ادریس آزاد
محفلین
ضرورت اس امر کی ہے کہ جہیز کی "اصل" پر بات کی جاءے۔جب تک ہم اس آفت کی تہہ تک نہیں اُتریں گے، ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم اس کی حقیقی قباحت کا بہ نظر غایر جایزہ لے سکیں۔ جب تک کسی مرض کی تشخیص نہ علاج ممکن نہیں۔چنانچہ ہم اس مضمون میں یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا وہ کیا وجوہات ہوتی ہیں جب معاشرے میں کوءی رسمِ بد جنم لیتی ہے۔
دوچار روز ہوءے سیموءیل پی ہنٹنگٹن کی وفات ہوءی، یہ وہ انسان تھے جنہوں نے سیاسی، سماجی علوم میں نہ صرف یہ کہ کءی ڈگریاں حاصل کر رکھی تھیں، بلکہ اس میدان میں استاذالاساتذہ تسلیم کیے جاتے تھے۔انہوں نے آخری چند سالوں میں کچھ زیادہ شہرت حاصل کرلی تھی، جب انہوں نے تہذیبوں کے تصادم پر ایک مقالہ تحریر کیا۔اس مقالے یا کتاب میں جو بات سب سے زیادہ نمایاں ہے، وہ ثقافتوں کی وہ مخفی تواناءی جو بہ قول اُن کے مذاہب کے ہاتھوں صدیوں سے دباءی جاتی رہی،اب انسانی معاشرے میں کھل کر اپنا کردار ادا کرے گی۔
سوال یہ ہے کہ ثقافت کیا ہے اور مذہب کیا؟
علامہ اقبال اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں لکھتے ہیں۔
"عربوں کی فتوحات سے جو سیاسی انقلاب رونما ہوا وہ آریاءی اور سامی اقوام کے باہمی عمل و اثر کی ابتدا کا باعث تھا اور ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایرانی کی سطح زندگی پر اگرچہ زیادہ تر سامی رنگ چڑھ جاتا ہے لیکن وہ خاموشی کے ساتھ اسلام کو اپنی آریاءی عادات فکر میں تبدیل کر لیتا ہے" (فلسفہء عجم صفحہ نمبر ۴۶)
ذرا غور فرماءیے،مذہب اسلام کتنا مدلل،کامل،قوت بخش اور قوت مند تھا، مگر ثقافت کو نہ بدل سکا۔مذہب کتنا ہی طاقتور اور اثر انگیز ہو کبھی کسی ثقافت کو ختم نہیں کرسکتا۔کیونکہ ثقافت ہر انسان کا سب سے پہلا مذہب ہوتی ہے۔ آپ اسلام کے لیے جان تو دے سکتے ہیں،یہ آسان ہے لیکن آپ عورتوں والے کپڑے پہن کر بازار میں نہیں گھوم سکتے۔آپ اپنے کلچر کے خلاف خود بھی کوءی قدم اُٹھاتے ہوءے ڈرتےہیں۔ مذہبی حکم کی خلاف ورزی آسان ہے لیکن اپنے ثقافتی قوانین کی خلاف ورزی دل گردے کا کام ہے۔ قران کریم نے جگہ جگہ یہ جو ارشاد فرمایا ہے کہ آباؤاجداد کا دین ٹھیک نہیں تو اس کا اصل مطلب وہ ثقافت ہے جس کو اُس کی بد رسموں سمیت ہم اپنے لیے فرض سمجھتے ہیں۔ ہم کسی قیمت پر اپنے خاندانی اصول نہیں توڑ سکتے، کیونکہ وہ ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔
اب ذرا ایک بات پر توجہ فرمایے، رسم بد یا رسم خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا چیز ہے۔ ہم اگر جہیز کو ایک رسم بد کے طور پر دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسم بد کیا ہوتی ہے،اور اس کی پہچان کیاہے؟اسی طرح کسی ثقافت کی رسم ِخیر کیا ہوتی ہے،یا کوءی ہوتی ہی نہیں؟
یاد رکھیے ! کوءی بھی مذہب فی نفسہ کچھ اور نہیں، بلکہ انسانی معاشرے کی ثقافتوں میں راءِج بد رسموں کے خلاف وہ تحریک جو اُسی کلچر کے کچھ لوگوں یا کسی ایک فرد نے اٹھاءی ہو، مذہب کہلاتی ہے۔(نوٹ:مذہب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے دین کا نہیں)۔ رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ کے ہر پل میں یہ ثابت ہے کہ آپ نے حجاز کے آباءی رسموں رواج میں سے کسی بھی ایسی رسم کو ممنوع قرار نہیں دیا جو بد نہیں تھی۔حتی کہ حج کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کچھ لوگ اُن دو پہاڑیوں کا بھی طواف کررہے ہیں جن پر زمانہ جاہلیت میں بت رکھے ہوءے تھے اور اہل مکہ ان کے طواف کو بھی مناسک حج میں شامل کرتے تھے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اُس طواف کو باقی رہنے دیا بلکہ مناسک حج کا حصہ بنا دیا۔یہ ہے اصلاح رسوم کا عمل۔ جس کے انبیاء نازل ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا اصل مذہب تو اُس کی ثقافت ہوتی ہے۔ جب کسی ثقافت میں رسوم بد کی بہتات ہو جاءے تہ اللہ کا نبی آتا اور اُن اصلا ح رسوم کا عمل سرانجام دیتا ہے۔ اس طرح گویا انسانی اخلاق کی تجدید ہوجاتی ہے،جسے شریعت کہتے ہیں۔اور یوں نبی یا رسول شریعت کا بانی یا شارع کہلاتا ہے۔
کسی انسان کا مذہب اُس کی ثقافت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ثقافت کے لیے جس قدر باؤلا ہوسکتا ہے اپنے خدا کے لیے نہیں۔اُس کے سامنے دو راستے ہوں ،جن میں سے ایک مذہب بتا رہا ہو اور دوسرا اُس کی ثقافت،تو بہت کم اہل ِ جگر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آباؤاجداد کی پگڑی اور رسوم یعنی اپنی ثقافت کو چھوڑ کر مذہب کا بتایا ہوا راستہ چن لے۔
اب ہم جواب دیں گے اُس سوال کا کہ رسم بد اور رسم خیر کی پہچان کیا ہے۔ یاد رکھیے ! آپ کی ثقافت میں دو طرح کی رسوم ہوتی ہیں۔ ایک وہ جن کو ادا کرتے ہوءے آپ کو ہمیسشہ اطمینان اور دلی خوشی کا احساس ہوتا ہے اور دوسری کو ادا کرتے ہوءے آپ کو دل سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ رسم اصل میں بری ہے۔مثلاوہ کون سا ہندو ہے جو یہ نہیں جانتا کہ ذات پات کی تفریق،یا ستی کی رسم،بری ہے؟ سب جانتے ہیں۔لیکن پھر بھی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس انہی ہندؤوں کے ہاں ایک رسم پاءی جاتی ہے اپنی شادی شدہ بیٹی یا بہن کے گھر تہوار والے دن کھانے کا تحفہ دینے کی۔ اب یہ رسم اچھی تو سب جانتے ہیں کہ اچھی ہے۔
اسلام واحد نظام حیات ہے جوکسی بھی خطے کے کلچر کو کوءی نقصان پہنچانے کا روادار نہیں۔ کہتے ہیں جب محمد بن قاسم یہاں آءے تھے تو اُن کے اخلاق اور ہندؤوں کی بد رسموں کو ختم اور اچھی رسموں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے عمل سے ہندو اتنے متاثر ہوءے کہ اُن کے واپس چلے جانے کے بعد محمد بن قاسم کی مورتیاں بنا کر مندروں میں رکھ دیں۔خود راجہ داہر کا ایک بیٹا اور بیٹی مسلمان ہوگءے تھے۔
بد رسم کی پہچان یہ ہے کہ اُسے سوساءٹی کا ہر فرد دل سے برا جانتا ہے۔ اب ذرا دل میں جھانک کر دیکھیے تو آپ کو بھی اور مجھے بھی یہ صاف معلوم ہے دل سے کہ یہ ایک بری رسم ہے۔لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم اپنے دین سے زیادہ اپنے کلچر سے شرمندہ اورخاءف رہتے ہیں۔ چنانچہ ہم جہیز کو برا جانتے بھی ہیں اور پھر بھی اس رسم ِ بد پر عمل پیرا رہتے ہیں۔
جہیز حجازی رسم نہیں ہے۔ بعض نادان اسے سنت رسول سے منسوب کرکے غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ خالص ہندو رسم ہے۔اگر آپ کو یقین نہیں تو ایک دو گھریلو قسم کی ہندی فلمیں دیکھ لیجیے آپ کو خود بہ خود یقین آجاءے گا۔ رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ کو جو ضرورت کا سامان دیا تھا وہ اس لیے دیا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود خالی ہاتھ،اوربے سروساماں تھے۔ شادی سے پہلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ کے ساتھ رہتے مسجد نبوی میں رہتے تھے۔ جب کھر ہی نہیں تھا تو سامان تو دینا ہی تھا۔ یہ جہیز کہاں سے بن گیا۔ہم چونکہ ثقافتی اعتبار سے ہندو تھے۔اس لیے ہم نے حضور کے اُس احسن ترین عمل کو ہندی رسم "جہیز"کے ساتھ نتھی کردیا۔بالکل ویسے، جیسے ہم نے دیوالی کے تہوار کو مسلمان بننے کے بعد شب ِ برات کے پٹاکوں میں انجواءے کیا۔
دوچار روز ہوءے سیموءیل پی ہنٹنگٹن کی وفات ہوءی، یہ وہ انسان تھے جنہوں نے سیاسی، سماجی علوم میں نہ صرف یہ کہ کءی ڈگریاں حاصل کر رکھی تھیں، بلکہ اس میدان میں استاذالاساتذہ تسلیم کیے جاتے تھے۔انہوں نے آخری چند سالوں میں کچھ زیادہ شہرت حاصل کرلی تھی، جب انہوں نے تہذیبوں کے تصادم پر ایک مقالہ تحریر کیا۔اس مقالے یا کتاب میں جو بات سب سے زیادہ نمایاں ہے، وہ ثقافتوں کی وہ مخفی تواناءی جو بہ قول اُن کے مذاہب کے ہاتھوں صدیوں سے دباءی جاتی رہی،اب انسانی معاشرے میں کھل کر اپنا کردار ادا کرے گی۔
سوال یہ ہے کہ ثقافت کیا ہے اور مذہب کیا؟
علامہ اقبال اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں لکھتے ہیں۔
"عربوں کی فتوحات سے جو سیاسی انقلاب رونما ہوا وہ آریاءی اور سامی اقوام کے باہمی عمل و اثر کی ابتدا کا باعث تھا اور ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایرانی کی سطح زندگی پر اگرچہ زیادہ تر سامی رنگ چڑھ جاتا ہے لیکن وہ خاموشی کے ساتھ اسلام کو اپنی آریاءی عادات فکر میں تبدیل کر لیتا ہے" (فلسفہء عجم صفحہ نمبر ۴۶)
ذرا غور فرماءیے،مذہب اسلام کتنا مدلل،کامل،قوت بخش اور قوت مند تھا، مگر ثقافت کو نہ بدل سکا۔مذہب کتنا ہی طاقتور اور اثر انگیز ہو کبھی کسی ثقافت کو ختم نہیں کرسکتا۔کیونکہ ثقافت ہر انسان کا سب سے پہلا مذہب ہوتی ہے۔ آپ اسلام کے لیے جان تو دے سکتے ہیں،یہ آسان ہے لیکن آپ عورتوں والے کپڑے پہن کر بازار میں نہیں گھوم سکتے۔آپ اپنے کلچر کے خلاف خود بھی کوءی قدم اُٹھاتے ہوءے ڈرتےہیں۔ مذہبی حکم کی خلاف ورزی آسان ہے لیکن اپنے ثقافتی قوانین کی خلاف ورزی دل گردے کا کام ہے۔ قران کریم نے جگہ جگہ یہ جو ارشاد فرمایا ہے کہ آباؤاجداد کا دین ٹھیک نہیں تو اس کا اصل مطلب وہ ثقافت ہے جس کو اُس کی بد رسموں سمیت ہم اپنے لیے فرض سمجھتے ہیں۔ ہم کسی قیمت پر اپنے خاندانی اصول نہیں توڑ سکتے، کیونکہ وہ ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔
اب ذرا ایک بات پر توجہ فرمایے، رسم بد یا رسم خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا چیز ہے۔ ہم اگر جہیز کو ایک رسم بد کے طور پر دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسم بد کیا ہوتی ہے،اور اس کی پہچان کیاہے؟اسی طرح کسی ثقافت کی رسم ِخیر کیا ہوتی ہے،یا کوءی ہوتی ہی نہیں؟
یاد رکھیے ! کوءی بھی مذہب فی نفسہ کچھ اور نہیں، بلکہ انسانی معاشرے کی ثقافتوں میں راءِج بد رسموں کے خلاف وہ تحریک جو اُسی کلچر کے کچھ لوگوں یا کسی ایک فرد نے اٹھاءی ہو، مذہب کہلاتی ہے۔(نوٹ:مذہب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے دین کا نہیں)۔ رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ کے ہر پل میں یہ ثابت ہے کہ آپ نے حجاز کے آباءی رسموں رواج میں سے کسی بھی ایسی رسم کو ممنوع قرار نہیں دیا جو بد نہیں تھی۔حتی کہ حج کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کچھ لوگ اُن دو پہاڑیوں کا بھی طواف کررہے ہیں جن پر زمانہ جاہلیت میں بت رکھے ہوءے تھے اور اہل مکہ ان کے طواف کو بھی مناسک حج میں شامل کرتے تھے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اُس طواف کو باقی رہنے دیا بلکہ مناسک حج کا حصہ بنا دیا۔یہ ہے اصلاح رسوم کا عمل۔ جس کے انبیاء نازل ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا اصل مذہب تو اُس کی ثقافت ہوتی ہے۔ جب کسی ثقافت میں رسوم بد کی بہتات ہو جاءے تہ اللہ کا نبی آتا اور اُن اصلا ح رسوم کا عمل سرانجام دیتا ہے۔ اس طرح گویا انسانی اخلاق کی تجدید ہوجاتی ہے،جسے شریعت کہتے ہیں۔اور یوں نبی یا رسول شریعت کا بانی یا شارع کہلاتا ہے۔
کسی انسان کا مذہب اُس کی ثقافت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ثقافت کے لیے جس قدر باؤلا ہوسکتا ہے اپنے خدا کے لیے نہیں۔اُس کے سامنے دو راستے ہوں ،جن میں سے ایک مذہب بتا رہا ہو اور دوسرا اُس کی ثقافت،تو بہت کم اہل ِ جگر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آباؤاجداد کی پگڑی اور رسوم یعنی اپنی ثقافت کو چھوڑ کر مذہب کا بتایا ہوا راستہ چن لے۔
اب ہم جواب دیں گے اُس سوال کا کہ رسم بد اور رسم خیر کی پہچان کیا ہے۔ یاد رکھیے ! آپ کی ثقافت میں دو طرح کی رسوم ہوتی ہیں۔ ایک وہ جن کو ادا کرتے ہوءے آپ کو ہمیسشہ اطمینان اور دلی خوشی کا احساس ہوتا ہے اور دوسری کو ادا کرتے ہوءے آپ کو دل سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ رسم اصل میں بری ہے۔مثلاوہ کون سا ہندو ہے جو یہ نہیں جانتا کہ ذات پات کی تفریق،یا ستی کی رسم،بری ہے؟ سب جانتے ہیں۔لیکن پھر بھی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس انہی ہندؤوں کے ہاں ایک رسم پاءی جاتی ہے اپنی شادی شدہ بیٹی یا بہن کے گھر تہوار والے دن کھانے کا تحفہ دینے کی۔ اب یہ رسم اچھی تو سب جانتے ہیں کہ اچھی ہے۔
اسلام واحد نظام حیات ہے جوکسی بھی خطے کے کلچر کو کوءی نقصان پہنچانے کا روادار نہیں۔ کہتے ہیں جب محمد بن قاسم یہاں آءے تھے تو اُن کے اخلاق اور ہندؤوں کی بد رسموں کو ختم اور اچھی رسموں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے عمل سے ہندو اتنے متاثر ہوءے کہ اُن کے واپس چلے جانے کے بعد محمد بن قاسم کی مورتیاں بنا کر مندروں میں رکھ دیں۔خود راجہ داہر کا ایک بیٹا اور بیٹی مسلمان ہوگءے تھے۔
بد رسم کی پہچان یہ ہے کہ اُسے سوساءٹی کا ہر فرد دل سے برا جانتا ہے۔ اب ذرا دل میں جھانک کر دیکھیے تو آپ کو بھی اور مجھے بھی یہ صاف معلوم ہے دل سے کہ یہ ایک بری رسم ہے۔لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم اپنے دین سے زیادہ اپنے کلچر سے شرمندہ اورخاءف رہتے ہیں۔ چنانچہ ہم جہیز کو برا جانتے بھی ہیں اور پھر بھی اس رسم ِ بد پر عمل پیرا رہتے ہیں۔
جہیز حجازی رسم نہیں ہے۔ بعض نادان اسے سنت رسول سے منسوب کرکے غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ خالص ہندو رسم ہے۔اگر آپ کو یقین نہیں تو ایک دو گھریلو قسم کی ہندی فلمیں دیکھ لیجیے آپ کو خود بہ خود یقین آجاءے گا۔ رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ کو جو ضرورت کا سامان دیا تھا وہ اس لیے دیا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود خالی ہاتھ،اوربے سروساماں تھے۔ شادی سے پہلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ کے ساتھ رہتے مسجد نبوی میں رہتے تھے۔ جب کھر ہی نہیں تھا تو سامان تو دینا ہی تھا۔ یہ جہیز کہاں سے بن گیا۔ہم چونکہ ثقافتی اعتبار سے ہندو تھے۔اس لیے ہم نے حضور کے اُس احسن ترین عمل کو ہندی رسم "جہیز"کے ساتھ نتھی کردیا۔بالکل ویسے، جیسے ہم نے دیوالی کے تہوار کو مسلمان بننے کے بعد شب ِ برات کے پٹاکوں میں انجواءے کیا۔