مذہب کاروبار بن جائے تو درندوں کا راج باقی رہ جاتا ہے‘

صرف علی

محفلین
مذہب کاروبار بن جائے تو درندوں کا راج باقی رہ جاتا ہے‘
ارم عباسی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ملتان

آخری وقت اشاعت: جمعرات 8 مئ 2014 ,‭ 11:12 GMT 16:12 PST
140508105906_rashid_rehman_304x171_bbc_nocredit.jpg

راشد رحمان مظلوم خواتین کے مقدمات کی پیروی کرتے تھے

ملتان میں توہین رسالت کے ملزم کے وکیل راشد رحمان کی ٹارگٹ کلنگ کی خبر سن کر پہلی مرتبہ احساس ہوا جیسے انتہاپسند سوچ نے میرے گھر کو نشانہ بنایا ہو۔

ایسا نہیں کہ وہ میرے خاندان سے ہیں، مگر چند ہفتے پہلے ہی ان سے ملی تھی کیونکہ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ توہین رسالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران ہی انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں اور وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ ملزم کا دفاع کر رہے ہیں۔

اسی بارے میں
متعلقہ عنوانات
توہین رسالت کے الزام میں گرفتار جنید کی وکالت کرنے پر ان کے مخالفین نے راشد رحمان کو ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے کہا کہ وہ اس سنگین جرم کے ملزم کی وکالت نہ کریں ورنہ اگلی پیشی تک وہ نہیں بچیں گے۔

انھوں نے مجھے ایس ایم ایس کے ذریعے اس صوت حال سے آگاہ کیا تو میں ان سے ملنے ملتان پہنچی۔

اس سفر میں جیسے جیسے آپ اندورنِ پنجاب داخل ہوتے ہیں ویسے ویسے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کو بعض واقعات میں کس قدر لاپروائی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہی خدشہ راشد رحمان کو تھا، اسی لیے وہ اس مقدمے کا حصہ بنے تھے۔

راشد رحمان ایک بہادر شخص تھے۔ انھوں نے مشکلات کے باوجود انتہاپسندی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔

140508104435_rashid_rehman_relatives_336x189_afp_nocredit.jpg

راشد رحمان کے اہلِ خانہ کے مطابق انھیں دھمکیاں مل رہی تھیں

جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اتنے غیر محفوظ دفتر اور پھر کچہری میں آنے سے ڈر نہیں لگتا؟ تو جنید کے والد کی جانب اشارہ کر کے بولے: ’ میں ان کی آخری امید ہوں۔ وکلا ڈر کے مارے ان کا مقدمہ لڑنے سے انکار کر رہے ہیں، لیکن مجھے میرے کام سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘

راشد رحمان کے چہرے پر ذرا بھی ڈر نظر نہیں آیا۔ وہ بہت اعتماد کے ساتھ مجھے ملتان سینٹرل جیل لے کر گئے جہاں جنید پر لگے توہین رسالت کے الزام کی سماعت ہو رہی تھی۔

وہ خود تو نہیں ڈرتے تھے مگر انھیں جنید کی جان کا خطرہ تھا اسی لیے انھوں نے عدالت سے جنید کے مقدمے کی سماعت سینٹرل جیل ہی میں کرنے کی درخواست کی جسے قبول کر لیا گیا۔ وہ جنید کے والد کے ساتھ ان کی گاڑی میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ جیل کے لیے نکلے۔

اس موقع پر جب میں نے ان سے پوچھا آپ کے پاس سکیورٹی کیوں نہیں تو بولے ’میں وکیل ہوں کوئی حکمران نہیں۔‘

پنجاب میں خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدد، کاروکاری اور جنسی غلامی کے مختلف واقعات کے سلسلے میں راشد رحمان سے کئی بار ملاقات ہوئی۔ جب بھی ان کے ایک کمرے کے دفتر میں جاتی تھی جہاں کوئی نہ کوئی مظلوم خاتون مدد حاصل کرنے کے لیے موجود ہوتی تھی۔ ایک 17 سالہ لڑکی جو انسانی سمگلنگ کا شکار ہوئی، اس کی بازیابی پر راشد رحمان اتنے ہی خوش تھے جتنا اس کا خاندان۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ گذشتہ سات برس سے اس لڑکی کو تلاش کر رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ملتان کے دوردراز دیہات سے آنے والے سکینہ کے خاندان کی کوئی نہیں سنے گا اس لیے خود ہی پولیس کے پیچھے پڑے رہے اور بالآخر سیکنہ سات برس بعد تین بچوں کے ساتھ بازیاب ہو گئی۔

ذمہ دار ہم سب ہوں گے۔۔۔
ہرگزرتے دن کے ساتھ ساتھ راشد رحمان اور ان کا غم کرنے والے لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے معاشرے میں بندوق کی نوک پر تنگ نظری پھیلانے والے جیتتے جا رہے ہیں۔ توہین رسالت کے مقدمے میں دھمکی کے بعد راشد رحمان کی ہلاکت پر بیشتر پاکستانی محتاط بیانات دے رہے ہیں۔ کون چاہے گا کہ اس کے ساتھ راشد رحمان والا سلوک کیا جائے؟ مگر اگر اس نوعیت کی باقی اموات کی طرح اگر ہم نے راشد رحمان کو بھی بھلا دیا تو راشد رحمان کی ہار کے ذمہ دار ہم سب ہوں گے۔

ایسی بے شمار کہانیاں ہر روز ان کے دفتر خود چل کر آتی تھیں۔ جیسے وہ غریب اور مظلوم خواتین کا اندورن پنجاب میں واحد سہارا ہوں۔

جب بھی ان سے بات کی تو محسوس ہوا کہ وہ اپنے کام کو نوکری نہیں سمجھتے تھے بلکہ پاکستانی معاشرے میں پھیلی انتہاپسندی اور جہالت انھیں تنگ کرتی تھی اور وہ اسے بدلنے کے لیے محدود وسائل اور چند ساتھیوں کے ہمراہ نکلے ہوئے تھے۔

وہ کہتے تھے: ’جس معاشرے میں مذہب کو بیچنا کاروبار بن جائے وہاں صرف درندوں کا راج باقی رہ جاتا ہے۔‘

اس مرتبہ جب میں ملتان میں ان سے ملی تو ملاقات ختم ہونے پر کہا کہ آئیے آپ کو گھر چھوڑ دوں تو وہ بولے: ’یہ پاگل لوگ ہیں، ایسا نہ ہوں میرے ساتھ آپ کو کو بھی جان گنوانی پڑے۔‘

میں تو انھیں گذشتہ تین برس سے جانتی تھی مگر ان سے مل کر ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ ان کی جدوجہد بہت پرانی ہے۔ وہ معاشرے میں پھیلتی مذہبی انتہاپسندی سے پریشان ضرور تھے مگر پرامید تھے کہ ان کی کوشش رنگ لائے گی۔

ابھی شاید یہ کوئی کہہ نہیں رہا، لیکن لگتا ہے کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ ساتھ راشد رحمان اور ان کا غم کرنے والے لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے معاشرے میں بندوق کی نوک پر تنگ نظری پھیلانے والے جیتتے جا رہے ہیں۔

توہینِ رسالت کے مقدمے میں دھمکی کے بعد راشد رحمان کی ہلاکت پر بیشتر پاکستانی محتاط بیانات دے رہے ہیں۔ کون چاہے گا کہ اس کے ساتھ راشد رحمان والا سلوک کیا جائے؟ مگر اگر اس نوعیت کی باقی اموات کی طرح اگر ہم نے راشد رحمان کو بھی بھلا دیا تو راشد رحمان کی ہار کے ذمہ دار ہم سب ہوں گے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/05/140508_rashid_irum_piece_fz.shtml
 

صرف علی

محفلین
ستوں دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
نعیم سعید تاریخ اشاعت 09 مئ, 2014



شیئر کریں
ای میل
0 تبصرے
پرنٹ کریں
div.slideshow__item">
536bebc50d0dd.jpg

536bebc50d0dd.jpg

میڈیا کی مجرمانہ غفلت کا یہی حال رہا تو ان گنت راشد رحمان، سلمان ثاثیر، شہباز بھٹی تاریک راہوں میں ماریں جائیں گے۔
Ads by PassShowAd Options
شہباز بھٹی، سلمان تاثیر کے خون ناحق کے بعد انسانی حقوق کمیشن جنوبی پنجاب کے کوآرڈینٹر راشد رحمان اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہے جنہیں خونی درندوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

مبینہ طور پر توہین رسالت کے مرتکب فرد کی عدالتوں میں قانونی داد رسی کرنا ان کا جرم عظیم ٹھہرا جس کی پاداش میں انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اور گولیوں کا نشانہ بنانے والے یہی افراد "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کی نیم خواندہ، خواندہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ آبادی کی اکثریت کے ہیرو بھی ٹھہرتے۔

آج مجھے اپنے ایک ہم جماعت محمد ندیم شاہ مرحوم آج بہت شدت سے یاد آرہے ہیں جن پر ڈیرہ غاری خان کی عدالت میں توہین رسالت کا مقدمہ درج ہوا تھا۔

ندیم شاہ ثانوی تعلیمی بورڈ ڈیرہ غازیخان میں بطور کلرک اپنے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ کم تنخواہ کے باعث اکثر تنگدسی کا شکار رہتے اور اسی تنگدستی اور پریشانی نے ان کا رجحان مذہب کی طرف کردیا. مسجد میں نماز پنجگانہ ادا کرنا معمول بن گیا۔ مسجد میں ہی ان کی ملاقات تبلیغی جماعت کی ایک ٹولی جو سہہ روزے اور چلے پر ہمہ وقت تبلیغی دورے پر ہوتے ہیں سے ہوئی۔

ندیم شاہ پانچ وقت کے نمازی تو پہلے سے ہی تھے تبلیغی جماعت کی تبلیغ اور وعظ نے انہیں مذہب کو مشن کے طور پر اپنانے پر آمادہ کرلیا۔

اب ندیم شاہ تبلیغی جماعت کے باقاعدہ رکن تھے لٰہذا دفتر میں موجود باقی عملے کی اخلاقی تربیت کو اپنا دینی فریضہ سمجھنے لگے۔ دفتر کے عملے کو نماز و روزے کی تلقین ان کا روز کا معمول بن چکا تھا۔ عملے کے ہر اس شخص سے الجھ پڑتے جو ان کے سامنے تعلیمی بورڈ میں آئے سائلوں سے جائز و ناجائز کام پر رشوت لیا کرتے تھے۔

دفتر کا عملہ جو ان کے وعظ و تبلیغ سے تنگ آچکا تھا، ایک دن سر جوڑ کر بیٹھ گیا کہ اس کی تبلیغ اور وعظ سے کیسے جان خلاصی کرائی جائے۔ سب نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا اور اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا انتظار کرنے لگے۔

ایک صبح جب بورڈ ملازمین کی دفتر میں آمد شروع ہو رہی تھی سب آہستہ آہستہ دفترمیں پہلے سے موجود ندیم شاہ کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ اور سے مذہب کو بنیاد بنا کر گفتگو شروع کردی۔

ندیم شاہ سے سوال کیا گیا کہ کیا "سب انسان برابر ہوتے ہیں"۔

یقینی طور پر ندیم نے کہا کہ ہاں اللہ تبارک و تعالٰی کے بنائے ہوئے سب انسان برابر ہیں اور کسی "عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں"۔

بس یہ جملہ ادا کرنے کی دیر تھی کہ سب نے کہا کہ اگر ہم سب برابر ہیں تو تم چیئرمین کی کرسی پر بیٹھ کر دکھاؤ۔ ندیم شاہ اپنی کہی بات ثابت کرنے کے لئے اپنی سیٹ سے اٹھ کر چیرمین کی کرسی پر جا بیٹھے. باقی ملازمین نے انھیں چیرمین کی کرسی پر بیٹھا کر بحث میں اتنی دیر تک الجھائے رکھا جب تک محترم چئرمین صاحب نازل نہ ہوئے۔

ندیم شاہ کو اپنی سیٹ پر بیٹھا دیکھ کر چیئرمین نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ تم میری سیٹ پر کیوں بیٹھے ہو، کیا تم دفتری آداب سے نابلد ہو؟ اس سوال پر جواب تو ندیم شاہ کو دینا چاہیے تھا۔ لیکن اس سے قبل باقی کا عملہ یک زبان ہوکر بولا کہ ندیم شاہ نے نبوت کا دعویٰ کردیا ہے اور وہ سب کو اس بات پر قائل کرنے کے لئے آپ کی نشست پر براجمان ہے۔

بس پھر کیا تھا ندیم کو بورڈ کے تمام عملے نے بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے بے لباس کردیا اور بورڈ کی عمارت کے باہر لے جاکر سنگسار کرنے کے مشورے دیئے جانے لگے. ایک مذہبی جنونی نے جلدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قریب کھڑی موٹر سائیکل سے پٹرول کی بوتل بھرکر ندیم شاہ کے جسم پر انڈیل دی۔ ابھی پٹرول سے شرابور جسم کو ماچس کی سلگتی تیلی دکھانے کی دیر تھی کہ کسی خدا ترس انسان کی پولیس ہیلپ لائن 115 پر کی گئی اطلاع کارگر ثابت ہوئی اور جلنے سے پہلے پولیس عملے نے ندیم کو اپنے ڈالے میں ڈالا اور شہر کے دور افتادہ پولیس اسٹیشن تھانہ کوٹ مبارک لے گئی۔

ندیم شاہ پر توہین رسالت کے تحت مقدمہ درج ہوا. صفائی دینے کے لئے ندیم شاہ اور ان کے خاندان والے عدالتوں کے چکر پر چکر کاٹتے رہے۔ معاشرہ اسے ایک غلیظ اور گھٹیا توہین رسالت کے مجرم کے طور پر جانتا تھا۔

روزگار سے بھی ہاتھ سے گیا اور گھر میں نوبت فاقوں تک آپہنچی۔ معاشرے میں زندہ رہنے اور سانس لینے کے لئے تبلیغی جماعت سے عاشقان رسولﷺ کی جماعت دعوت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ سبز رنگ کا عمامہ بھی سر پر پہنے رکھتے تھے۔ لیکن بے رحم معاشرے نے قبول نہیں کرنا تھا تو سبز عمامے کس کام کے۔ انتہائی ڈیپیریش کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہوکر محمد ندیم شاہ 33 سال کی جواں سال عمر میں قبر کی آغوش میں جا سوئے۔

والدین کی جمع پونجی توہین رسالت کیس پر خرچ ہوئی. ندیم کے بیوی بچے جس گھر میں رہائش پذیر ہیں پیٹ کے ایندھن کی خاطر اس گھر پر جلی حروف میں لکھوا دیا گیا ہے "یہ گھر برائے فروخت ہے" لیکن ایساگھر جہاں توہین رسالت کا مبینہ مرتکب رہا کرتا تھا خریدے تو کون خریدے۔۔۔!!!

یہ تو صورت حال ہے توہین رسالت کے قانون کے طریقہ استعمال کی۔

7 مئی 2014 کی شام راشد رحمان کچہری چوک ملتان کی ایک بلڈنگ کی بالائی منزل پر واقع اپنے دفتر میں معمول کے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ نامعلوم اسلحہ بردارو ں نے فائرنگ کرکے انہیں بہیمانہ طریقے ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔

راشد رحمان کی ناگہانی موت سے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے غریب، بے آسرا، لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایک ایسے درد دل رکھنے والے سے محروم ہوچکی جو عدالتوں میں ان کے کیسیز کی پیروی فی سبیل اللہ کیا کرتا تھا۔ حتٰی کہ عدالتی فیس بھی اپنی ہی جیب سے ادا کردیا کرتا تھا۔

راشد رحمان کا جرم صرف اتنا تھا کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے وزٹنگ لیکچرار حفیظ جنید پر مبینہ توہین رسالت کے مقدمے کی پیروی کررہے تھے۔

جنید حفیظ کا تعلق ضلع راجن پور سے ہے اور جنید کے والد کے بقول ان کے بیٹے کی پروموشن ہونے والی تھی اور یونیورسٹی مافیا کے کچھ (پروفیسر صاحبان) کو ان کی ترقی گوارا نہ تھی اس لئے انہیں توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا۔ اور داد رسی کرنے والے راشد رحمان کا انجام سب کے سامنے ہے۔۔۔!!

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پنجاب کو لے کر میڈیا کی بات کی جائے تو لاہور کے بعد ملتان ایسا شہر ہے جہاں ہر قومی روزنامے کا ایڈیشن شائع ہوتا ہے اور ہر نیوز چینل کا بیورو آفس بھی موجود ہے۔ اور اپنی تئیں "تحقیقاتی جرنلزم کے سورماؤں" کی کمی بھی نہیں ہے پھر زکریا یونیورسٹی کے بیٹ 141 پر معمور ان گنت صحافیوں کی فوج ظفر موج موجود ہے۔ ان صحافیوں میں سے کسی نے ایسے عناصر کی نشاندہی کیوں نہیں کی جن لوگوں نے جنید حفیظ کو توہین رسالت کا مرتکب ٹھہرایا؟ وہ کون سے روحانی والدین تھے جنہوں نے یہ گھناؤنا اور اخلاق سے گرا ہوا کھیل کھیلا جس میں درد دل رکھنے والے انسان راشد رحمان کی قیمتی جان کا زیاں بھی ہوا۔

جبکہ ملتان کا ہر صحافی "وائس چانسلر خواجہ علقمہ" کے قصیدے ہی لکھتا رہتا ہے (خواجہ علقمہ وہ شخصیت ہیں جن کا نام شریف برادران کی درینہ شناسائی کے باعث گورنر پنجاب کی تعیناتی میں بھی سرفہرست تھا لیکن قرعہ چوہدری سرور کے نام نکلا)۔ خواجہ علقمہ اور دیگر پروفیسر حضرات کی قصیدہ خوانی صحافی حضرات کیوں اور کس لئے کرتے ہیں یا پھر یونیورسٹی کے حدود اربعہ کو کسی پٹواری کی ذہینت کے مطابق رپورٹ کیوں کر کرتے رہتے ہیں اس کا جواب ان کے اداروں کو لینا چاہیے جن اداروں میں وہ بطور 'قلم کار' کام کرتے ہیں تاکہ اور کچھ نہیں جنوبی پنجاب کی واحد بڑی درس گاہ تعلیم کا گہوارہ بنے نہ کہ مذہبی جنونیوں کی آماجگاہ۔

یقین نہ آئے تو قومی اخبارات کے ملتان سے شائع ہونے والے گزشتہ تعلیمی ایڈیشن ملاحظہ فرما لیجئے۔ آپ کو جامعہ زکریا کی قصیدہ گوئی کے علاوہ کچھ نہیں ملنے والا!

اگر میڈیا کی مجرمانہ غفلت کا یہی حال رہا تو ان گنت راشد رحمان، سلمان ثاثیر، شہباز بھٹی تاریک راہوں میں ماریں جائیں گے۔ اور ہم سب مارے جانے کے خوف سے اپنی زبانوں پر تالے لگا ئے رکھیں گے۔۔۔۔!!!
http://urdu.dawn.com/news/1004758/09may14-rashid-rehman-assassination-naeem-saeed-aq
 
Top