محمود احمد غزنوی
محفلین
آجکل اخوان المسلمون اور مصر کی صورتحال کے حوالے سے دورِ حاضر کے ایک صوفی شیخ سید عبدالغنی العمری کی ایک معرکۃ الآراء کتاب زیرِ مطالعہ ہے۔جسکا نام ہے دروس المصریہ والعبر الاخوانیہ"۔۔۔۔جی تو چاہا کہ اس زبردست کتاب کا ترجمہ کیا جائے لیکن فی الحال اتنی یکسوئی نہیں ہے۔۔اسکے باوجود کتاب کے آخر ی ایک دو صفحات کا ترجمہ کرنا چاہوں گا جس میں انہوں نے اخوان المسلمون اور انکی طرح دوسری اسلامی جماعتوں کے کارکنان کو خصوصی طور پر مخاطب کرکے چند بیش قیمت نصیحتیں کی ہیں ۔۔۔کتاب کے آخری دو صفحات کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں :
اخوان سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد، اس ساری مدت میں جس سب سے بڑی غلطی کا شکار ہوا ہے وہ اس بات کا اعتقاد ہےکہ مصر میں جو مخالفت ظاہر ہوئی ہے (جو عنقریب دوسرے ممالک میں بھی ظاہر ہوگی) یہ دراصل دین کی مخالفت ہے چنانچہ وہ اپنے آپکو دین کی حمایت کرنے والوں کی صف میں دیکھتا ہے اور اپنے مدمقابل کو دین کا دشمن سمجھتا ہے۔حالانکہ اس سارے اختلاف کی بنیاد سیاسی ہےاور بیشک دونوں فریق ہی کم و بیش طور پر حق اور باطل کے کچھ نہ کچھ پہلو رکھتے ہیں۔
موجودہ دور میں جو بحث زیادہ تر چل رہی ہے اس نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک اسلام کے ساتھ اور دوسرا اسلام کے مخالف سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک گمراہ کن بات ہے لیکن اخوان المسلمون اس پر تکیہ کرکے عوام الناس میں بھی یہی تاثر پھیلا رہے ہیں۔خصوصاّ وہ لوگ جوموجودہ حکمرانوں کو پسند نہیں کرتے، انکو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ گویا یہ لوگ دین کے دشمن ہیں۔ حالانکہ اصل وجہ جبر و تشدد ہے جسکی وجہ سے لوگوں کو اس کا نشانہ بننے والے لوگوں سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔اور اس معاملے میں کافی حد تک وہ حق بجانب ہیں۔
اور ہم ہمیشہ سے یہی کہتے آئے ہیں کہ جس بحران سے اس وقت اسلامی ممالک گذر رہے ہیں، اسکا حل صرف تعلیم اور حقائق کے ادراک میں ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ دونوں فریقین ہماری اس بات کو پسند نہیں کریں گے اور اپنے اپنے موجودہ طور طریقوں سے اپنی روش پر قائم رہنا پسند کریں گے بغیر اس بات پر غور کئےکہ انکی اپنی صفوں میں تو کوئی غلطی نہیں ہے کہیں؟ اور اس میں ان دونوں فریقین کا سوائے اسکے اور کوئی قصور نہیں کہ وہ ناواقف ہیں اور حالتِ غفلت میں ہیں۔
اور اس کتاب یعنی عبر (Lesson learned) کے اس آخری حصے میں ہم اخوان سے تعلق رکھنے والے یا انکی حمایت رکھنے والے کسی بھی فرد کی طرف اپنے کلام کا رخ موڑتے ہیں تاکہ وہ رک کر اپنے موقف کا جائزہ لے اور اسے اپنے موقف کو درست معیار پر پرکھنے میں مدد مل سکے اور اگر اسکے موقف میں کہیں کوئی غلطی ہے تو اسکو درست کرسکے۔ہوسکتا ہے کہ اللہ اس کے ذریعے اس مصیبت کی شدت کو کم کرنے میں مدد دے اور معاشرے میں اس تقسیم اور خلیج کو بھی کم کرنے میں مدد ملے جو دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہے اور آنے والے سیاسی انتخابات میں جسکے بڑھنے کا اندیشہ بھی ہے۔۔۔۔۔
(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری تدوین: