راشد اشرف
محفلین
مکرمی ! تسلیمات
الحمراء جولائی 2012 کا شمارہ موصول ہوا۔ سب سے پہلے تو بیحد شکریہ کہ جناب ابن صفی پر خاکسار کے مضمون کو الحمراءجیسے خالص ادبی پرچے کی زینت بنایا۔ جب یہ خط شائع ہوگا، 26 جولائی کی تاریخ صفی صاحب کی بتیسویں برسی لیے گزر چکی ہوگی ۔چند روز قبل خاکسار کی صفی صاحب پر کتاب بھی شائع ہوئی اور یوں ایک فریضے سے سبکدوش ہوا۔اس مرتبہ آپ کا الحمراءاور خاکسار کی کتاب، دونوں کتاب سرائے، لاہور پر موجود ہوں گے۔ لاہور سے جناب حسن نثار کے فون نے تو مجھے حیران کردیا۔دو روز قبل فون کیا اور چند ہی لمحوں میں پہلے جذباتی ہوئے اور پھر رونے لگے، ادھر میں ایسا سٹپٹایا کہ کچھ نہ پوچھیے۔اس خاکسار کے حق میں ایک دعائیہ فقرے کو چار پانچ مرتبہ دوہرایا پھر یہ کہتے ہوئے فون رکھ دیا کہ ’ مجھ سے اس وقت بات نہیں ہورہی ہے۔‘ ۔۔ادھر میرا حال نہ پوچھیے، اس قدر اپنائیت و دلنوازی سے کون کسی کی ستائش کرتا ہے۔ حسن نثار صاحب کا رونا ابن صفی سے ان کی انتہائی نوعیت کے جذباتی لگاو کی غمازی کرتا ہے۔ ایسے کتنے پرستار رہے ہوں گے۔یہ چند سطور آپ کے لیے بھی دعائے خیر سموئے ہوئے ہیں۔
شکیب اپنے تعارف کے لئے یہی بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیںجو رستہ عام ہو جائے
ابن صفی کی وضع کردہ راہ ِسری ادب آج تک ایک جداگانہ شناخت رکھتی ہے۔۔۔!
الحمراءکی محفل احباب د لوں کو ملانے کا کام بھی کرتی ہے۔ صوابی سے جناب محمد خلیل کا فون آیا۔ محبت سے بات کرتے رہے۔ اردو کے استاد ہیں۔کئی طرح کے ادبی جرائد ان کے پاس آتے ہیں۔ان ہی کا مشورہ تھا کہ الحمراءکا ای میل پتہ تخلیق کیا جائے۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا ہی عجیب ہے۔ خاکسار کو چند روز قبل پرانی کتابوں کے اتوار سے بہاولپور کے سہ ماہی الزبیر کا 1964 میں شائع ہوا آپ بیتی نمبر ملا ۔ یہ ایک ’ہائی ویلیو ٹارگٹ‘ تھا۔ خیر صاحب، ہم نے اس کا سرورق اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کردیا ۔تین روز گزرے تھے کہ گورنمنٹ کالج ناروال کے وائس پرنسپل ڈاکٹر محمود احمد کاوش کا ای میل موصول ہوا کہ ہم ایک عرصے سے مذکورہ نمبر کی تلاش میں ہلکان ہوئے جاتے تھے اور آپ ہیں کہ اسے رکھ کر بیٹھے ہیں، ذرا مشفق خواجہ کا فلاں فلاں مضمون روانہ تو کیجیے۔سو ڈاکٹر صاحب کے حکم کی تعمیل کی اور ان سے شناسائی کا آغاز بھی ہوا ۔ دنیا اسی طرح سمٹ کر کمپیوٹر کے ’کی بورڈ ‘میں سما چکی ہے۔ صحافی لوگ بھی اس کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتے۔ اخبار جہاں کے ۹ تا 15 جولائی کے شمارے میں کشور ناہید صاحبہ کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔ مصاحبہ گو خاتون نے تین تصاویر سے صفحے کو مزین کیا۔ انٹرنیٹ سے مدد لی جہاں کشور ناہید کا نام لکھنے سے جو تصویر اول اول سامنے آتی ہے ،وہ خاکسار کی کشور صاحبہ کے ساتھ ہے۔خاتون نے یہ جانا گویا فقیر کوئی اہم شخصیت ہے ، جھٹ اسے شامل کیا اور ذیلی عبارت میں لکھا ” راشد اشرف کشور ناہید کے ہمراہ“۔ کشور صاحبہ مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے ہنس پڑیں، کہا ’ بھئی اس بی بی نے فون پر انٹرویو لیا تھا‘۔۔چلیے چھٹی ہوئی۔صاحب! فون پر نکاح ہو یا انٹرویو، ہمیں کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔
ارے صاحب! اور سنیے! علی گڑھ میں میرے کرم فرما ،معروف ادیب پروفیسر اطہر صدیقی رہتے ہیں۔ خرابی صحت کی وجہ سے ویل چیئر کا استعمال رہتا ہے۔ الحمراء کے قدردانوں میں سے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پرچہ انہیں پہنچ جایا کرتا تھا، اب یہ سلسلہ بوجوہ موقوف ہوچکا ہے لیکن خاکسار جو ہے۔ ”الحمراءسے ایک انتخاب “ کے دل لبھاتے عنوان کے تحت ہر ماہ پروفیسر صاحب کو مزے دار مضامین بذریعہ ای میل پہنچ جاتے ہیں ، وہ خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہ بھی سن لیجیے کہ الحمراءکا یہ انتخاب بذریعہ احقر، اسکینڈے نیوین ممالک تک بھی جاتا ہے۔امریکہ میں بھی اس کے طلبگار موجود ہیں۔
ذکر ہورہا تھا الحمراءکے تازہ شمارے کا۔ موصول ہوتے ہی سب سے پہلے ”جتروفا کیا ہے“پر نظر ڈالی، اسے اپنی جگہ پا کر ایک تسلی سی ہوتی ہے، پھر ہی آگے بڑھتا ہوں۔اس مرتبہ تو کمال ہی ہوا ہے، تمام ہی مضامین دلچسپ رہے ہیں۔”پرش وستر میں لپٹی رودالی“ ۔۔عقیل روبی کے اس مضمون کا یہ عنوان پڑھ کر پہلے خیال آیا کہ یہ کسی ہندوستانی آرٹ فلم پر لکھا گیاہے۔ متن پڑھ کر اطمینان ہوا ۔ ایک جگہ گرش کرناڈ کا نام لکھا دیکھا۔یہ ہند کی آرٹ فلموں کا ایک معتبر نام ہے۔ منتھن اور نشانت جیسی مشہور زمانہ فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
انتظار حسین صاحب پر یہ مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ حال ہی میں انتظار حسین کی خودنوشت ”جستجو کیا ہے“ شائع ہوئی ہے۔ کراچی پہنچی اور پہلے ہی روز پڑھ ڈالی۔ چراغوں کا دھواں کی ایکسٹیشن کہیے۔ لیکن ناشر پر حیرت ہوئی کہ پروف کی کل 28 اغلاط ہم نے نکالیں جو ان کی کتابوں میں عموما ہوتا نہیں ہے۔انتظار صاحب کو فون کیا، استقامت سے بات سنتے رہے،کہنے لگے فلاں پتے پر ای میل کردیجیے، ہندوستانی ایڈیشن میں کوشش کروں گا کہ یہ غلطیاں دوہرائی نہ جائیں۔ خیر صاحب، پروف کی اغلاط سے کس کو مکر ہے ، خود ہماری کتاب میں بھی ہوہی گئی ہیں لیکن یہ کیا غضب کیا کہ ایک جگہ معروف صحافی جناب مکین احسن کلیم کو ”کمین احسن کلیم“ لکھا گیا۔ اس بات پر انتظار صاحب سچ مچ گڑبڑا گئے، پریشان کن لہجے میں کہا ” بھئی! یہ اچھا نہیں ہوا “۔
عذرا اصغر صاحبہ کا مضمون ” اب انہیں ڈھونڈ“، ڈاکٹر انور سدید کا ”کچھ وقت کتابستان میں“ ، اعزاز آذر کا ” وہ منظر جھانکتے ہیں“دلچسپی سے پڑھے گئے۔ آپ بیتیوں کی اقساط حسب معمول عمدہ رہیں۔احمد حسین صاحب کا مضمون ”اردو بحیثیت قومی و ملکی زبان“ پڑھ کر جناب محمود شام سے ایک حالیہ ملاقات میں ان کا سنایا واقعہ یاد آیا۔ شام صاحب کی کتاب ”ترقی کرتا دشمن“ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ دورہ ہندوستان میں ایک کانفرنس میں انہوں نے شرکاءکو دوران تقریر بتایا کہ پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل کی خاتون میزبان چند برس قبل سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں پر امدادی پروگرام میں خاصے اعتماد سے کہہ رہی تھیں کہ ” قوم اس وقت مشکل میں ہے، آگے بڑھیے ، ہم آپ کی دست درازیوں کے منتظر ہیں“۔ اس نیک بی بی کی صاف گوئی پر سب ششدر رہ گئے۔طلبی ہوگئی اور کہا گیا کہ بی بی ! جانتی ہیں اس کا مطلب کیا ہے ؟۔ خاتون نے اک شان بے نیازی سے کہا کہ ان کا مقصد تو پروگرام دیکھنے والوں کا تعاون حاصل کرنا تھا۔
جناب جمیل یوسف کی آپ بیتی سے ایک ٹکڑا ” ایک دلخراش سفر“ کے عنوان سے پڑھا۔خاکسار کو ہندوستانی سفرناموں سے لگاو ہے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیے ہیں۔ زیادہ تر مصنفین نے بے لاگ تبصرے کیے ہیں، پاک و ہند کے حالات، غربت ، مہنگائی وغیرہ جیسے مسائل کا موازنہ تو لازمی ہوتا ہے۔ پڑھنے والے کے سامنے صورتحال واضح ہوکر آجاتی ہے۔ جمیل یوسف پر جو بیتی ،انہوں نے بیان کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی سفرناموںمیں راقم نے ایک سفرنامے کو نہایت منفرد پایا ۔یہ سید انیس شاہ جیلانی کا ” سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان“ ہے۔ جن لوگوں کی نظر سے یہ گزرا ہے، وہ شاید اس بات کی تائید کریں۔ جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے محمد آباد میں راقم شاہ صاحب سے 2005 میں ملاقات کو گیا تھا ،شاہ صاحب کے والد مرحوم سید مبارک شاہ جیلانی کی قائم کردہ ’مبارک لائبریری ‘بھی دیکھی اور شاہ صاحب کی باتیں بھی سنیں ۔ ویرانے میں اردو کی شمع جلائے بیٹھے ان بزرگ کو اللہ تعالی سلامت رکھے۔
ہند یاترا، دیواروں کے پار، دلی دور است، اے آب رود گنگا، دیکھا ہندوستان، دلی دور ہے اور سفر گزشت کا اپنا ہی رنگ ہے۔
الحمراءکے ’ عین بیچوں بیچ‘ جناب انتظار حسین کا ’اسکیچ‘ دیکھا۔اس کے تخلیق کار اسلم کمال ہیں۔ کرسی پر بیٹھے انتظار صاحب کے کان کے قریب بیٹھا ایک مور ان کی باتیں سنتا دیکھا۔جبکہ کھڑکی میں کبوتر بھی مشتاق نظر آیا۔ اسلم صاحب بڑے مصور ہیں ، ہم ایسوں کی ناقص عقل میں یہ باتیں کہاں آ سکتی ہیں۔ بس یہ ضرور ہوا کہ خامہ بگوش یاد آگئے جنہوں نے عالی جی کے بارے میں ایک جگہ لکھا تھا ” ۔ جمیل الدین عالی کے نغمے بچے بچے کی زبان پر تھے اور آخری زمانے میں تو صرف بچوں کی زبان پر ہی رہ گئے تھے۔ “۔
تصویر مذکورہ کے نیچے لکھا ہے ” انتظار حسین محو مطالعہ ہیں۔“ اسے بغور دیکھنے سے انتظار صاحب محو مطالعہ نہیں بلکہ کبوتر اور مور محو سخن نظر آرہے ہیں۔ چلیے صاحب! جو تیری رضا ہو ۔۔خدا جھوٹ نہ بلوائے، خاکے میں انتظار صاحب محو مطالعہ کم اور کوئی پکا راگ گاتے زیادہ جان پڑتے ہیں۔۔!
صاحب! کیا اس مرتبہ الحمراءکے طباعتی و اشاعتی مراحل کے دوران بجلی کا تعطل اس کے حروف کی بناوٹ پر بھی اثر انداز ہوا تھا ؟ محیط اسمعیل کا ”بہ زبان یوسفی “ اچھا مضمون معلوم ہوتا ہے لیکن اے کاش کہ ”صاف‘ حالت میں ہوتا تو خوب دلچسپی سے پڑھا جاتا۔ آپ نے جھلملیاں میں اس جان لیوا لوڈ شیڈنگ کا ذکر کیا ہے۔ اس اذیت میں ہم سب گرفتار ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کئی برس ہوئے کوریا سے ایک وفد پاکستان اس ارادے سے آیا کہ ہماری ترقی سے متعلق مشورے دے گا اور حسب ضرورت امداد بھی کی جائے گی۔ کچھ دن قیام کیا۔ راوی کہتاہے کہ اراکین وفد اعلی حکومتی شخصیت سے ملاقات میں کہہ اٹھے کہ ”عالی جناب! آپ کے نظام کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں آپ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں قیام عارضی ہے، ابدی زندگی تو مرنے کے بعد ہے لہذا یہاں کے مسائل رہنے دیے جائیں اور وہاں کی فکر کی جائے جبکہ ہم اس کے برخلاف سوچتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے، اس کے بعد کچھ نہیں لہذا ہم اپنے شہروں کو، بہتر سے بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں، شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کی فکر ہم پر غالب رہتی ہے۔ “
یہاں مجھے مولانا چراغ حسن حسرت کے بھتیجے اور اپنے کرم فرما جناب اسد حسن ضیاءکا حالیہ فقرہ یاد آرہا ہے کہ ” ”میرے کچھ دوست مجھ سے اس بات پر نالاں ہیں کہ میں حیات قبل از موت میں بھی یقین رکھتا ہوں۔“
الحمراء جولائی 2012 کا شمارہ موصول ہوا۔ سب سے پہلے تو بیحد شکریہ کہ جناب ابن صفی پر خاکسار کے مضمون کو الحمراءجیسے خالص ادبی پرچے کی زینت بنایا۔ جب یہ خط شائع ہوگا، 26 جولائی کی تاریخ صفی صاحب کی بتیسویں برسی لیے گزر چکی ہوگی ۔چند روز قبل خاکسار کی صفی صاحب پر کتاب بھی شائع ہوئی اور یوں ایک فریضے سے سبکدوش ہوا۔اس مرتبہ آپ کا الحمراءاور خاکسار کی کتاب، دونوں کتاب سرائے، لاہور پر موجود ہوں گے۔ لاہور سے جناب حسن نثار کے فون نے تو مجھے حیران کردیا۔دو روز قبل فون کیا اور چند ہی لمحوں میں پہلے جذباتی ہوئے اور پھر رونے لگے، ادھر میں ایسا سٹپٹایا کہ کچھ نہ پوچھیے۔اس خاکسار کے حق میں ایک دعائیہ فقرے کو چار پانچ مرتبہ دوہرایا پھر یہ کہتے ہوئے فون رکھ دیا کہ ’ مجھ سے اس وقت بات نہیں ہورہی ہے۔‘ ۔۔ادھر میرا حال نہ پوچھیے، اس قدر اپنائیت و دلنوازی سے کون کسی کی ستائش کرتا ہے۔ حسن نثار صاحب کا رونا ابن صفی سے ان کی انتہائی نوعیت کے جذباتی لگاو کی غمازی کرتا ہے۔ ایسے کتنے پرستار رہے ہوں گے۔یہ چند سطور آپ کے لیے بھی دعائے خیر سموئے ہوئے ہیں۔
شکیب اپنے تعارف کے لئے یہی بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیںجو رستہ عام ہو جائے
ابن صفی کی وضع کردہ راہ ِسری ادب آج تک ایک جداگانہ شناخت رکھتی ہے۔۔۔!
الحمراءکی محفل احباب د لوں کو ملانے کا کام بھی کرتی ہے۔ صوابی سے جناب محمد خلیل کا فون آیا۔ محبت سے بات کرتے رہے۔ اردو کے استاد ہیں۔کئی طرح کے ادبی جرائد ان کے پاس آتے ہیں۔ان ہی کا مشورہ تھا کہ الحمراءکا ای میل پتہ تخلیق کیا جائے۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا ہی عجیب ہے۔ خاکسار کو چند روز قبل پرانی کتابوں کے اتوار سے بہاولپور کے سہ ماہی الزبیر کا 1964 میں شائع ہوا آپ بیتی نمبر ملا ۔ یہ ایک ’ہائی ویلیو ٹارگٹ‘ تھا۔ خیر صاحب، ہم نے اس کا سرورق اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کردیا ۔تین روز گزرے تھے کہ گورنمنٹ کالج ناروال کے وائس پرنسپل ڈاکٹر محمود احمد کاوش کا ای میل موصول ہوا کہ ہم ایک عرصے سے مذکورہ نمبر کی تلاش میں ہلکان ہوئے جاتے تھے اور آپ ہیں کہ اسے رکھ کر بیٹھے ہیں، ذرا مشفق خواجہ کا فلاں فلاں مضمون روانہ تو کیجیے۔سو ڈاکٹر صاحب کے حکم کی تعمیل کی اور ان سے شناسائی کا آغاز بھی ہوا ۔ دنیا اسی طرح سمٹ کر کمپیوٹر کے ’کی بورڈ ‘میں سما چکی ہے۔ صحافی لوگ بھی اس کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتے۔ اخبار جہاں کے ۹ تا 15 جولائی کے شمارے میں کشور ناہید صاحبہ کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔ مصاحبہ گو خاتون نے تین تصاویر سے صفحے کو مزین کیا۔ انٹرنیٹ سے مدد لی جہاں کشور ناہید کا نام لکھنے سے جو تصویر اول اول سامنے آتی ہے ،وہ خاکسار کی کشور صاحبہ کے ساتھ ہے۔خاتون نے یہ جانا گویا فقیر کوئی اہم شخصیت ہے ، جھٹ اسے شامل کیا اور ذیلی عبارت میں لکھا ” راشد اشرف کشور ناہید کے ہمراہ“۔ کشور صاحبہ مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے ہنس پڑیں، کہا ’ بھئی اس بی بی نے فون پر انٹرویو لیا تھا‘۔۔چلیے چھٹی ہوئی۔صاحب! فون پر نکاح ہو یا انٹرویو، ہمیں کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔
ارے صاحب! اور سنیے! علی گڑھ میں میرے کرم فرما ،معروف ادیب پروفیسر اطہر صدیقی رہتے ہیں۔ خرابی صحت کی وجہ سے ویل چیئر کا استعمال رہتا ہے۔ الحمراء کے قدردانوں میں سے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پرچہ انہیں پہنچ جایا کرتا تھا، اب یہ سلسلہ بوجوہ موقوف ہوچکا ہے لیکن خاکسار جو ہے۔ ”الحمراءسے ایک انتخاب “ کے دل لبھاتے عنوان کے تحت ہر ماہ پروفیسر صاحب کو مزے دار مضامین بذریعہ ای میل پہنچ جاتے ہیں ، وہ خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہ بھی سن لیجیے کہ الحمراءکا یہ انتخاب بذریعہ احقر، اسکینڈے نیوین ممالک تک بھی جاتا ہے۔امریکہ میں بھی اس کے طلبگار موجود ہیں۔
ذکر ہورہا تھا الحمراءکے تازہ شمارے کا۔ موصول ہوتے ہی سب سے پہلے ”جتروفا کیا ہے“پر نظر ڈالی، اسے اپنی جگہ پا کر ایک تسلی سی ہوتی ہے، پھر ہی آگے بڑھتا ہوں۔اس مرتبہ تو کمال ہی ہوا ہے، تمام ہی مضامین دلچسپ رہے ہیں۔”پرش وستر میں لپٹی رودالی“ ۔۔عقیل روبی کے اس مضمون کا یہ عنوان پڑھ کر پہلے خیال آیا کہ یہ کسی ہندوستانی آرٹ فلم پر لکھا گیاہے۔ متن پڑھ کر اطمینان ہوا ۔ ایک جگہ گرش کرناڈ کا نام لکھا دیکھا۔یہ ہند کی آرٹ فلموں کا ایک معتبر نام ہے۔ منتھن اور نشانت جیسی مشہور زمانہ فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
انتظار حسین صاحب پر یہ مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ حال ہی میں انتظار حسین کی خودنوشت ”جستجو کیا ہے“ شائع ہوئی ہے۔ کراچی پہنچی اور پہلے ہی روز پڑھ ڈالی۔ چراغوں کا دھواں کی ایکسٹیشن کہیے۔ لیکن ناشر پر حیرت ہوئی کہ پروف کی کل 28 اغلاط ہم نے نکالیں جو ان کی کتابوں میں عموما ہوتا نہیں ہے۔انتظار صاحب کو فون کیا، استقامت سے بات سنتے رہے،کہنے لگے فلاں پتے پر ای میل کردیجیے، ہندوستانی ایڈیشن میں کوشش کروں گا کہ یہ غلطیاں دوہرائی نہ جائیں۔ خیر صاحب، پروف کی اغلاط سے کس کو مکر ہے ، خود ہماری کتاب میں بھی ہوہی گئی ہیں لیکن یہ کیا غضب کیا کہ ایک جگہ معروف صحافی جناب مکین احسن کلیم کو ”کمین احسن کلیم“ لکھا گیا۔ اس بات پر انتظار صاحب سچ مچ گڑبڑا گئے، پریشان کن لہجے میں کہا ” بھئی! یہ اچھا نہیں ہوا “۔
عذرا اصغر صاحبہ کا مضمون ” اب انہیں ڈھونڈ“، ڈاکٹر انور سدید کا ”کچھ وقت کتابستان میں“ ، اعزاز آذر کا ” وہ منظر جھانکتے ہیں“دلچسپی سے پڑھے گئے۔ آپ بیتیوں کی اقساط حسب معمول عمدہ رہیں۔احمد حسین صاحب کا مضمون ”اردو بحیثیت قومی و ملکی زبان“ پڑھ کر جناب محمود شام سے ایک حالیہ ملاقات میں ان کا سنایا واقعہ یاد آیا۔ شام صاحب کی کتاب ”ترقی کرتا دشمن“ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ دورہ ہندوستان میں ایک کانفرنس میں انہوں نے شرکاءکو دوران تقریر بتایا کہ پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل کی خاتون میزبان چند برس قبل سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں پر امدادی پروگرام میں خاصے اعتماد سے کہہ رہی تھیں کہ ” قوم اس وقت مشکل میں ہے، آگے بڑھیے ، ہم آپ کی دست درازیوں کے منتظر ہیں“۔ اس نیک بی بی کی صاف گوئی پر سب ششدر رہ گئے۔طلبی ہوگئی اور کہا گیا کہ بی بی ! جانتی ہیں اس کا مطلب کیا ہے ؟۔ خاتون نے اک شان بے نیازی سے کہا کہ ان کا مقصد تو پروگرام دیکھنے والوں کا تعاون حاصل کرنا تھا۔
جناب جمیل یوسف کی آپ بیتی سے ایک ٹکڑا ” ایک دلخراش سفر“ کے عنوان سے پڑھا۔خاکسار کو ہندوستانی سفرناموں سے لگاو ہے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیے ہیں۔ زیادہ تر مصنفین نے بے لاگ تبصرے کیے ہیں، پاک و ہند کے حالات، غربت ، مہنگائی وغیرہ جیسے مسائل کا موازنہ تو لازمی ہوتا ہے۔ پڑھنے والے کے سامنے صورتحال واضح ہوکر آجاتی ہے۔ جمیل یوسف پر جو بیتی ،انہوں نے بیان کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی سفرناموںمیں راقم نے ایک سفرنامے کو نہایت منفرد پایا ۔یہ سید انیس شاہ جیلانی کا ” سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان“ ہے۔ جن لوگوں کی نظر سے یہ گزرا ہے، وہ شاید اس بات کی تائید کریں۔ جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے محمد آباد میں راقم شاہ صاحب سے 2005 میں ملاقات کو گیا تھا ،شاہ صاحب کے والد مرحوم سید مبارک شاہ جیلانی کی قائم کردہ ’مبارک لائبریری ‘بھی دیکھی اور شاہ صاحب کی باتیں بھی سنیں ۔ ویرانے میں اردو کی شمع جلائے بیٹھے ان بزرگ کو اللہ تعالی سلامت رکھے۔
ہند یاترا، دیواروں کے پار، دلی دور است، اے آب رود گنگا، دیکھا ہندوستان، دلی دور ہے اور سفر گزشت کا اپنا ہی رنگ ہے۔
الحمراءکے ’ عین بیچوں بیچ‘ جناب انتظار حسین کا ’اسکیچ‘ دیکھا۔اس کے تخلیق کار اسلم کمال ہیں۔ کرسی پر بیٹھے انتظار صاحب کے کان کے قریب بیٹھا ایک مور ان کی باتیں سنتا دیکھا۔جبکہ کھڑکی میں کبوتر بھی مشتاق نظر آیا۔ اسلم صاحب بڑے مصور ہیں ، ہم ایسوں کی ناقص عقل میں یہ باتیں کہاں آ سکتی ہیں۔ بس یہ ضرور ہوا کہ خامہ بگوش یاد آگئے جنہوں نے عالی جی کے بارے میں ایک جگہ لکھا تھا ” ۔ جمیل الدین عالی کے نغمے بچے بچے کی زبان پر تھے اور آخری زمانے میں تو صرف بچوں کی زبان پر ہی رہ گئے تھے۔ “۔
تصویر مذکورہ کے نیچے لکھا ہے ” انتظار حسین محو مطالعہ ہیں۔“ اسے بغور دیکھنے سے انتظار صاحب محو مطالعہ نہیں بلکہ کبوتر اور مور محو سخن نظر آرہے ہیں۔ چلیے صاحب! جو تیری رضا ہو ۔۔خدا جھوٹ نہ بلوائے، خاکے میں انتظار صاحب محو مطالعہ کم اور کوئی پکا راگ گاتے زیادہ جان پڑتے ہیں۔۔!
صاحب! کیا اس مرتبہ الحمراءکے طباعتی و اشاعتی مراحل کے دوران بجلی کا تعطل اس کے حروف کی بناوٹ پر بھی اثر انداز ہوا تھا ؟ محیط اسمعیل کا ”بہ زبان یوسفی “ اچھا مضمون معلوم ہوتا ہے لیکن اے کاش کہ ”صاف‘ حالت میں ہوتا تو خوب دلچسپی سے پڑھا جاتا۔ آپ نے جھلملیاں میں اس جان لیوا لوڈ شیڈنگ کا ذکر کیا ہے۔ اس اذیت میں ہم سب گرفتار ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کئی برس ہوئے کوریا سے ایک وفد پاکستان اس ارادے سے آیا کہ ہماری ترقی سے متعلق مشورے دے گا اور حسب ضرورت امداد بھی کی جائے گی۔ کچھ دن قیام کیا۔ راوی کہتاہے کہ اراکین وفد اعلی حکومتی شخصیت سے ملاقات میں کہہ اٹھے کہ ”عالی جناب! آپ کے نظام کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں آپ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں قیام عارضی ہے، ابدی زندگی تو مرنے کے بعد ہے لہذا یہاں کے مسائل رہنے دیے جائیں اور وہاں کی فکر کی جائے جبکہ ہم اس کے برخلاف سوچتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے، اس کے بعد کچھ نہیں لہذا ہم اپنے شہروں کو، بہتر سے بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں، شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کی فکر ہم پر غالب رہتی ہے۔ “
یہاں مجھے مولانا چراغ حسن حسرت کے بھتیجے اور اپنے کرم فرما جناب اسد حسن ضیاءکا حالیہ فقرہ یاد آرہا ہے کہ ” ”میرے کچھ دوست مجھ سے اس بات پر نالاں ہیں کہ میں حیات قبل از موت میں بھی یقین رکھتا ہوں۔“