مراحلِ عشق

جُدائی کی رات میں
تاروں کی چادر اوڑھ کے
تنہائی سے چُغلی کرتے ہوئے
فرقت کے آزاد لمحے
میرے کانوں میں تیرے نام کی شرگوشی کر جائیں

بِکھرتے خیال
اُمڈھتے خواب
مجھ پہ غالب تیری یادیں
بے جان تصویر کے نقش و نگار
مجھ پہ بجلی گرائیں، ہلچل مچا جائیں

پِھر خاموش گُونجیں
آہوں کی وادی میں کھو جائیں
آئینہ تکتے تکتے
جانے کیوں ، کب تک رو جائیں
دلِ شکستہ دے تسلی اور پھر چپکے سے ہم رو جائیں۔
(زیب جاوید شامی)
 
Top