مذاکرات کے شوقین بھارت کو چند مشورے

پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا تاہم دونوں ملکوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر اکتفا کیا ہے۔ 25 فروری کو بھارتی درخواست پر ہونے والے خارجہ سیکرٹری سطح پر منعقدہ مذاکرات میں بھارت پاکستان کے ہاتھوں زبردست سفارتی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ بھارت پر واضح ہو گیا ہے کہ مذاکرات پاکستان کی خواہش ضرور ہے مگر مجبوری نہیں۔


مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کی۔ انہوں نے بھارت پہنچتے ہی سب سے پہلے حریت کانفرنس کے قائد سید علی شاہ گیلانی اور دیگر کشمیری رہنماﺅں سے ملاقات کر کے بھارت کو دو ٹوک پیغام دے دیا کہ ان مذاکرات میں مسئلہ کشمیر سرفہرست تھا۔ بھارت نے مذاکرات سے پہلے یہ شرط عائد کی تھی کہ یہ مذاکرات صرف اور صرف دہشت گردی کے موضوع پر ہونگے۔ اس سے بھارت کی مراد حافظ محمدسعید کی سرگرمیاں، بمبئی حملوں کے ملزمان کاکیس اور کشمیر میں مبینہ دراندازی جیسے معاملات تھے۔ تاہم یہ شرط خود اس وقت بھارت کے گلے پڑ گئی جب پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے بھارتی پریس کو آگاہ کیا کہ مسئلہ کشمیر پر تفصیل سے بات ہوئی ہے اور پاکستان نے پانی اور بلوچستان کا ایشو بھی اٹھایا ہے۔ بھارتی وفد صرف ایک ہی بات کی تیاری کر کے آیا تھا کہ ان مذاکرات کو جماعة الدعوة، لشکر طیبہ، حافظ محمد سعید اور بمبئی حملوں پر فوکس رکھے گا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ مسلسل دباﺅ کا شکار پاکستان کسی جارحانہ سفارتکاری کا بھی ارتکاب کر سکتا ہے۔ بھارتی صحافی ایم جے اکبر نے اپنے تجزیے میں برملا لکھا ہے کہ بھارت نے مذاکرات کا منصوبہ خود ہی بنایا لیکن یہ منصوبہ خود اس کے خلاف ہی گیا اور مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی۔


بھارتی پریس نے بھی پاکستانی وفد کی جرات اور جارحانہ انداز کا واضح طور پر اعتراف کیا اور اپنی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ کی جس بات سے بھارتی سب سے زیادہ پریشان ہوئے وہ حافظ محمد سعید کے بارے میں بھارتی واویلے پر ان کا مختصر سا تبصرہ تھا۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران میں کہا کہ حافظ محمد سعید کے بارے میں بھارت نے جو کچھ فراہم کیا ہے وہ ثبوت نہیں لٹریچر ہے جس کی کوئی عدالتی حیثیت نہیں۔ یہ تبصرہ گویا بم حملہ تھا۔بھارتی میڈیا اور حکومت، پاکستان کے بارے میں ایک عجیب احساس کمتری کا شکار ہیں۔ پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ پاکستان کے سامنے نفسیاتی دباﺅ کا شکار رہتے ہیں۔ اس بار بھی بھارتی روایتی نفسیاتی دباﺅ کے حصار سے نہیں نکل سکے۔ یہ نفسیاتی دباﺅ دراصل مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک رکاوٹ بھی بن چکا ہے۔ کیونکہ بھارت مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کے پیش رفت کو خواہ مخواہ ہی اپنی شکست سمجھ لیتا ہے اور کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے واپس اپنے بل میں گھس جاتا ہے۔


بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے خوف کو دور کیا جائے۔ اسے احساس دلایا جائے کہ کشمیر پر اس کا قبضہ جتنا طویل ہو گا اس کے لئے مسائل میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ اس لئے جلد سے جلد وہ اس مسئلے سے جان چھڑائے تاکہ عالمی سطح پر بھی اس کا وقار بحال ہو سکے اور پاکستان کے ساتھ دیرینہ مخاصمت بھی ختم ہو سکے۔ بھارت کو سمجھنا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کا حل ہر لحاظ سے اس کو فائدہ پہنچائے گا ورنہ یہ مسئلہ کینسر کی طرح بھارت کے سارے شریر میں سرایت کر جائے گا۔ بھارت کو اس بات کا بھی احساس کرنا چاہئے کہ اس کے مختلف خطوں میں علیحدگی کی تحریکیں روزبروز مضبوط ہو رہی ہیں۔ اگر وہ مسائل کے سیاسی حل سے اسی طرح بھاگتا رہا تو اس کے لئے موجودہ حالت میں اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
بھارت نے مذاکرات کا حالیہ ڈول اس لئے ڈالا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کر کے افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن مذاکرات کے اگلے ہی روز یعنی 26 فروری کو کابل میں طالبان نے بھارتی فوجی افسروں کی رہائش گاہوں پر بمبئی طرز کے حملے کر کے واضح پیغام دے دیا ہے کہ انہیں افغانستان میں بھارت قبول نہیں۔ لہٰذا صرف پاکستان کی خوشنودی کافی نہیں بلکہ بھارت کو طالبان کی رضامندی بھی درکار ہو گی۔ کابل حملے کا آئی ایس آئی یا لشکر طیبہ پر الزام لگانے سے بھارت کے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ بھارتی حکمرانوں کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ کیا وجہ ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھارت کو افغانستان سے بوریا بستر گول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔


دراصل افغانستان میں بھارت نے تعمیری سرگرمیوں کی آڑ میں تخریبی اڈے قائم کئے۔ طالبان چونکہ مستقبل کے حکمران ہیں اور اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کا پہلا ہمسایہ پاکستان ہے اور پاکستان افغانستان کی معیشت میں ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا وہ کسی پاکستان دشمن ملک یا گروہ کو اپنے ہاں پناہ نہیں دے سکتے۔


کابل حملہ بھارت کے لئے نوشتہ دیوار ہے کہ افغانستان میں اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات صرف اس امید کر رہا ہے کہ اس طرح اسے افغانستان میں پاﺅں جمانے کا موقع مل جائے گا تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہو گی۔ حالات بتاتے ہیں کہ اس طرح کی کسی امید پر مذاکرات کر کے بھارت کو سوپیاز کے ساتھ ساتھ سو جوتے بھی کھانے پڑیں گے۔ چکر بازی کے لئے مذاکرات خود بھارت کے گلے کا ہار بننے کے علاوہ اسے کچھ نہیں دیں گے۔ لہٰذا وہ ابھی سے سوچ لے کہ ان مذاکرات کو جاری رکھنا ہے یا حافظ محمد سعید کے انٹرویوز کا بہانہ کر کے بھاگ جانا ہے۔
http://www.islamicupdates.com/iu/in...6-20-35&catid=20:2010-02-04-17-15-15&Itemid=2
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہ اسلامک اپڈیٹ نام کی سائٹ کون چلا رہا ہے؟ اور اس پر شائع کردہ مواد کی کیا حیثیت ہے؟
 
Top