مذہبی این آر او...روزنِ دیوار سے … عطاء الحق قاسمی

نوٹ : ذیل میں اپنا ایک پرانا کالم درج کر رہا ہوں، کالم پرانا ہے لیکن صورتحال آج بھی وہی ہے، جسے میں نے مذہبی این آر او کا نام دے رکھا ہے، یعنی قتل کریں، لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے کریں، ملاوٹ کریں، جھوٹ بولیں، ملک سے غداری کریں، انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر ناانصافی کریں، ضمیر فروشی کریں لیکن ایک بار حج کر لیں تو آپ گناہوں سے اسی طرح پاک ہو جاتے ہیں جس طرح ماں کے پیٹ سے نکلا ہوا بچہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے، اس کے برعکس جو لوگ عبادات میں کوتاہی کریں لیکن معاملات میں سیرت رسول کے پیروکار نظر آئیں، انہیں معاشرہ بے دین سمجھتا ہے اور وہی شخص جب صاف ستھری زندگی ترک کرکے عبادات کا خول پہن لے اور فلم ”سرفروش“ کے ڈائیلاگ ”چوری میرا پیشہ اور نماز فرض ہے“ کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کر دے تو اسے دوبارہ دیندار سمجھا جانے لگتا ہے۔ یہ کالم اسی اسلام دشمنی کے تناظر میں ہے، جسے اسلام دوستی سمجھا جاتا ہے۔ (قاسمی)
کچھ عرصہ پہلے میں بہت گنہگار تھا، نہ نماز، نہ روزہ، نہ حج، نہ زکوٰة، تاہم کچھ ایسے کام ضرور کرتا تھا جن کے لئے سخت ریاضت کرنا پڑتی تھی کیونکہ میں نے کچھ علماء سے سنا تھا کہ یہ بھی نیکی کے کام ہیں۔ مثلاً مجھے بتایا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام کرنے میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس ضمن میں مخاطب کا مرتبہ یا مقام نہیں دیکھتے تھے بلکہ راہ چلتے بچوں کو بھی آگے بڑھ کر خود سلام کرتے تھے۔ میں نے حضور کی اس سنت پر عمل کرنے کی کوشش کی تو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے ہی روز جب میں اپنے نئے ماڈل کی مرسیڈیز سے اترا اور چپراسی نے آگے بڑھ کر میرا بریف کیس تھامنے کی کوشش کی تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا کہ مجھے یاد آیا کہ حضور اپنے کام خود کیا کرتے تھے بلکہ اپنا پھٹا ہوا جوتا بھی خود گانٹھتے تھے تاہم میں اپنے چپراسی کو سلام کرنے میں سبقت حاصل نہ کر سکا کیونکہ میری کار آتے دیکھ کر دور ہی سے وہ اپنا ہاتھ ماتھے تک لے گیا اور رکوع کی حالت میں چلا گیا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ اپنے چپراسی کو سلام کرنے کے خیال ہی سے مجھے عجیب طرح کی ذلت کا احساس ہو رہا تھا، تاہم دوسرے دن دل پر پتھر رکھ کر میں نے ایک دفعہ پھر ارادہ کیا کہ میں آج یہ کام کر دکھاؤں گا مگر ایک دفعہ پر ناکامی ہوئی اور ایسا مسلسل کئی دن تک ہوتا رہا۔ بالآخر ایک روز میں نے چپراسی کو بائی آرڈر سلام کرنے سے منع کر دیا اور یوں اسے سلام کرنے میں سبقت لے جانے میں کامیاب ہو گیا لیکن یہ میں ہی جانتا ہوں اس وقت میرا کیا حال ہوا، میرا پورا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا تھا اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے میری چوری پکڑ لی ہو۔
پھر ایک روز میں نے سوچا کہ خدا اور اس کے رسول نے دیانت اور امانت کا حکم دیا ہے مگر میرے لئے اس حکم کی تعمیل بہت مشکل تھی، میرے سارے کاروبار کی بنیاد بددیانتی پر تھی، مگر میں نے پکا ارادہ کیا کہ میں ہر صورت میں رزق حلال پر زندہ رہنے کی کوشش کروں گا۔ چنانچہ میں نے سخت نفس کشی کے بعد یہ مرحلہ بھی طے کر لیا جس سے میرا کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا۔ میرے کاروباری ساتھی مجھ سے منحرف ہو گئے، میرے دوست احباب پریشان دکھائی دینے لگے، میرے گھر والے مجھ سے بیزار ہو گئے لیکن میں نے اپنے عمل میں کوئی لچک پیدا نہ ہونے دی۔ میں نے ناجائز طریقوں سے لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا ہوا تھا اور اس ضمن میں کئی مقدمے عدالت میں چل رہے تھے جن میں میری جیت یقینی تھی لیکن میں نے اپنے امانت دار رسول کی سنت پر عمل پیرا ہونے کے لئے جس کا جو حق تھا اسے ادا کر دیا۔ لوگ مجھے دیوانہ سمجھنے لگے، وہ مجھ پر ہنستے تھے لیکن میں مطمئن تھا کہ میں نے وہی کام کیا جو کرنے کا حکم تھا!۔
میں نے قرآن میں کہیں پڑھا تھا کہ تمہارے پاس ضرورت سے زیادہ جو مال ہے وہ اللہ کی راہ میں خیرات کر دو ایک سیرت کی کتاب میں حضور کے حوالے سے میں نے کئی ایسے واقعات پڑھے کہ حضور کے پاس جو کچھ ہوتا تھا وہ دوسروں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ کاروبار میں نقصان پہنچنے اور لوگوں کا مال لوگوں کو واپس کرنے کے باوجود میرے پاس جو کچھ ہے، وہ اتنا زیادہ ہے کہ دس نسلوں تک ختم نہیں ہو سکتا چنانچہ ایک روز میں نے اپنی اور اپنے بچوں کی ضرورت کے لئے کچھ اثاثے اپنے پاس رکھے اور باقی تمام جائیداد غرباء و مساکین میں تقسیم کر دی، مگر ہوا یوں کہ اس کے بعد میرا جینا حرام ہو گیا۔ میرے بچے مجھے پکڑ کر دماغی امراض کے ڈاکٹر کے پاس لے گئے، میں چیختا چلاتا رہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں، خدا اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے دو مگر کسی نے میری ایک نہ سنی۔ دماغی امراض کا ڈاکٹر بہت دیندار شخص تھا اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی، پنج وقتہ نمازی تھا اور بہت مہربان شخص تھا، اس نے میری ساری داستان سنی اور کہا۔
”تم نے اپنے لئے بہت مشکل راستہ چنا ہے“
میں نے کہا ”یہ حضور کا رستہ ہے اگر مشکل بھی ہے تو اس میں بالاخر میرے لئے آسانیاں پیدا ہوں گی“
ڈاکٹر بولا ”ہمیں حقائق سے اغماض نہیں برتنا چاہئے، چنانچہ یہ حقیقت ہمیشہ ہمارے سامنے رہنی چاہئے کہ وہ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے جبکہ ہم گنہگار ان کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں، لہٰذا ہمیں ان کی برابری کی کوشش نہیں کرنی چاہئے“۔
میں نے کہا ”میں نارِ جہنم سے ڈرتا ہوں“
ڈاکٹر بولا ”تم نماز پڑھتے ہو؟“
میں نے کہا ”نہیں“
”روزے رکھتے ہو؟“
میں نے جواب دیا ”نہیں“
ڈاکٹر نے پوچھا ”کیا تم خود کو گنہگار محسوس نہیں کرتے؟“
میں نے کہا ”یقینا لیکن میں پہلے خود کو مشکل کاموں کی عادت ڈال رہا تھا، ان آسان کاموں پر، میں نے آج سے عمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر میرے بچے مجھے پکڑ کر تمہارے پاس لے آئے۔“
یہ سن کر ڈاکٹر کے چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں ہوئے اس نے ایک لمبا سانس لیا اور کہا ”شکر ہے تم کفر سے بچ گئے“ پھر اس نے میرے بچوں کو مخاطب کرکے کہا ”اپنے والد کو باقاعدگی سے مسجد میں نماز کے لئے لے جایا کرو، یہی ان کا علاج ہے، ویسے میں یہ کچھ گولیاں بھی لکھ دیتا ہوں، آپ ایک ہفتے بعد پھر انہیں میرے پاس لے کر آئیں“ ڈاکٹر نے ایک لمبا لیکچر بھی دیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انسان کو اپنی ہمت سے بڑھ کر کام نہیں کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ کی ذات غفور الرحیم ہے، ہمیں ہر نماز کے بعد اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے، نیز اس کے جو پیارے بندے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ وہ بھی خدائے غفور الرحیم کے پاس ہماری سفارش کر سکیں، ڈاکٹر نے کچھ حدیثیں بھی مجھے سنائیں جن میں عبادات پر بہت زور دیا گیا تھا۔
سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر کی ان باتوں سے مجھے خاصا اطمینان حاصل ہوا، شاید اس لئے بھی کہ میں ایک مشکل راستے پر چلتے چلتے تھک گیا تھا اور اس باوقار زندگی کے لئے ترس گیا تھا جو کروڑوں بے وقار لوگوں میں ایک خاص طرز زندگی کے طفیل حاصل ہوتی ہے۔ اسلام کے جن پہلوؤں پر میں نے عمل کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے دوران مجھے یہ شعر رہ رہ کر یاد آتا تھا
یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
اور اب مجھ میں اس شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنے کی ہمت نہیں رہی تھی، ویسے بھی دیندار ڈاکٹر نے مجھے یہ بات بین السطور سمجھا دی تھی کہ نماز، روزے کی طرف توجہ دو اس کے بعد جو مرضی کرو، چنانچہ میں ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی سابقہ زندگی کی طرف لوٹ گیا، میں نے ہیر پھیر اور فراڈ دوبارہ شروع کر دیئے، البتہ میں نے باقاعدگی سے نماز شروع کر دی، روزہ، زکوٰة اور حج کے ارکان پر بھی عمل پیرا ہوا، میں نے بزرگوں کے مزاروں پر بھی حاضری دینا شروع کر دی۔ باقاعدگی سے وہاں دیگیں چڑھانے کا سلسلہ شروع کیا، اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صورت حال یہ ہے کہ میں نے اپنی تمام کھوئی ہوئی جائیداد دوبارہ حاصل کر لی ہے، خدا کے فضل و کرم سے علماء کے حلقوں میں بھی میری قربانیوں کو بہت سراہا جاتا ہے کہ علاقے کی تمام مسجدیں میرے عطیات سے چلتی ہیں، میں دینی مدرسوں کی بھی دل کھول کر مدد کرتا ہوں، اپنی کمائی میں سے غرباء اور مساکین میں ڈھائی پرسنٹ زکوٰة بھی تقسیم کرتا ہوں اور یوں ضمیر کو ایک اطمینان سا نصیب ہوتا ہے۔
اس سے پہلے میں خود کو گنہگار سمجھتا تھا، اب الحمداللہ دوسروں کو گنہگار سمجھتا ہوں!

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top