قمراحمد
محفلین
"مدینے کا شہید" جاویدچودھری کا وہ کالم ہے جس پر اُنھیں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اے پی این ایس نے 1997/98کے بہترین کالم نویس کا ایوارڈ دیا ۔
پچھلے موسم میں ایک نامور پاکستانی دانشور بھارت گے، دورے کے اختتام پر ایک غیر سرکاری تنظیم نے دہلی میں اُن کےاعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں پاکستانی دانشور کو ”خراجِ عقیدت” پیش کرنے کے لیے چوٹی کے بھارتی دانشور تشریف لائے، نشست کے آخر میں جب سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک ہندو نے اپنے معزز مہمان سے ایک عجیب سوال پوچھا،پوچھنے والے نے پوچھا۔” یہاں بھارت میں تو مسلمان مساجد میں نماز ادا کرتےہیں وہاں پاکستان میں کہاں پڑھتے ہیں؟” پاکستانی دانشور نے اِس سوال کو مذاق سمجھ کر فلک شگاف قہقہ لگایا لیکن جب اُنہیں محفل کی طرف سے کوئی خاص ردعمل موصول نہ ہوا تو اُنہوں نے کھسیانا ساہوکر سوالی کی طرف دیکھا ،ہندو دانشور کے چہرے پر سنجیدگی کے ڈھیرلگے تھے، پاکستانی دانشور نے بے چینی سے پہلو بدل کر جواب دیا۔ ”ظاہر ہے مسجدوں ہی میں پڑھتے ہیں۔” یہ جواب سن کر ہندو دانشور کھڑا ہوا،ایک نظر حاضرین پر ڈالی اور پھر مسکرا کر بولا۔” لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق تو پاکستانی مسجدوں میں نماز پڑھنے والوں کو گولی ماردی جاتی ہے۔” ہندو دانشور کا یہ تبصرہ پاکستانی دانشور کو سکڈ میزائل کی طرح لگا اُس کا ماتھا پسینے سے بھیگ گیا ہاتھوں میں لرزہ طاری ہوگیا اور آنکھوں میں سرخی آگئی، منتظمین موقع کی نزاکت بھانپ گئے لٰہذا انہوں نے فوراً نشست کے اختتام کا اعلان کردیا یوں پاک بھارت تعلقات مزید بگڑنے سے بچ گئے۔
یہ واقعہ مجھے مرحوم حکیم سعید نے سنایا تھا،مجھے آج بھی وہ گرم سہ پہر یاد ہے میں ہمدرد دواخانہ راولپنڈی میں حکیم صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا، مرحوم خلافِ معمول تھکے تھکےسے لگ رہے تھے میں نے ادب سے طبیعت کے اِس بوجھل پن کی وجہ دریافت کی تو دل گرفتہ لہجے میں بولے” ہم نے اِس دکھ سے بھارت چھوڑا تھا کہ ہمیں وہاں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی، ہم نماز پڑھنے جاتے تھے تو ہندو مسجدوں میں سور چھوڑ دیتے تھے، خانہ خدا کے دروازے پر ڈھول پیٹتے تھے ،بول و براز کی تھیلیاں ہمارے اوپر پھینکتے تھے، ہندو شر پسند پچھلی صفوں میں کھڑے نمازیوں کو چھرے گھونپ کر بھاگ جاتے تھے، ہم نے سوچا چلو پاکستان چلتے ہیں وہاں ہمارے سجدے تو آزاد ہوں گے، ہماری مسجدیں،ہماری درگاہیں تو محفوظ ہونگیں لیکن افسوس آج مسلح گارڈز کے پہرے کے بغیر پاکستان کی کسی مسجد میں نماز کا تصور تک نہیں، مجھے میرے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید دہلی سے لکھتے ہیں۔ سعید واپس آجاؤ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ،یہاں اِدھر کم از کم مسجدیں تو محفوظ ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن میں۔” اُن کی آواز اکھڑ گئی۔
”پاکستان آنے پر آپ کو کبھی پچھتاوا ہوا؟” میں نے نرمی سے پوچھا۔” انہوں نے اچکن کے بٹن سہلائے” نہیں ہر گز نہیں ،یہ سودا ہم نے خود کیا تھا۔ حمید بھائی میرےاِس فیصلے سے خوش نہیں تھے،اُن کی خواہش تھی میں دہلی ہی میں اُن کا ہاتھ بٹاؤں لیکن مجھے لفظ پاکستان سے عشق تھا لٰہذا اِدھر چلا آیا، اللہ تعالٰی نے کرم کیا اور وہ ادارہ جس کی بنیاد میں نے بارہ روپے سے رکھی تھی آج پاکستان کے چند بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے، یہ سب پاکستان سے عشق کا کمال ہے۔” اُن کی آواز میں بدستور ملال تھا۔” لیکن پاکستان کے حالات سے دکھ تو ہوتا ہوگا؟” میں اپنے سوال پر اصرار کیا۔”
ہاں بہت ہوتا ہے۔ اخبار پڑھتا ہوں، سیاستدانوں کے حالات دیکھتا ہوں عوام کی دگرگوں صورتحال پر نظر پڑتی ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب اُدھر دہلی سے کوئی عزیز رشتے دار پاکستان آکر کہتا ہے،”کیوں پھر” تو دل پر چھری سی چل جاتی ہے،لیکن کیا کریں، گھر جیسا بھی ہے، ہے تو اپنا، ہم اِسے چھوڑ تو نہیں سکتے؛لٰہذا لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے آخری سانس تک۔”
” کوئی اِیسی خواہش جس کا آپ نے آج تک کسی کے سامنے اظہار نہیں کیا؟” اُنہوں نے کچھ دیر تک سوچا۔ ہاں کبھی کبھی جی چاہتا ہے میری موت حمید بھائی سے پہلے ہو،وہ میرے جنازے پر آئیں، میرے چہرے سے چادر سرکا کر دیکھیں اور پھر آہستہ سے مسکرا کر کہیں، ہاں سعید تمہارافیصلہ درست تھا۔"
وہ گرم دوپہر ڈھل گئی تو اُس کے بطن سے آج کی خنک اور غمناک صبح طلوع ہوئی، میرے سامنے میز پر آج کے اخبار بکھرے پڑے ہیں، ہر اخبار کی پیشانی کے ساتھ آج کے سب سے بڑے انسان کی تصویر چپھی ہے،خون میں نہائی اور حسرت میں ڈوبی ہوئی تصویر جو ہر نظر سے چیخ چیخ کر ایک ہی سوال کررہی ہے۔” میرا جرم کیا تھا،مجھے کیوں مارا گیا،میں تو زخموں پر مرہم رکھنے والا شخص تھا پھر میرے جسم کو زخم کیوں بنا دیا گیا۔” میرا دماغ سلگی لکڑیوں کی طر ح چٹخنے لگا،یہ تصویر آج دہلی کے کسی اخبار میں بھی چپھی ہوگی، وہ اخبار ہمدرد نگر کے ایک چھوٹے سے غریبانہ کمرے میں بھی پہنچا ہوگا،چٹائی پر بیٹھے بیاسی (82) برس کے ایک بوڑھے نے بھی اسے اُٹھایا ہوگا،اُس کی آنکھیں بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں کی طرح چھلک پڑی ہوں گی،اُس نے بھی شدت جذبات سے اخبار پرے پھینک دیا ہوگا،اُس نے بازو پر دانت جما کر چیخ ماری ہوگی، اُس نے بھی اپنی چھاتی پر ہاتھ مارا ہوگا،اُس نے بھی چلاچلا کر کہا ہوگا۔ ”سعید تمہارا فیصلہ غلط تھا،مجھے دیکھو 82 برس کے بوڑھے کو دیکھو ،بغیر محافظ کے مسجد جاتا ہے، پیدل مطب پہنچتاہے، روز صبح شام کافروں کے درمیان چہل قدمی کرتا ہے لیکن اُس پر کبھی کوئی گولی نہیں چلی، اُس کا کبھی کسی نے راستہ نہیں روکا۔ ہاں اُس 82 برس کے کمزور بوڑھے نے چلا چلا کرکہا ہوگا۔” سعید میں کربلا میں زندہ رہا تم مدینے میں مارے گئے۔”
نوٹ:- "جاویدچودھری" کا یہ کالم اُن کے کالموں کے پہلے مجموعے(زیروپوائنٹ) سے "قمراحمد " نے اُردو محفل کے دوستوں کے لیے خصوصی طور پر ٹائپ کر کے پیشں کیا۔
مدینے کا شہید
پچھلے موسم میں ایک نامور پاکستانی دانشور بھارت گے، دورے کے اختتام پر ایک غیر سرکاری تنظیم نے دہلی میں اُن کےاعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں پاکستانی دانشور کو ”خراجِ عقیدت” پیش کرنے کے لیے چوٹی کے بھارتی دانشور تشریف لائے، نشست کے آخر میں جب سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک ہندو نے اپنے معزز مہمان سے ایک عجیب سوال پوچھا،پوچھنے والے نے پوچھا۔” یہاں بھارت میں تو مسلمان مساجد میں نماز ادا کرتےہیں وہاں پاکستان میں کہاں پڑھتے ہیں؟” پاکستانی دانشور نے اِس سوال کو مذاق سمجھ کر فلک شگاف قہقہ لگایا لیکن جب اُنہیں محفل کی طرف سے کوئی خاص ردعمل موصول نہ ہوا تو اُنہوں نے کھسیانا ساہوکر سوالی کی طرف دیکھا ،ہندو دانشور کے چہرے پر سنجیدگی کے ڈھیرلگے تھے، پاکستانی دانشور نے بے چینی سے پہلو بدل کر جواب دیا۔ ”ظاہر ہے مسجدوں ہی میں پڑھتے ہیں۔” یہ جواب سن کر ہندو دانشور کھڑا ہوا،ایک نظر حاضرین پر ڈالی اور پھر مسکرا کر بولا۔” لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق تو پاکستانی مسجدوں میں نماز پڑھنے والوں کو گولی ماردی جاتی ہے۔” ہندو دانشور کا یہ تبصرہ پاکستانی دانشور کو سکڈ میزائل کی طرح لگا اُس کا ماتھا پسینے سے بھیگ گیا ہاتھوں میں لرزہ طاری ہوگیا اور آنکھوں میں سرخی آگئی، منتظمین موقع کی نزاکت بھانپ گئے لٰہذا انہوں نے فوراً نشست کے اختتام کا اعلان کردیا یوں پاک بھارت تعلقات مزید بگڑنے سے بچ گئے۔
یہ واقعہ مجھے مرحوم حکیم سعید نے سنایا تھا،مجھے آج بھی وہ گرم سہ پہر یاد ہے میں ہمدرد دواخانہ راولپنڈی میں حکیم صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا، مرحوم خلافِ معمول تھکے تھکےسے لگ رہے تھے میں نے ادب سے طبیعت کے اِس بوجھل پن کی وجہ دریافت کی تو دل گرفتہ لہجے میں بولے” ہم نے اِس دکھ سے بھارت چھوڑا تھا کہ ہمیں وہاں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی، ہم نماز پڑھنے جاتے تھے تو ہندو مسجدوں میں سور چھوڑ دیتے تھے، خانہ خدا کے دروازے پر ڈھول پیٹتے تھے ،بول و براز کی تھیلیاں ہمارے اوپر پھینکتے تھے، ہندو شر پسند پچھلی صفوں میں کھڑے نمازیوں کو چھرے گھونپ کر بھاگ جاتے تھے، ہم نے سوچا چلو پاکستان چلتے ہیں وہاں ہمارے سجدے تو آزاد ہوں گے، ہماری مسجدیں،ہماری درگاہیں تو محفوظ ہونگیں لیکن افسوس آج مسلح گارڈز کے پہرے کے بغیر پاکستان کی کسی مسجد میں نماز کا تصور تک نہیں، مجھے میرے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید دہلی سے لکھتے ہیں۔ سعید واپس آجاؤ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ،یہاں اِدھر کم از کم مسجدیں تو محفوظ ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن میں۔” اُن کی آواز اکھڑ گئی۔
”پاکستان آنے پر آپ کو کبھی پچھتاوا ہوا؟” میں نے نرمی سے پوچھا۔” انہوں نے اچکن کے بٹن سہلائے” نہیں ہر گز نہیں ،یہ سودا ہم نے خود کیا تھا۔ حمید بھائی میرےاِس فیصلے سے خوش نہیں تھے،اُن کی خواہش تھی میں دہلی ہی میں اُن کا ہاتھ بٹاؤں لیکن مجھے لفظ پاکستان سے عشق تھا لٰہذا اِدھر چلا آیا، اللہ تعالٰی نے کرم کیا اور وہ ادارہ جس کی بنیاد میں نے بارہ روپے سے رکھی تھی آج پاکستان کے چند بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے، یہ سب پاکستان سے عشق کا کمال ہے۔” اُن کی آواز میں بدستور ملال تھا۔” لیکن پاکستان کے حالات سے دکھ تو ہوتا ہوگا؟” میں اپنے سوال پر اصرار کیا۔”
ہاں بہت ہوتا ہے۔ اخبار پڑھتا ہوں، سیاستدانوں کے حالات دیکھتا ہوں عوام کی دگرگوں صورتحال پر نظر پڑتی ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب اُدھر دہلی سے کوئی عزیز رشتے دار پاکستان آکر کہتا ہے،”کیوں پھر” تو دل پر چھری سی چل جاتی ہے،لیکن کیا کریں، گھر جیسا بھی ہے، ہے تو اپنا، ہم اِسے چھوڑ تو نہیں سکتے؛لٰہذا لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے آخری سانس تک۔”
” کوئی اِیسی خواہش جس کا آپ نے آج تک کسی کے سامنے اظہار نہیں کیا؟” اُنہوں نے کچھ دیر تک سوچا۔ ہاں کبھی کبھی جی چاہتا ہے میری موت حمید بھائی سے پہلے ہو،وہ میرے جنازے پر آئیں، میرے چہرے سے چادر سرکا کر دیکھیں اور پھر آہستہ سے مسکرا کر کہیں، ہاں سعید تمہارافیصلہ درست تھا۔"
وہ گرم دوپہر ڈھل گئی تو اُس کے بطن سے آج کی خنک اور غمناک صبح طلوع ہوئی، میرے سامنے میز پر آج کے اخبار بکھرے پڑے ہیں، ہر اخبار کی پیشانی کے ساتھ آج کے سب سے بڑے انسان کی تصویر چپھی ہے،خون میں نہائی اور حسرت میں ڈوبی ہوئی تصویر جو ہر نظر سے چیخ چیخ کر ایک ہی سوال کررہی ہے۔” میرا جرم کیا تھا،مجھے کیوں مارا گیا،میں تو زخموں پر مرہم رکھنے والا شخص تھا پھر میرے جسم کو زخم کیوں بنا دیا گیا۔” میرا دماغ سلگی لکڑیوں کی طر ح چٹخنے لگا،یہ تصویر آج دہلی کے کسی اخبار میں بھی چپھی ہوگی، وہ اخبار ہمدرد نگر کے ایک چھوٹے سے غریبانہ کمرے میں بھی پہنچا ہوگا،چٹائی پر بیٹھے بیاسی (82) برس کے ایک بوڑھے نے بھی اسے اُٹھایا ہوگا،اُس کی آنکھیں بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں کی طرح چھلک پڑی ہوں گی،اُس نے بھی شدت جذبات سے اخبار پرے پھینک دیا ہوگا،اُس نے بازو پر دانت جما کر چیخ ماری ہوگی، اُس نے بھی اپنی چھاتی پر ہاتھ مارا ہوگا،اُس نے بھی چلاچلا کر کہا ہوگا۔ ”سعید تمہارا فیصلہ غلط تھا،مجھے دیکھو 82 برس کے بوڑھے کو دیکھو ،بغیر محافظ کے مسجد جاتا ہے، پیدل مطب پہنچتاہے، روز صبح شام کافروں کے درمیان چہل قدمی کرتا ہے لیکن اُس پر کبھی کوئی گولی نہیں چلی، اُس کا کبھی کسی نے راستہ نہیں روکا۔ ہاں اُس 82 برس کے کمزور بوڑھے نے چلا چلا کرکہا ہوگا۔” سعید میں کربلا میں زندہ رہا تم مدینے میں مارے گئے۔”
نوٹ:- "جاویدچودھری" کا یہ کالم اُن کے کالموں کے پہلے مجموعے(زیروپوائنٹ) سے "قمراحمد " نے اُردو محفل کے دوستوں کے لیے خصوصی طور پر ٹائپ کر کے پیشں کیا۔