مذہبی جماعتوں کے کارکنان سے التماس

1381364_571629982884155_1114833683_n.jpg


آجکل اخوان المسلمون اور مصر کی صورتحال کے حوالے سے دورِ حاضر کے ایک صوفی شیخ سید عبدالغنی العمری کی ایک معرکۃ الآراء کتاب زیرِ مطالعہ ہے۔جسکا نام ہے دروس المصریہ والعبر الاخوانیہ"۔۔۔۔جی تو چاہا کہ اس زبردست کتاب کا ترجمہ کیا جائے لیکن فی الحال اتنی یکسوئی نہیں ہے۔۔اسکے باوجود کتاب کے آخر ی ایک دو صفحات کا ترجمہ کرنا چاہوں گا جس میں انہوں نے اخوان المسلمون اور انکی طرح دوسری اسلامی جماعتوں کے کارکنان کو خصوصی طور پر مخاطب کرکے چند بیش قیمت نصیحتیں کی ہیں ۔۔۔کتاب کے آخری دو صفحات کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں :

اخوان سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد، اس ساری مدت میں جس سب سے بڑی غلطی کا شکار ہوا ہے وہ اس بات کا اعتقاد ہےکہ مصر میں جو مخالفت ظاہر ہوئی ہے (جو عنقریب دوسرے ممالک میں بھی ظاہر ہوگی) یہ دراصل دین کی مخالفت ہے چنانچہ وہ اپنے آپکو دین کی حمایت کرنے والوں کی صف میں دیکھتا ہے اور اپنے مدمقابل کو دین کا دشمن سمجھتا ہے۔حالانکہ اس سارے اختلاف کی بنیاد سیاسی ہےاور بیشک دونوں فریق ہی کم و بیش طور پر حق اور باطل کے کچھ نہ کچھ پہلو رکھتے ہیں۔
موجودہ دور میں جو بحث زیادہ تر چل رہی ہے اس نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک اسلام کے ساتھ اور دوسرا اسلام کے مخالف سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک گمراہ کن بات ہے لیکن اخوان المسلمون اس پر تکیہ کرکے عوام الناس میں بھی یہی تاثر پھیلا رہے ہیں۔خصوصاّ وہ لوگ جوموجودہ حکمرانوں کو پسند نہیں کرتے، انکو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ گویا یہ لوگ دین کے دشمن ہیں۔ حالانکہ اصل وجہ جبر و تشدد ہے جسکی وجہ سے لوگوں کو اس کا نشانہ بننے والے لوگوں سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔اور اس معاملے میں کافی حد تک وہ حق بجانب ہیں۔
اور ہم ہمیشہ سے یہی کہتے آئے ہیں کہ جس بحران سے اس وقت اسلامی ممالک گذر رہے ہیں، اسکا حل صرف تعلیم اور حقائق کے ادراک میں ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ دونوں فریقین ہماری اس بات کو پسند نہیں کریں گے اور اپنے اپنے موجودہ طور طریقوں سے اپنی روش پر قائم رہنا پسند کریں گے بغیر اس بات پر غور کئےکہ انکی اپنی صفوں میں تو کوئی غلطی نہیں ہے کہیں؟ اور اس میں ان دونوں فریقین کا سوائے اسکے اور کوئی قصور نہیں کہ وہ ناواقف ہیں اور حالتِ غفلت میں ہیں۔
اور اس کتاب یعنی عبر (Lesson learned) کے اس آخری حصے میں ہم اخوان سے تعلق رکھنے والے یا انکی حمایت رکھنے والے کسی بھی فرد کی طرف اپنے کلام کا رخ موڑتے ہیں تاکہ وہ رک کر اپنے موقف کا جائزہ لے اور اسے اپنے موقف کو درست معیار پر پرکھنے میں مدد مل سکے اور اگر اسکے موقف میں کہیں کوئی غلطی ہے تو اسکو درست کرسکے۔ہوسکتا ہے کہ اللہ اس کے ذریعے اس مصیبت کی شدت کو کم کرنے میں مدد دے اور معاشرے میں اس تقسیم اور خلیج کو بھی کم کرنے میں مدد ملے جو دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہے اور آنے والے سیاسی انتخابات میں جسکے بڑھنے کا اندیشہ بھی ہے۔۔۔۔۔
(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
چند عملی نصیحتیں۔۔۔

۔۔۔مت بھولو کہ اصل مقصد اور غایت تو اللہ اور یومِ آخر ہے۔اور اسکی دلیل تم رکھتے ہی ہو کہ حق کے معاملے میں کسی بھی شئے کو آڑے نہیں آنے دینا چاہئیے۔ پس اگر تم اپنے امور میں غیر اللہ کے حوالے سے احتساب کرو اور یہ دیکھو کہ کسی معاملے میں تم اپنے دوسرے اخوان المسلمون کی تنقید اور اعتراض سے ڈرتے ہو، یا اپنے اکیلے رہ جانے کا خوف رکھتے ہو تو جان لو کہ تم اللہ کی بجائےغیر اللہ سے ڈرنے والے انسان ہو۔ اور جان لو کہ توحید پر رہتے ہوئے اللہ کی عبادت خواہ اسکے ساتھ دنیا بھر کے مصائب ہوں، اس بات سے بہتر ہے کہ تم اللہ کی ناراضگی کے ساتھ دل کی مرادیں اور خواہشیں پوری کرنے میں کامیابیاں حاصل کرتے رہو۔

---جان لو کہ اللہ نے انسانوں کو انفرادی خصوصیات کے ساتھ ساتھ آزاد پیدا کیا ہے اور اگر ان میں کسی بات پر اتفاق ہوتا ہے تو وہ اتفاق اور اجتماع اسکی مرضی سے بغیر جبر و اکراہ کے ہونا چاہئیے ناکہ کچھ لوگوں کے دوسرے لوگوں سے دب جانے کی وجہ سے۔ لہذا غیر ربانی قیادت (Leadership) کو دوسرے عام انسانوں سے کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں سوائے اسکے کہ اس میں اقتدار اورغلبے (Dominance)کی خواہش میں لوگوں کو باطل طریقے سے ہانکا جاتا ہے.

---جو شخص اپنی جماعت میں باطل کو دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہے اور صرفِ نظر کرے تو اس سے امت کو کوئی خیر حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اسے چاہئیے کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے، اس بیماری سے خلاصی حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملاقات نہ ہو کہ وہ اس سے ناراض ہو۔

---تمام مسلمان بھائیوں کے ساتھ محبت اور تعظیم والا معاملہ رکھو۔ اور فضیلت دینے کے معاملے میں اللہ کے معیارِ فضیلت کو ملحوظِ خاطر رکھو جو تقوے کے گرد گھومتا ہے۔ اور کون کس سے زیادہ افضل ہے اسکا معاملہ اللہ پر چھوڑدو۔

--- اگر حکمران مسلمان ہے تو اسکے خلاف کوئی شر اور بغض پر مبنی سوچ نہ رکھو خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ اس کی ذات سے کراہت کرنے کی بجائے اسکے برے فعل سے کراہت کا اظہار کرو ورنہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم اپنے پروردگار کو "لا الہ الا اللہ" کی حرمت نہ کرنے کی وجہ سے ناراض کر بیٹھو گے۔

--- لوگوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو جیسا تم اپنے لئے اپنے رب سے چاہتے ہو۔ پس اگر وہ کوئی عذر پیش کریں اور معافی چاہئیں تو انکو معاف کردو، اور اگر ان پر شدت کروگے تو اللہ بھجی تمہارے ساتھ شدت اور احتساب والا معاملہ کرے گا۔

--- اجتماعی اور معاشرتی حوالے سے کئے گئے ااعمال میں خلوصِ نیت کی علامت یہ ہے کہ اگر وہ کام تمہاری بجائے کوئی اور بھی انجام دے تو تمہیں خوشی حاصل ہو۔ ورنہ جان لو کہ تم وہ عمل اللہ کیلئے نہیں بلکہ اپنے نفس کیلئے کررہے ہو۔

--- اپنے عمل کی جزاء کے منتظر نہ رہو بلکہ اس بات کو سب سے بڑی غنیمت جانو کہ اس نے ابھی تم سے تمہارا حساب نہیں لیا اور درگزر کیا ہوا ہے۔ جہاں تک اجر کی بات ہے تو یہ انکو ملتا ہے جنکا عمل اللہ سبحانہ کیلئے ہو اجر کیلئے نہ ہو۔ اور لوگ اس بات سے اتنا دور ہٹ گئے ہیں کہ گویا صلہ اور اجر بھی ایک بت ہے جسکی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی ہے۔

--- اپنے نفس کو لمحہ بھر کیلئے بھی جھوٹ کی اجازت نہ دو خواہ مزاح ہی کیلئے کیوں نہو۔ کیونکہ جس میں صدق نہیں اس سے کچھ صلاح نہیں ہوتی اور نہ ہی اسکی کوئی صلاح ہوتی ہے۔

---اپنے نفس کو کسی مسلمان یا کافر سے بہتر نہ جانو۔ اور جان لو کہ اللہ سبحانہ کا فضل سب پر ہے اگر تمہیں خود پر کوئی نعمت دکھائی دی تو اسے عاریۃ اور اسکی دی ہوئی نعمت سمجھو اور ہرگز اپنے نفس کی طرف اسے منسوب نہ کرو ورنہ ظالمین میں سے ہوجاؤ گے۔

۔۔۔جان لو کہ حکم تو اللہ ہی کیلئے ہے جسکو چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے۔ پس شریعت کے احکام کو میزان بنا کر لوگوں کے بارے میں حکم نہ لگاؤ کہ یہ ایسا ہے اور وہ ویسا ہے۔ بلکہ شریعت کے احکام سے اپنے نفس کی گرفت کرو کیونکہ شریعت اس نے تمہارے نفس کو کنٹرول کرنے کیلئے نازل کی ہے۔ پس جس نے اپنے نفس کو شرع کا محکوم بنادیا وہ اللہ کا بندہ ہے اور جس نے شرع کو دوسروں کے نفوس پرحکم لگانےکیلئے استعمال کیا وہ عبدیت کی بجائے ربوبیت کی طرف لپکا۔ اور ہرگز ربوبیت کے اوصاف سے خود کو متصف نہ کرو کیونکہ یہ ہلاک کردینے والی بات ہے۔

---جان لو کہ جس معصیت کے نتیجے میں عفو ملے وہ اس نیکی سے بہتر ہے جسکا حساب دینا پڑے۔ پس معصیت کے اس امکان کو اپنی اور دوسروں کی طاعات سے مسترد نہ کرو۔کیونکہ تم اس معاملے میں اللہ کے حکم کو نہیں جانتے۔ اور اگر تم نے ایسا کیا تو تم جاہلوں میں سے ہوگے۔

۔۔۔ہر گز یہ گمان نہ رکھو کہ تم جو کچھ کرتے پھرتے ہو یہ تمہارے یا تمہاری جماعت کے ضمن میں اسلام اور مسلمانوں کیلئے مفید ہے۔ بلکہ اللہ سے یہ دعا کیا کرو کہ اللہ تمہارے حجاب میں ہونے اور دوری میں ہونے کی وجہ سے مسلمانوں اور تمہاری جماعت پر کوئی عتاب نہ لے آئے۔پس اگر کچھ ایسا کربیٹھو جو لوگوں کیلئے مفید لگے تو شکر کرو کہ اس نے تمہارے حال کو لوگوں سے پوشیدہ رکھا ہوا ہے ورنہ یہی لوگ تمہیں پتھر مارتے۔

(جاری ہے)۔۔۔۔
 
۔۔۔۔اپنے آپ سے عہد کرلو کہ ایسے کسی ایسے شخص کو ابنا ساتھی بنانا ہے جو تمہارے ساتھ جھوٹ نہ بولے اور تمہیں بڑھا چڑھا کر نہ دکھائے۔ ایسا شخص جو تمہارے لئے آئینے کا کام دے جس میں تمہیں اپنے عیوب بھی دکھائی دے سکیں۔ اور ایسے شخص سے دور بھاگو جو تمہارے نفس کو پُھلائے اور تمہیں غلط فہمی میں مبتلا رکھے۔

۔۔۔ہر -بات مین کوئی نہ کوئی نفع کا پہلو بھی ہوتا ہے اگرچہ اسکا ظاہر ضرر پر مبنی ہی کیوں نہ ہو۔ اور ہر شر کلیۃّ خیر سے محروم نہیں ہوتا۔ پس اس بات کی جدوجہد کیا کرو کہ تم ہر بات میں اسکے خیر کے پہلو کو دیکھ سکو اگرچہ ہمیشہ اس خیر کے پہلو کا اس سے وابستہ رہنا ممکن نہ بھی ہو۔پس اس طرح تم حکماء کے زمرے میں داخل ہوسکو گے۔ اور ایسےانسان نہ بنو جسے ہر بات میں برائی ہی نظر آتی ہو اور وہ اس خیر سے محروم رہ جائے جسکو ہم دیکھ رہے ہیں۔

۔۔۔اگر تمہیں دنیا میں کوئی دشمن تمہارے نفس سے زیادہ برا نظر آتا ہو تو جان لو کہ تم ابھی تک فرعون اور ہامان کے پیروکاروں میں سے ہو۔

۔۔۔یہ کبھی مت بھولو کہ شیطان ہر لحظہ تمہاری تاک میں ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ تم پر ایسے راستے سے آئے جو بظاہر صلاح اور بہتری کا راستہ دکھائی دیتا ہو اور کبھی وہ تمہارے پاس ایسے ناصح کے روپ میں آتا ہے جو آیاتِ قرآن اور احادیث نبویہ کے ساتھ اپنی بات کے حق میں دلیل پیش کرتا ہو۔ پس تم اسیے شخص کی صحبت اختیار کرو جو صاحبِ بصیرت ہو یا پھر وہی کام کیا کرو جسکی صحت اور درستگی میں کوئی شبہ نہ ہو اور شیطان کے پھیلائے ہوئے جال میں الجھنے سے بچو۔

۔۔۔اور جان لو کہ دین اسی لئے بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں تمہارے رب کے ساتھ ملائے۔ اور جو تمہیں تمہارے رب سے نہ ملائے، وہ دین نہیں بلکہ کچھ اور ہے اگرچہ دیکھنے میں تم ہر عبادت گذار سے زیادہ عبادت کرتے پھرو۔

۔۔۔اپنے پروردگار کے ساتھ ایک لگا بندھا روایتی فرسودہ معاملہ نہ رکھو بلکہ لازم ہے کہ یہ تعلق اور یہ معاملہ اپنے اندر جیتی جاگتی زندگی رکھتا ہو۔ تاکہ تمہیں معلوم و محسوس ہوتا رہے کہ کب میرا پروردگار مجھ سے خوش ہوتا ہے اور کب ناراض۔ اور اپنے کسی حال کی وجہ سے خود فریبی میں مبتلا مت رہنا کیونکہ اللہ سبحانہ جو چاہے وہ کرتا ہے جبکہ تم اسکی مشئیت میں مقید ہو۔ {لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ} [الأنبياء: 23].

۔۔۔
لوگوں کیلئے وہ بات پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ اگر ایسا نہیں تو تم متکبرین میں سے ہو۔ اور اپنے نفس کے ساتھ شدت کرو اور لوگوں کے ساتھ اتنی ہی نرمی اور سہولت۔ اور اسکے برعکس نہ ہو ورنہ خود پر بھی ظلم کروگے اور لوگوں پر بھی۔

۔۔۔اور یہ جان لو کہ اللہ نے تمہیں اسلئیے پیدا کیا ہے تاکہ تم اسکا جمال اپنے اردگرد بکھرا ہوا دیکھ سکو۔ پس اس جمال سے اپنا منہ مت موڑو۔ اور تم سمجھتے ہو کہ تم دین کی درست فہم پر ہو جبکہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ مشاہدہِ جمال سے نرمی اور رقت پیدا ہوتی ہے جبکہ عدمِ مشاہدہ سے سختی، نفرت اور سنگ دلی پیدا ہوتی ہے۔ اب تمہاری مرضی کہ تم اپنے لئے کیا چنتے ہو۔

۔۔۔اپنے نفس کے ساتھ حق بات کو تسلیم کرنے کا عہد کرو خواہ وہ بات کسی بچے سے ظاہر ہو، کسی کافر سے یا کسی بے وقار شخص سے۔ اور اسے گھٹیا سمجھ کر نفرت نہ کرو اور ایسا کرکے گناہ کو اپنے لئے باعثِ افتخار مت بناؤ۔

۔۔۔اپنی عقلِ نارسا کے فتووں کی پیروی نہ کرو اور نہ ہی اپنے جیسے لوگوں کی عقل کو اپنا رہنما بناؤ۔ اور اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ دنیا کا ایک پروردگار ہے جو اس کی تدبیر سے ایک لمحے کیلئے بھی غافل نہیں ہوتا۔ اور اگر اس اس نے تمہیں جن کاموں کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے، اگر اسکی قضا اور مشئیت ان کاموں کے خلاف نظر آئے تو ایسا اس لئے ہے تاکہ تم ان امور کی وجہ سے اسکی طرف رجوع کرو یہ نہیں کہ اسکی سلطنت میں اپنے رویے سے اس سے الجھنے اور جھگڑنے کی حالت میں آجاؤ۔ پس اس بات سے بچو کہ تم ہلاکت میں پڑ جاؤ یہ سمجھتے ہوئے کہ تم اسکے لئے کچھ کر رہے ہو۔

(جاری ہے)۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top