اقبال جہانگیر
محفلین
مذاکراتی عمل کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان منقسم ہوئی
اسلام آباد (انصار عباسی) تحریک طالبان پاکستان سے خان سعید عرف سجنا گروپ کی علیحدگی حکومت کی مذاکرات کی پالیسی کےلیے ایک فائدہ تصور کی جا رہی ہے مذاکرات کی وجہ سے ہی ان کے حامی اور مخالفین کے درمیان اختلافات پیدا ہو رہے تھے۔ سجنا ان سرکردہ طالبان کمانڈرز میں شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ سال بھی مسائل کے پرامن حل کی خاطر علمائے کرام سے مذاکرات میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ علمائے کرام مذاکرات کے پہلے رائونڈ میں شامل تھے جو امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر ختم ہوگیا تھا۔ سجنا کی زیر قیادت محسود قبیلے کے ان جنگجوئوں کا جنوبی وزیرستان پر زبردست اثر رسوخ ہے اور اب اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ حکومت اور سجنا گروپ کے درمیان ممکنہ طور پر کوئی معاہدہ طے پا جائے۔ جنوبی وزیرستان میں فوج نے پہلے ہی ملا نذیر گروپ کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے۔ ان طالبان کو ’’اچھے طالبان‘‘کہا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جنوبی وزیرستان پرامن ہوجائے گا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے مذاکراتی عمل سے جڑے کچھ ذرائع نے امید ظاہرکی ہے کہ شمالی وزیرستان میں موجود حافظ گل بہادر گروپ حکومت اور سجنا گروپ کے درمیان معاہدہ کرانے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں ملا نذیر گروپ کی طرح شمالی وزیرستان میں فوج کا حافظ گل بہادر گروپ سے معاہدہ ہے۔ اس گروپ کو بھی اچھے طالبان کے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ حکومتی ذرائع سجنا گروپ کے علیحدگی کے اقدام پر پرجوش نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس گروپ سے بات کرنے کو تیار ہیں جو امن کے مقصد سے آگے آنا چاہتا ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ دوسرے طالبان گروپس بھی ہیں جو مذاکرات کےلیے حکومت سے رابطے میں ہیں۔ طالبان کے سابق ترجمان اعظم طارق نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ محسود قبیلے کے جنگجو تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔ اعظم طارق نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا، ’’یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی طالبان ایسے احمق اور سازشی لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جو دنیا بھر میں جہادی تنظیموں کا نام خراب کر رہے ہیں۔ کئی دنوں تک سوچ بچار اور مباحثوں کے بعد ہم نے بالآخر فیصلہ کیا ہے کہ ملا فضل اللہ اور ان کے گرد موجود دیگر لوگوں سے اپنی راہیں علیحدہ کرلیں۔ ہمارے طالبان نیٹ ورک کے اکثر ارکان غیر اسلامی سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ معصوم افراد کے قتل، اغوا برائے تاوان اور بھتے وصول کرنے میں لگے ہیں اور یہ ہمارے رہنما بیت اللہ محسود کا کبھی بھی مقصد نہیں رہے۔‘‘ اعظم طارق نے کہا کہ نیا گروپ تحریک طالبان پاکستان جنوبی وزیرستان ایجنسی کے نام سے کام کرے گا اور خالد محسود، جن کا حقیقی نام خان سعید عرف سجنا ہے، محسود قبیلے کے اس نئے گروپ کی قیادت کریں گے۔ حکومت کا مذاکراتی عمل گزشتہ کچھ ہفتوں سے تعطل کا شکار تھا کیونکہ تحریک طالبان پاکستان میں اندرونی لڑائی جاری تھی اور اسی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان کے اتحاد کو اپنے قیام کے بعد سے سنگین نوعیت کے نقصانات اٹھانا پڑے۔ کہا جاتا ہے کہ ملا فضل اللہ، جو تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کر رہے ہیں، اپنے جرائم کی وجہ سے فوجی حکام کو قبول نہیں ہیں جبکہ سجنا کے حوالے سے زیادہ مخالفت نہیں ہے کیونکہ وہ امن مذاکرات کے حامی ہیں۔ بدھ کو بھی اعظم طارق نے میڈیا کو بتایا کہ ’’ہم نے مسئلے کا پرامن حل ڈھونڈنے کی کوشش کی اور حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کی حمایت کی۔ تاہم، افغانستان میں بیٹھے پاکستانی طالبان، جو سرحد پار سے بیٹھ کر گروپ کی قیادت کر رہے ہیں، نے مذاکرات کی مخالفت کی۔‘‘ یہ صورتحال ایسے افراد کیلئے حوصلہ افزا؍؍ء ہے جو مذاکرات کے حامی ہیں۔ جبکہ ایسے افراد جو ہمیشہ مذاکرات کی مخالفت کرتے تھے انہیں یہ دیکھنا پڑا کہ مذاکراتی عمل کی وجہ سے طالبان منقسم ہوجائیں گے جبکہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں یہ متحدہ ہوجائیں گے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=203646
اسلام آباد (انصار عباسی) تحریک طالبان پاکستان سے خان سعید عرف سجنا گروپ کی علیحدگی حکومت کی مذاکرات کی پالیسی کےلیے ایک فائدہ تصور کی جا رہی ہے مذاکرات کی وجہ سے ہی ان کے حامی اور مخالفین کے درمیان اختلافات پیدا ہو رہے تھے۔ سجنا ان سرکردہ طالبان کمانڈرز میں شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ سال بھی مسائل کے پرامن حل کی خاطر علمائے کرام سے مذاکرات میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ علمائے کرام مذاکرات کے پہلے رائونڈ میں شامل تھے جو امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر ختم ہوگیا تھا۔ سجنا کی زیر قیادت محسود قبیلے کے ان جنگجوئوں کا جنوبی وزیرستان پر زبردست اثر رسوخ ہے اور اب اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ حکومت اور سجنا گروپ کے درمیان ممکنہ طور پر کوئی معاہدہ طے پا جائے۔ جنوبی وزیرستان میں فوج نے پہلے ہی ملا نذیر گروپ کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے۔ ان طالبان کو ’’اچھے طالبان‘‘کہا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جنوبی وزیرستان پرامن ہوجائے گا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے مذاکراتی عمل سے جڑے کچھ ذرائع نے امید ظاہرکی ہے کہ شمالی وزیرستان میں موجود حافظ گل بہادر گروپ حکومت اور سجنا گروپ کے درمیان معاہدہ کرانے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں ملا نذیر گروپ کی طرح شمالی وزیرستان میں فوج کا حافظ گل بہادر گروپ سے معاہدہ ہے۔ اس گروپ کو بھی اچھے طالبان کے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ حکومتی ذرائع سجنا گروپ کے علیحدگی کے اقدام پر پرجوش نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس گروپ سے بات کرنے کو تیار ہیں جو امن کے مقصد سے آگے آنا چاہتا ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ دوسرے طالبان گروپس بھی ہیں جو مذاکرات کےلیے حکومت سے رابطے میں ہیں۔ طالبان کے سابق ترجمان اعظم طارق نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ محسود قبیلے کے جنگجو تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔ اعظم طارق نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا، ’’یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی طالبان ایسے احمق اور سازشی لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جو دنیا بھر میں جہادی تنظیموں کا نام خراب کر رہے ہیں۔ کئی دنوں تک سوچ بچار اور مباحثوں کے بعد ہم نے بالآخر فیصلہ کیا ہے کہ ملا فضل اللہ اور ان کے گرد موجود دیگر لوگوں سے اپنی راہیں علیحدہ کرلیں۔ ہمارے طالبان نیٹ ورک کے اکثر ارکان غیر اسلامی سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ معصوم افراد کے قتل، اغوا برائے تاوان اور بھتے وصول کرنے میں لگے ہیں اور یہ ہمارے رہنما بیت اللہ محسود کا کبھی بھی مقصد نہیں رہے۔‘‘ اعظم طارق نے کہا کہ نیا گروپ تحریک طالبان پاکستان جنوبی وزیرستان ایجنسی کے نام سے کام کرے گا اور خالد محسود، جن کا حقیقی نام خان سعید عرف سجنا ہے، محسود قبیلے کے اس نئے گروپ کی قیادت کریں گے۔ حکومت کا مذاکراتی عمل گزشتہ کچھ ہفتوں سے تعطل کا شکار تھا کیونکہ تحریک طالبان پاکستان میں اندرونی لڑائی جاری تھی اور اسی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان کے اتحاد کو اپنے قیام کے بعد سے سنگین نوعیت کے نقصانات اٹھانا پڑے۔ کہا جاتا ہے کہ ملا فضل اللہ، جو تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کر رہے ہیں، اپنے جرائم کی وجہ سے فوجی حکام کو قبول نہیں ہیں جبکہ سجنا کے حوالے سے زیادہ مخالفت نہیں ہے کیونکہ وہ امن مذاکرات کے حامی ہیں۔ بدھ کو بھی اعظم طارق نے میڈیا کو بتایا کہ ’’ہم نے مسئلے کا پرامن حل ڈھونڈنے کی کوشش کی اور حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کی حمایت کی۔ تاہم، افغانستان میں بیٹھے پاکستانی طالبان، جو سرحد پار سے بیٹھ کر گروپ کی قیادت کر رہے ہیں، نے مذاکرات کی مخالفت کی۔‘‘ یہ صورتحال ایسے افراد کیلئے حوصلہ افزا؍؍ء ہے جو مذاکرات کے حامی ہیں۔ جبکہ ایسے افراد جو ہمیشہ مذاکرات کی مخالفت کرتے تھے انہیں یہ دیکھنا پڑا کہ مذاکراتی عمل کی وجہ سے طالبان منقسم ہوجائیں گے جبکہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں یہ متحدہ ہوجائیں گے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=203646