مراجعت ( افسانہ از خاورچودھری)

خاورچودھری

محفلین
مراجعت (افسانہ)
از:خاورچودھری
آج اُسے مس رچنا بے طرح یادآرہی تھی۔مس رچنا کی سفیدپنڈلیوں پرجب پہلی باراُس کی نظر پڑی تھی توپھروہیں ٹھہر گئی تھی اور اُسے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ پنڈلیوں سے اُوپر بھی جسم بلکہ مکمل جسم موجود ہے۔پھریہ معمول بن گیا'مس رچنا جب اپنے دفترکی سیڑھیاں چڑھ رہی ہوتی یہ اپنے کیبن سے نکل کراُس کی پنڈلیوں پرنگاہیں جما لیتا۔ روئی کے گالوں جیسی سفیدپنڈلیاں تواس کے اوسان میں پیوست ہوکررہ گئی تھیں ۔اُٹھتے بیٹھتے' چلتے پھرتے ہمہ وقت ایک وہی توعکس تھا جواس کے ذہن کے پردے پر منور رہتا۔ تب کہیں اس کا یہ انہماک مس رچناکی تاک میں آگیا۔اگلے روزجب وہ پوری طرح اس عمل میں منہمک تھا توپنڈلیاں اچانک تھم گئیں' پھر پلٹیں۔اُسے تب احساس ہوا جب مس رچنا نے اُس کی ٹھوڑی کے نیچے اپنی انگلی ٹکاکر حکم دیا کہ وہ اُس کی طرف دیکھے۔وہ اتنی جرأت کہاں رکھتا تھااوراَب تووہ پوری طرح زمین میں گڑچکا تھا۔اُس کی چوری پکڑی گئی تھی اوروہ خودکودنیا کاغلیظ ترین شخص سمجھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہاتھا بھلا مس رچناکی شفاف پانیوں جیسی پنڈلیاں اس لائق ہیں کہ اُن پرنظروں کا میلا بوجھ رکھاجائے۔
سوچیں دُور کہیں بھٹک رہی تھیں اوردماغ ودل اُس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے' جب وہ کانپنے لگا تو رچنا نے کہا'' خوف زَدہ ہو! پھر دیکھتے کیوں ہو؟
وہ تواپنی زندہ لاش کے سرہانے کھڑا تھا۔ لفظ ہوتے تواُس کاساتھ دیتے۔رچنا اُسے اس کی لاش پرروتا ہواچھوڑا کر سیڑھیاں چڑھ گئی ۔پھروہ اپنی کیبن سے کبھی نہ نکل سکا۔
ایک روزمس رچنااچانک اس کے پاس آگئی۔ہاتھ میں کافی کامگ بھی پکڑا ہواتھا۔وہ رچناکو دیکھ کر یوں اُچھل کراپنی جگہ پر کھڑا ہوا جیسے اسپرنگ کودبا کرچھوڑدیاگیا ہو۔زبان اُس کی اب بھی کچھ کہنے سے قاصر تھی اورنگاہیں اُس کے اپنے ہی جوتوں کوماپ رہی تھیں۔ تب رچنا نے کہا
'' دیکھو! زندگی اس کانام نہیں'میں نے یہ تو نہیں چاہاتھا کہ تم یوں سہم کر بیٹھ جاؤ۔ میں توتمھیں صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ دُنیا میں پھیلی ہوئی تمام خوب صورتیاں انسان کے لیے ہیں مگریہ ضروری نہیں کہ ہرشے پراسے قدرت بھی ہو۔بس اتنی سی بات ہے۔تم اچھے ہو'بلکہ بہت اچھے ہو مگرمیری پنڈلیاں تمھاری نظروں کی کاٹ نہیں برداشت کرسکتیں' کیوں کہ وقت بہت پہلے مجھے کسی اورکے حوالے کرچکا ہے اوراَب میں بارہ سال کے بیٹے کی ماں ہوں۔ تم سمجھتے ہوگے میں اس بڈھے جارج موہن کی سیکرٹری کسی مالی ضرورت کے تحت بنی ہوں تویہ تمھارا مغالطہ ہے۔ میراشوہربہت امیرآدمی ہے۔شہر میںاُس کا بہت بڑا کاروبار ہے اورسیکڑوں لوگ اُس کے ہاں ملازم ہیں۔میں تو…… اچھا چلو چھوڑو۔تم زندگی سے اپنا حصہ کیوں نہیں لے لیتے ؟جوان ہو' خوب صورت ہو اورپھرقابل بھی۔''
وہ مسلسل خاموش تھا اورمس رچنااُس پراپناآپ ظاہر کر کے جاچکی تھی۔اُسے یوں محسوس ہورہاتھا جیسے اُس کے بازوکندھوںکے جوڑوں سے اُکھڑ کرزمین پرگرنے جارہے ہوں۔وہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے کوسہارا دینے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ ری پیٹر گن اُس کے ہاتھ سے گرکر کیبن کے ایک کونے میں لڑھک گئی اور وہ خود کرسی پرڈھے گیا۔ ایک معمولی سیکورٹی گارڈ کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے جوکسی کے سامنے لب کشائی کی جرأت کرسکے۔سکوت کی تہہ اُس کی زندگی پرپڑی تومسلسل چٹان بنتی گئی اور وہ پتھر ہوگیا۔
بہت دنوں بعداُسے اپنے زندہ ہونے کا گمان گزرا تو وہ اپنا حصہ ڈھونڈنے کے لیے انسانوں کے ریلے میں بہہ گیا۔اُس نے بہت کوشش کی کہ وہ اُن پنڈلیوں کوبھول جائے مگروہ توجیسے اُس کے دماغ میں اُگی ہوئی تھیں' کسی کروٹ اُسے چین ہی نہیں لینے دیتی تھیں۔وہ زندگی سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے بہت لمباسفرکرآیاتھا۔اَب وہ سیکورٹی گارڈ چھوٹی سی فرم کامالک تھا اورایک خوب صورت سیکرٹری ہروقت اُس کے سامنے موجود رہتی' پورے پکے ہوئے پھل کی طرح۔وہ جب چاہتا اُسے کھا سکتاتھا۔اُس کی پنڈلیاں رچنا سے کہیں زیادہ پُرکشش تھیں مگراُس کے لیے نہیں۔وہ تواپنی اس حِس کوپندرہ سال پہلے گروی رکھ آیاتھا۔
وہ صبح اُس کے لیے بہت تحیرخیزاورفرحت آمیزتھی جب عینی نے اُس کے دفترمیں ملازمت کے لیے درخواست دی تھی۔عینی نے اُس کے سوئے ہوئے جذبات کوجھجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اُس کی سنہری پنڈلیاں اُسے رچنا سے بھی خوب صورت دکھائی دی تھیں۔وہ یہ موقع ضائع نہیں کرناچاہتاتھا'اس لیے فوراً اُسے ملازمت دے دی۔وہ چاہتاتھا فوراً ان سارے خوب صورت لمحوں کواپنی بانہوں میں سمیٹ لے اورزندگی سے اپنا پورا پورا حصہ وصول کرلے اورپھول کا سارا رس کشیدکرلے مگرہرباراُس کے اندرموجود بزدل سیکورٹی گارڈ اُس کا راستہ روک لیتا۔اسی کشمکش میں کئی ماہ گزر گئے اوراُس کا سفرسنہری پنڈلیوں کے طواف تک رہا۔اُس کی نگاہیں اسی عمل کومسلسل دہراتے جارہی تھیں۔بھونچال توتب آیاجب عینی نے اپنی شادی کا دعوت نامہ اُس کے سامنے رکھا اوراصرارکیاکہ وہ اُس کی شادی میں ضرور شریک ہو۔ایک بارپھراُس کے بازوکام چھوڑ چکے تھے اوروجود پرلرزہ طاری تھا۔اُس کی نظریں اس کے اپنے ہی جوتوں کو ماپتی تھیں۔عینی نے اُس کی حالت بگڑنے پرتشویش ظاہرکرتے ہوئے کہا'' سر! سب خیریت توہے؟'' پھرجلدی سے کانچ کے پیالے میں اُسے ٹھنڈاپانی ڈال کرپلایا۔لیکن اُس کے من میں روشن ہونے والا الاؤ اُسے جلاکرراکھ کررہاتھا۔اُس نے سوچاہربارزندگی میں اُسے ہی اپنے حصے کے لیے کیوں تگ ودوکرناپڑتی ہے۔وہ بڑبڑایا اورصرف اتنا کہا
''نہیں! اَب میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔''عینی چلی گئی مگروہ وقت کی بھاری سلوں تلے آچکا تھا۔ٹھنڈے پسینے اُسے نڈھال کررہے تھے۔پھراُس نے ایک فیصلہ کیا' بزدل سیکورٹی گارڈ کا نہیں بلکہ دلیرعاشق کا۔ کم ازکم وہ یہی سمجھتاتھا کہ وہ بہادرہے اورعشق اورجنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔
اُس کے آدمی عادل کواُٹھا کرلے آئے تھے اوراُس کے ہاتھ پشت کی جانب بندھے ہوئے تھے۔نکلتے ہوئے قدکایہ سانولاسانوجوان کسی بھی طرح عینی کے لائق نہیں ' پھر عینی اس سے کیوں شادی کرنے جارہی ہے؟ پھریہ دوٹکے کاچھورا عینی کودے بھی کیاسکتا ہے' جب کہ میں اُسے ہرطرح کی راحت دے سکتا ہوں۔محل نما بنگلے میں رکھ سکتا ہوں اورپوری محبت کرسکتا ہوں'پورے کا پورا اُس کا ہوسکتا ہوں۔اُس نے سوچا۔ پھراُس نے اپنے کوٹ کی جیب سے پستول نکال کرعادل کی کنپٹی پررکھ دی اورتلخ لہجے میں کہا ''چھوڑ دو عینی کو''
''اوہ… اب سمجھا'' عادل نے نہایت تیزی سے جواب دیا۔ '' میں اُسے نہیں چھوڑ سکتا'آپ چلائیں گولی'اس طرح آپ کا راستہ صاف اورمنزل آسان ہوجائے گی۔''نوجوان دھن کا پکا تھا۔اُس سے بھی زیادہ بہادراورمحبت کرنے والا۔ تب اچانک اُسے رچنا کے کہے ہوئے جملے یادآگئے۔اُس کی قوت کا میناراُس کے اندرہی گرکرچُور ہوچکاتھا اوروہ پستول کواپنی جیب میں ڈالنے کے بعدعادل سے مخاطب تھا:
ویل ڈن جوان! میں تمھیں آزما رہاتھا کہ تم عینی کے قابل ہوبھی کہ نہیں'تم امتحان میں پورے اُترے ہو۔تمھاری شادی دھوم دھام سے اور میرے اخراجات پرہوگی۔
پھرعینی سچ مچ عادل کی ہوگئی اورسیکورٹی گارڈ نے اُسے اس طرح بیاہا جیسے کوئی اپنی بیٹی بیاہتا ہے۔
آج اُسے رچنا بے طرح یادآرہی تھی اور اُس کی باتیں بھی۔اُسے لگاکہ وہ اُس کی کیبن میں آکراُس کی ٹھوڑی کے نیچے انگلی ٹکائے اُسے اپنی طرف دیکھنے کاحکم دے رہی ہے۔
٭٭٭٭​
www.khawarg.weebly.com
 
Top