ربیع م
محفلین
مذہب مخالف جدید فلسفیانہ استدلالات کا جائزہ
ایڈمن / جون 18, 2015قوانین فطرت اور خدا کی ضرورت
مذہب کی مخالفت میں کئی استدلالات اس بات کے ثبوت کے لئے پیش کئے جاتے ہیں اور انکی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ دور جدید نے مذہب کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک بے بنیاد دعویٰ ہے ، جدید طریق فکر نے مذہب کو کسی بھی درجہ میں کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے،. یہاں مذہب کے خلاف مقدمے میں پیش کیے گئے دلائل پر ایک عمومی تبصرہ پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے اس دلیل کو لیتے ہیں جو طبعیاتی تحقیق کے حوالے سے پیش کی گئی ہے یعنی کائنات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ یہاں جو واقعات ہو رہے ہیں وہ ایک متعین قانون فطرت کے مطابق ہو رہے ہیں اس لئے ان کی توجیہہ کرنے کیلئے کسی نامعلوم خدا کا وجود فرض کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ معلوم قوانین خود اس کی توجیہہ کیلئے موجود ہیں اس استدلال کا بہترین جواب وہ ہے جو ایک عیسائی عالم نے دیا ہے اس نے کہا ہے۔
“Nature is the fact not an explanation”
یعنی فطرت کا قانون کا ئنات کا ایک واقعہ ہے وہ کائنات کی توجیہہ نہیں ہے تمہارا یہ کہنا صحیح ہے کہ ہم نے فطرت کے قوانین معلوم کرلئے ہیں مگر تم نے جو چیز معلوم کی ہے وہ اس مسئلے کا جواب نہیں ہے جس کے جواب کے طور پر مذہب وجود میں آیا ہے مذہب یہ بتاتا ہے کہ وہ اصل اسباب و محرکات کیا ہیں جو کائنات کے پیچھے کام کر رہے ہیں جب کہ تمہاری دریافت صرف اس مسئلہ سے متعلق ہے کہ کائنات جو ہمارے سامنے کھڑی نظر آتی ہے اس کا ظاہری ڈھانچہ کیا ہے .جدید علم جو کچھ ہمیں بتاتا ہے وہ صرف واقعات کی مزید تفصیل ہے نہ کہ اصل واقعہ کی توجیہہ سائنس کا سارا علم اس سے متعلق ہے کہ جو کچھ ہے وہ کیا ہے؟ یہ بات اس کی دسترس سے باہر ہے کہ جو کچھ ہے وہ کیوں ہے؟ جب کہ توجیہہ کا تعلق اسی دوسرے پہلو سے ہے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھئے مرغی کا بچہ انڈے کے مضبوط خول کے اندر پرورش پاتا ہے اور اس کے ٹوٹنے سے باہر آتا ہے یہ واقعہ کیوں کر ہوتا ہے کہ خول ٹوٹے اور بچہ جو گوشت کے لوتھڑے سے زیادہ نہیں ہوتا وہ باہر نکل آئے پہلے کا انسان اس کا جواب یہ دیتا تھا کہ خدا ایسا کرتا ہے مگر اب خوردبینی مشاہدہ کے بعد معلوم ہوا کہ جب ۲۱ روز کی مدت پوری ہونے والی ہوتی ہے اس وقت ننھے بچے کی چونچ پر ایک نہایت چھوٹی سی سخت سینگ ظاہر ہوتی ہے اس کی مدد سے وہ اپنے خول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے سینگ اپنا کام پورا کرکے بچہ کی پیدائش کے چند دن بعد خود بخود چھڑ جاتی ہے۔
مخالفین مذہب کے نظریے کے مطابق یہ مشاہدہ اس پر انے خیال کو غلط ثابت کر دیتا ہے کہ بہ کو باہر نکالنے والا خدا ہے کیونکہ خوردبین کی آنکھ ہم کو صاف طور پر دکھا رہی ہے کہ ایک ۲۱ روزہ قانون ہے جس کے تحت وہ صورتیں پیدا ہوتی ہیں جو بچہ کو خول کے باہر لاتی ہیں یہ مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں جدید مشاہدہ نے جو کچھ ہمیں بتایا ہے وہ صرف واقعہ کی چند مزید کڑیاں ہیں اس نے واقعہ کا اصل سبب نہیں بتایا اس شاہدہ کے بعد صورت حال میں جو فرق ہوا ہے وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہےکہ پہلے جو سوال خول کے ٹوٹنے کے بارے میں تھا وہ سینگ کے اوپر جا کر ٹھہر گیا بچہ کا اپنی سینگ سے خول کو توڑنا واقعہ کی صرف ایک درمیانی کڑی ہے وہ واقعہ کا سبب نہیں ہے واقعہ کا سبب تو اس وقت معلوم ہو گا جب ہم جان لیں کہ بچہ کی چونچ پر سینگ کیسے ظاہر ہوئی دوسرے لفظوں میں اس آخری سبب کا پتہ لگائیں
جو بچہ کی اس ضرورت سے واقف تھا کہ اس کو خول سے باہر نکلنے کیلئے کسی سخت مدگار کی ضرورت ہے اور اس نے مادہ کو مجبور کیا کہ عین وقت پر ٹھیک ۲۱ روز بعد وہ بچہ کی چونچ پر ایک ایسی سینگ کی شکل میں نمودار ہو جو اپنا کام پورا کرنے کے بعد چھڑ جائے۔ گویا پہلے یہ سوال تھا کہ خول کیسے ٹوٹتا ہے اور اب سوال یہ ہو گیا کہ ” سینگ کیسے بنتی ہے“ ظاہر ہے کہ دونوں حالتوں میں کوئی نوعی فرق نہیں اس کو زیادہ سے زیادہ حقیقت کا وسیع تر مشاہدہ کہہ سکتے ہیں حقیقت کی توجیہہ کا نام نہیں دے سکتے۔
یہاں میں ایک امریکی عالم حیاتیات ”سیسل بوائے حامانن“ کے الفاظ نقل کروں گا
”غذا ہضم ہونے اور اس کے جزو بدن بننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منسوب کیا جاتا تھا اب جدید مشاہدہ میں ہو کیمیائی رد عمل کا نتیجہ نظر آتا ہے مگر کیا اس کی وجہ سے خدا کے وجود کی نفی ہو گئی آخر وہ کون طاقت ہے جس نے کیمیائی اجزا کو پابند کیا کہ وہ اس قسم کا مفید رد عمل ظاہر کریں غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب و غریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے اس کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ یہ حیرت انگریز انتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا ۔حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدہ کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعہ عمل کرتا ہے جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے“۔
The evidence of God in Expanding Universe p221
قوانین فطرت کی توجیہہ کا مسئلہ
یہ صحیح ہے کہ سائنس نے کائنات کے بارے میں انسان کے مشاہدے کو بہت بڑھا دیا ہے اس نے دکھا دیا ہے کہ وہ کون سے فطری قوانین ہیں جن میں یہ کائنات جکڑی ہوئی ہے اور جس کے تحت وہ حرکت کر رہی ہے مثلاً پہلے آدمی صرف یہ جانتا تھا کہ پانی برستا ہے مگر اب سمندر کی بھاپ اٹھنے سے لے کر بارش کے قطرے زمین پر گرنے تک کا وہ پورا عمل انسان کو معلوم ہو گیا ہے۔
جس کے مطابق بارش کا واقعہ ہوتا ہے مگر یہ ساری دریافتیں صرف واقعہ کی تصویر ہیں وہ واقعہ کی توجیہہ نہیں ہیں سائنس یہ نہیں بتاتی کہ فطرت کے قوانین کیسے قوانین بن گئے وہ کیسے اس قدر مفید شکل میں مسلسل طور پر زمین و آسمان میں قائم ہیں اور اس صحت کے ساتھ قائم ہیں کہ ان کی بنیاد پر سائنس میں قوانین مرتب کئے جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ فطرت جس کو معلوم کر لینے کی وجہ سے انسان یہ دعوی کرنے لگا ہے کہ اس نے کائنات کی توجیہہ دریافت کر لی وہ محض دھوکا ہے یہ ایک غیر متعلق بات کو سوال کا جواب بنا کر پیش کرنا ہے یہ درمیانی کڑی کو آخری کڑی قرار دینا ہے یہاں پھر میں مذکورہ عالم کے الفاظ دہراؤں گا۔
Nature does not explain, she her self is in need of an explanation
یعنی فطرت کائنات کی توجیہہ نہیں کرتی وہ خود اپنے لئے ایک توجیہہ کی طالب ہے۔
اگر آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ خود سرخ کیوں ہوتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون میں نہایت چھوٹے موٹے سرخ اجزا ہوتے ہیں (ایک انچ کے سات ہزارویں حصے کے برابر) یہی سرخ ذرات خون کو سرخ کرنے کا سبب ہیں۔
”درست مگر یہ ذرات سرخ کیوں ہوتے ہیں“
”ان ذرات میں ایک خاص مادہ ہوتا ہے جس کا نام ہیمو گلوبن ہے یہ مادہ جب پھیپھڑے میں آکسیجن جذب کرتا ہ تو گہرا سرخ ہو جاتا ہے“۔
”ٹھیک ہے مگر ہیموگلوبن کے حام سرخ ذرات کہاں سے آئے ہیں“
”وہ آپ کی تلی میں بن کر تیار ہوتے ہیں “
”ڈاکٹر صاحب ! جو کچھ آپ نے فرمایا وہ بہت عجیب ہے مگر مجھے بتایئے کہ ایسا کیوں ہے کہ خون سرخ ذرات تلی اور دوسری ہزاروں چیزیں اس طرح ایک کل کے اندر باہم مربوط ہیں اور اس قدر صحت کے ساتھ اپنا اپنا عمل کر رہی ہیں“
”یہ قدرت کا قانون ہے“
”وہ کیا چیز ہے جس کو آپ قدرت کا قانون قدرت کہتے ہیں“
اس سے مراد
Blind interplay of physical and chemical forces
طبیعی اور کیمیائی طاقتوں کا اندھا عمل ہے۔
مگر کیا وجہ ہے کہ یہ اندھی طاقتیں ہمیشہ ایسی سمت میں عمل کرتی ہیں جو انہیں متعین انجام کی طرف لے جائے ؟ کیسے وہ اپنی سر گرمیوں کو اس طرح منظم کرتی ہیں کہ ایک چڑیا اڑنے کے قابل ہو سکے، ایک مچھلی تیر سکے ایک انسان اپنی مخصوص صلاحتیوں کے ساتھ وجود میں آئے ۔؟
میرے دوست مجھ سے یہ نہ پوچھو سائنس داں صرف یہ بتا سکتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے ؟ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے۔؟
یہ سوال وجواب واضح کررہا ہے کہ سائنسی دریافتوں کی حقیقت کیا ہے بلا شبہ سائنس نے ہم کو بہت سی نئی نئی باتیں بتائی ہیں مگر مذہب جس سوال کا جواب ہے اس کا ان دریافتوں سے کوئی تعلق نہیں اس قسم کی دریافتیں اگر موجودہ مقدار کے مقابلے میں اربوں کھربوں گنا بڑھ جائیں تب بھی مذہب کی ضرورت باقی رہے گی کیوں کہ یہ دریافتیں صرف ہونے والے واقعات کو بتائی ہیں یہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں اور ان کا آخری سبب کیا ہے اور اس کا جواب ان دریافتوں کے اندر نہیں ہے یہ تمام کی تمام دریافتیں صرف درمیانی تشریح ہیں جبکہ مذہب کی جگہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ آخری اور کلی تشریح دریافت کر لے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی مشین کے اوپر ڈھکن لگا ہوا ہو تو ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ چل رہی ہے اگر ڈھکن اتار دیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ باہر کا چکر کس طرح ایک اور چکر سے چل رہا ہے اور وہ چکر کسی دوسرے بہت سے پرزوں سے کر حرکت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے سارے پرزوں اور اس کی پوری حرکت کو دیکھ لیں مگر کیا اس علم کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے مشین کے خالق اور اس کے سبب حرکت کا راز بھی معلوم کر لیا کیا کسی مشین کی کارکرردگی کو جان لینے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بخود بن گئی ہے اور اپنے آپ چلی جارہی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو کائنات کی کارکردگی کی بعض جھلکیاں دیکھنے سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ یہ سارا کارخانہ اپنے آپ قائم ہوا اور اپنے آپ چلا جارہا ہے ہیریز نے یہی بات کہی تھی جب اس نے ڈارو نزم پر تنقید کرتے ہوئے کہا۔
“nature selection may explain the survival of fittest, but cancnot explain the arrival of the fittest”
Revolt Against Reason by A.lunn p.133
یعنی انتخاب طبیعی کے قانون کا حوالہ صرف زندگی کے بہتر مظاہر کے باقی رہنے کی توجیہہ کرتا ہے وہ یہ نہیں بتاتا کہ یہ بہتر زندگیاں خود کیسے وجود آئیں۔
ماخذ