیچے لکھا ہے ” انتظار حسین محو مطالعہ ہیں۔“ اسے بغور دیکھنے سے انتظار صاحب محو مطالعہ نہیں بلکہ کبوتر اور مور محو سخن نظر آرہے ہیں۔ چلیے صاحب! جو تیری رضا ہو ۔۔خدا جھوٹ نہ بلوائے، خاکے میں انتظار صاحب محو مطالعہ کم اور کوئی پکا راگ گاتے زیادہ جان پڑتے ہیں۔۔!

صاحب! کیا اس مرتبہ الحمراءکے طباعتی و اشاعتی مراحل کے دوران بجلی کا تعطل اس کے حروف کی بناوٹ پر بھی اثر انداز ہوا تھا ؟ محیط اسمعیل کا ”بہ زبان یوسفی “ اچھا مضمون معلوم ہوتا ہے لیکن اے کاش کہ ”صاف‘ حالت میں ہوتا تو خوب دلچسپی سے پڑھا جاتا۔ آپ نے جھلملیاں میں اس جان لیوا لوڈ شیڈنگ کا ذکر کیا ہے۔ اس اذیت میں ہم سب گرفتار ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کئی برس ہوئے کوریا سے ایک وفد پاکستان اس ارادے سے آیا کہ ہماری ترقی سے متعلق مشورے دے گا اور حسب ضرورت امداد بھی کی جائے گی۔ کچھ دن قیام کیا۔ راوی کہتاہے کہ اراکین وفد اعلی حکومتی شخصیت سے ملاقات میں کہہ اٹھے کہ ”عالی جناب! آپ کے نظام کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں آپ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں قیام عارضی ہے، ابدی زندگی تو مرنے کے بعد ہے لہذا یہاں کے مسائل رہنے دیے جائیں اور وہاں کی فکر کی جائے جبکہ ہم اس کے برخلاف سوچتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے، اس کے بعد کچھ نہیں لہذا ہم اپنے شہروں کو، بہتر سے بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں، شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کی فکر ہم پر غالب رہتی ہے۔ “

یہاں مجھے مولانا چراغ حسن حسرت کے بھتیجے اور اپنے کرم فرما جناب اسد حسن ضیاءکا حالیہ فقرہ یاد آرہا ہے کہ ” ”میرے کچھ دوست مجھ سے اس بات پر نالاں ہیں کہ میں حیات قبل از موت میں بھی یقین رکھتا ہوں۔“
 

راشد اشرف

محفلین
دوسرا حصہ:

جناب وحید الرحمان خان صاحب، ”اسرائیل میں چند روز “کو دوبارہ کھول کر دیکھیے ، جناب خواجہ اشرف نے اس کی دیدہ ریزی کے سلسلے میں کسی ’راشد اشرف‘ کا ذکر کیا ہوگا۔ امید ہے کہ خواجہ صاحب کا دوسرا سفرنامہ بھی آپ کے پاس پہنچ گیا ہوگا۔ خواجہ صاحب نے اسرائیل کا سفرنامہ لکھ کر پڑھنے والوں کو اس ملک کے بارے میں معلومات بہم پہنچائی ہیں جس کے متعلق ہم پاکستانیوں کو ایک تجسس بہرحال رہتا ہے۔ اس سے قبل قدرت اللہ شہاب ہی وہاں جیسے تیسے پہنچے تھے۔ اور واپسی پر ’اسرائیلی جادو‘ کا انجکشن لگوا لائے تھے۔ صاحب! خدا لگتی کہوں گا ، انجکشن شہاب صاحب کو دھوکے سے لگایا گیا تھا اور اس کا اثر اسلام آباد میں جناب ممتاز مفتی پر ہوا کہ اپنی عمر سے آدھی سے بھی کم لڑکی کو اسکوٹر پر بٹھا کر اسلام آباد کی سڑکوں پر گھوم کرتے تھے۔ بقول ان کے، یہ بھی اسی نامعقول جادو کا اثر تھا جس نے شہاب صاحب کے دوستوں کو بھی لپیٹے میں لے لیا(حوالہ: الکھ نگری)۔ ایسے دو چار انجکشن کوئی ہمارے احباب میں سے کسی کو لگا دے اور اس کے زیر اثر ہم مفتی جی کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔۔۔!
محفل احباب کی کیا بات ہے۔ ڈاکٹر انور سدید کے خط میں عرفان احمد خان صاحب کے ’ایم فل ‘کی خبر ہے۔اردو میں سوانحی ناول (تحقیق و تجزیہ ) کا عنوان پڑھ کر دل باغ باغ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے چند سوانحی ناولوں کے نام درج کیے ہیں، ان میں ”گیان سنگھ شاطر کی آپ بیتی“ ، نثار عزیز بٹ کے تین ناول شامل ہیں۔ چند نام خاکسار بھی پیش کرتا ہے (ان کے سوا بھی کئی اہم نام رہے ہوں گے) ان میں پریم رتن وہرہ کا ناول اٹک سے بمبئی تک (1977۔بمبئی)، ظفر اللہ پوشنی کا دوڑتا چلا گیا(2008۔کراچی) ، نفیس بانو شمع کا جنت سے نکالی ہوئی حوا (1989۔دہلی)، محمد اقبال دیوان کا جسے رات لے اڑی ہوا (2010۔کراچی)،قرتہ العین حیدر کا کار جہاں دراز ہے،ممتاز مفتی کا ’علی پور کا ایلی‘ آئی اے آفتاب کا فرشتے کی ایف آئی آر (2011۔لاہور)، محمد حسن کا کرشن بھی مرگیا (۵۸۹۱۔کراچی)، ظہور اختر اعوان کا کاظم علی جوان (2009۔لاہور) شامل ہیں۔ 1939 میں اوپندر ناتھ اشک نے اپنا سوانحی ناول ’گرتی دیواریں‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کیا تھا ، اس کا ہندی نسخہ 1974 میں شائع ہوا جبکہ اردو میں یہ 1984 میں شائع ہوا تھا۔ اشک کے مذکورہ ناول کا دوسرا حصہ ’شہر میں گھومتا آئینہ ‘ جبکہ تیسرا حصہ ’ ایک ننھی قندیل ‘ کے عنوا ن سے شائع ہوا تھا۔اشک نے اپنی زندگی کے 45 برس ’گرتی دیواریں‘ کو تصنیف کرنے میں صرف کیے تھے۔مراکش کے ادیب محمد شکری کے سوانحی ناول کا اردو ترجمہ ہندوستا ن میں عرفان صدیقی نے کیا تھا۔ ڈنمارک کے شاعر و ادیب سیٹی ڈیلیئر کے سوانحی ناول کا اردو میں ترجمہ ’نیلاہٹ میںمیں سفر‘ کے عنوان سے 2009 میں ہوا۔

جناب حافظ صفوان اللہ کا تعلق ملتان سے ہے، آپ کا خط پڑھا ۔خیال آیا کہ آپ سے کچھ دریافت کروں۔ یوں تو ملتان میں کئی مشہور علمی و ادبی ہستیاں گزری ہیں لیکن مجھے منیر فاطمی صاحب کا 1985 میں شائع ہوا بھارت کا سفرنامہ ” دیواروں کے پار‘ پڑ ھ کر ان سے انسیت سی ہوگئی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور پچھلے دنوں ”وفیات اہل قلم “کے ذریعے علم ہوا کہ وہ تو کب کے وفات پا چکے ہیں۔ ہندوستان کا سفر انہوں نے درویشی کے عالم میں کیا تھا، زاد راہ کے لیے دوستوں نے مدد کی تھی ۔ سفرنامہ نہایت عمدہ ہے۔ فاطمی صاحب کے بارے میں کچھ بتائیے کہ ان کی وفات کیسے ہوئی، غالبا انتقال کے وقت عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔
پروفیسر صابر لودھی نے اپنے مکتوب میں محترم ظفر اقبال کو یاد کیا ہے، کہتے ہیں ”ظفر اقبال کا مضمون تضادات کا مجموعہ ہے۔“ ۔ حال ہی میں کراچی کے ایک ادبی مجلے میں ظفر صاحب کا دل دہلا دینے والا مضمون ” میر کے تاج محل کا ملبہ “ شائع ہو کر ہر خاص و عام میں غیر مقبولیت کی سند پا چکا ہے۔جواب میں خاکسار سے ایک مضمون سرزد ہوا لیکن چونکہ انسان کی قدر اس کے اپنے ملک میں کم کم ہی ہوتی ہے لہذا اسے شمس الرحمان فاروقی صاحب خبرنامہ شب خون کے اگلے شمارے میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ذکر جناب ظفر اقبال کا ہو اور خامہ بگوش یاد نہ آئیں، یہ ممکن نہیں ہے:
۔ظفر اقبال واحد شاعر ہیں جن کا دریائے سخن سال بھر طغیانی پر رہتا ہے، طغیانی کا نتیجہ تعمیر و تخریب ، دونوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

عرفان احمد خان صاحب سے عرض ہے کہ خودنوشت لکھنے کا ارادہ ظاہر کرکے آپ نے اس صنف ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کو خوشخبری سنائی ہے۔ ہم سبھی اس کے منتظر ہیں۔ آپ نے اپنے مکتوب میں احمد بشیر کے سوانحی ناول ” دل بھٹکے گا“ کو ” دل بھٹکائے گا“ لکھا ہے۔ یہ بھی بھلا معلوم ہوتا ہے بلکہ ہم سے پوچھیے تو یہی رکھا جانا مناسب تھا ۔ ہمارے ہرکاروں نے خبر دی ہے کہ لاہور میں جناب مختار مسعود بھی چپکے چپکے اپنی خودنوشت لکھنے میں مصروف ہیں۔ ان کے علاوہ طارق عزیز (نیلام گھر والے)، حمرہ خلیق، اصغر ندیم سید، انوار احسن صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا ،کرنل مسعود اختر شیخ ،حبیب وہاب الخیری ، عارف شفیق اور اقلیم علیم اپنی خودنوشتیں تحریر کرنے میں مصروف ہیں۔ ادھر پروفیسر سحر انصاری بھی اس کار خیر میں مصروف ہیں۔ساقی فاروقی کی پاپ بیتی کا دوسرا حصہ ایک ادبی جریدے میں قسط وار شائع ہورہا ہے۔شنید ہے کہ کتابی شکل میں اشاعت کے بعد اس کا مطالعہ ہاتھوں میں دستانے پہنے بغیر ممکن نہ ہوگا، بصورت دیگر قاری کے ہاتھ جل جانے کا احتمال ہے۔ معین اختر کہ ابن صفی کے مداح اور خودنوشتوں کے شوقین تھے، اپنی خودنوشت مکمل کرچکے تھے ۔ انتقال سے چند روز قبل انہوں نے ناشر سے کہا تھا کہ بھائی! اسے میری زندگی ہی میں شائع کردو۔ افسوس کہ اس کی نوبت نہ آئی۔ اب ان کے صاحبزادے سے علم ہوا ہے کہ ان کے اہل خانہ اس منصوبے کو مکمل کرنے کا ادارہ رکھتے ہیں۔

پروفیسر خالق تنویر گلہ کرتے ہیں کہ کمپوزر نے ان کو ڈاکٹر اختر تنویر کردیا۔ صاحب! کمپوزنگ کے یہ مسائل تو ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ ابن صفی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ کاتب نے لفظ ”پکاسو“ کو اپنے تئیں ” پکا سور “ لکھ دیا تھا ۔صفی صاحب مزید کہتے ہیں: ”کتابت کے لطیفے ایسے ہی دلچسپ ہوتے ہیں۔کبھی ’بیدل‘ کو ’پیدل‘ پڑھیے، کبھی نشر الہ آبادی ’ن‘ سے محروم گردن اٹھائے چلے آرہے ہیں۔کبھی اسرار ناوری کا ’و‘ غائب اور پروف ریڈر صاحب ہر حال میں کاتب سے زیادہ قابل ہوتے ہیں لہذا انہوں نے ’س‘ پر بھی تین عدد نقطے ٹھونک مارے۔ چلیے بن گیا ’اشرار ناری‘ یعنی غزل اور صاحب غزل دونوں بھسم ہوئے۔“ (چیختی روحیں۔۴۲ اپریل 1959 )

آخر میں عرفان صدیقی کے دو شعر درج کررہا ہوں:
تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک
ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر
 

راشد اشرف

محفلین
اعجاز عبید صاحب، السلام وعلیکم
بہت دنوں سے آپ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ایک برس قبل پٹنہ سے "آمد" نام کا ایک ادبی جریدہ شروع ہوا تھا، کیا آپ کو یہ پرچہ آتا ہے
 

راشد اشرف

محفلین
مکتوب میں زیر تحریر خودنوشتوں کے بیان میں انور احسن صدیقی کی خودنوشت کا ذکر ہے۔ انور صاحب کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور انتقال کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی عمدہ خودنوشت "دل پرخوں کی اک گلابی سے‘‘ شہرزاد، کراچی سے شائع ہوئی۔ انور احسن صدیقی، ڈاکٹر اسلم فرخی کے بھائی ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اعجاز عبید صاحب، السلام وعلیکم
بہت دنوں سے آپ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ایک برس قبل پٹنہ سے "آمد" نام کا ایک ادبی جریدہ شروع ہوا تھا، کیا آپ کو یہ پرچہ آتا ہے
پچھلے سال علی گڑھ سے خریدا تھا ’آمد‘۔ خورشید اکبر سے رابطہ بھی کیا تھا، لیکن انہوں نے فون پر مختصر سی بات کی، اور ای میل کا جواب بھی نہیں دیا۔ رسالہ پسند آیا تھا، اور اس کی فائلیں مل جاتیں تو بہت سی ای بکس بن سکتی تھیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
ایک وقت تھا کہ پرچہ انہیں پہنچ جایا کرتا تھا، اب یہ سلسلہ بوجوہ موقوف ہوچکا ہے لیکن خاکسار جو ہے۔ ”الحمراءسے ایک انتخاب “ کے دل لبھاتے عنوان کے تحت ہر ماہ پروفیسر صاحب کو مزے دار مضامین بذریعہ ای میل پہنچ جاتے ہیں ، وہ خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہ بھی سن لیجیے کہ الحمراءکا یہ انتخاب بذریعہ احقر، اسکینڈے نیوین ممالک تک بھی جاتا ہے۔امریکہ میں بھی اس کے طلبگار موجود ہیں۔

تو جناب اس فہرست ہم جیسے چاہنے والوں کا نام بھی شامل کر لیں۔
پیشگی شکریہ!!
 
Top