-----------------------
ریختہ صفحات 111 تا 115
-----------------------
صفحہ 111
آئی، تیرھویں طشتری میں میں اکیلی تھی۔"
اصغری : کیا تم نے دوہرا حصہ لیا؟
حسن آرا : نہیں تو۔ میری طشتری آدھی ہی تھی۔ سب سے پوچھ لیجئے۔
اصغری : تم برادری سے الگ کیوں رہیں؟
حسن آرا تو چپ ہوئی، امتہ اللہ نے کہا " استانی جی، ان سب کے ساتھ کھاتے گھن آتی ہے۔"
حسن آرا: نہیں استانی جی۔ گھن کی بات نہیں۔ میں دسترخوان پر سب لڑکیوں سے پیچھے آئی۔ اس لئے اکیلی رہ گئی۔ آپ محمودہ سے دریافت لر لیجئے۔
امتہ اللہ: کیوں، تم ابھی تھوڑی دیر ہوئی میرا جھوٹا پانی پینے پر لڑ نہیں چکیں؟
حسن آرا: میں لڑی تھی یا صرف اتنی بات کہی تھی کہ جتنی پیاس ہوا کرے ، اسی قدر پانی لیا کرو۔ گلاس میں جھوٹا پانی چھوڑ دینا عیب کی بات ہے۔
پھر اصغری نے محمودہ سے پوچھا " وہ رسالہ خوان نعمت جو میں نے تم کو دیا تھا، اس میں کے تم سب کھانے پکا کر دیکھ چکیں یا ابھی نہیں؟
محمودہ نے تھوڑی دیر تامل کر کے کہا، "میں اپنی دانست میں سب پکوا چکی ہوں بلکہ کئی کئی بار نوبت آ چکی ہے۔ جتنی بڑی لڑکیاں ہیں ، معمولی روز مرہ کے کھانوں کی ترکیب سب کو معلوم ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ہر قسم کے کباب، سیخ کے، پسندوں کے ، شامی، گولیوں کے، کوفتے، معمولی پلاؤ ، قورمہ پلاؤ، کچی بریانی، نور محلی، زردہ ، متنجن، سموسے ، میٹھے سلونے، قلمی بڑے، دہی بڑے، سہال، سہو، گھی تلی دال ، کچوریاں، پاپڑا، بورانی، فیرینی، حلوا، سوہن، پپڑی کا، نرم اندر سے کی گولیاں، سب چیزیں بار بار پک چکی ہیں اور سب لڑکیوں نے پکتے دیکھیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے پکائی ہیں۔ اور یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے مکتب میں ہنڈ کلھیا کا تو نام ہے، جو چیز پکتی ہے خاصے ایک کنبے کے لائق پکتی ہے اور حسن آرا کو تو چٹنیوں اور مربوں سے بہت شوق ہے۔ یہ چیزیں ان کے سوائے اور لڑکیاں ذرا کم ہی جانتی ہیں۔"
اس کے بعد اصغری نے سفیہن سے کہا " بوا اب تم کو یہاں کی ہنڈ کلھیا کا فائدہ تو معلوم ہو گیا ہو گا۔ رات زیادہ ہو گئی۔ بعض لڑکیوں کے گھر دور ہیں۔ اگر کل آؤ تو گڑیوں کی سیر تم کو دکھائیں اور شام تک رہو تو کہانیاں بھی سنوائیں۔
صفحہ 112
سب لوگ رخصت ہوئے ۔ سفیہن چلتے چلتے اصغری کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی کہ استانی جی ، للہ میرا قصور معاف کیجئے گا۔
اگلے روز جو سفیہن آئی تو لڑکیوں کے کاڑھے ہوئے کشیدے، لڑکیوں کے بنے ہوئے گوٹے، لڑکیوں کے موڑے ہوئے گوکھرو، لڑکیوں کی بنائی ہوئی توئیاں اور چنیا، لڑکیوں کے قطع کئے ہوئے اور سیئے ہوئے مردانے اور زنانے کپڑے، اصغری نے سب دکھائے جن کے دیکھنے سے سفیہن کو نہایت اچھنبا ہوا۔ اس کے بعد لڑکیوں کی گڑیوں کے گھر دکھائے۔ ان کی گھروں میں خانہ داری کا سب لوازمہ فرش، فروش، گاؤ تکیے، اگالدان، چلمچی، آفتابہ، پٹاری، پردہ، چلمن، چھت گیری، پنکھا، مسہری، ہر طرح کے برتن، ہر طرح کا سامان آرائش، اپنے اپنے ٹھکانے سے رکھا ہوا تھا اور گڑیاں ایسی سجی ہوئی تھیں کہ عین مین شادی کے گھر میں مہمان جمع ہیں۔ جب گڑیوں کے گھروں کو دیکھ چکی تو اصغری نے سفیہن سے کہا کہ لڑکیاں کھیل کھیل میں گھر کا بندوبست، ہر طرح کی تقریبات، چھٹی، دودھ، چھٹائی، کھیر چٹائی، بسم اللہ، روزہ، منگنی ، عیدی، سانونی، محرم کی قفلیاں اور گوٹا، تیز تیوہار، ساچق، برسات، بہواڑ، بیاہ، چالے، چوتھی کی راہ و رسم سے واقفیت حاصل کرتی ہیں۔ بوا سفیہن، تمہاری لڑکی تو ابھی تھوڑے دنوں سے آتی ہے، جو لڑکیاں میرے مکتب میں بہت دنوں سے ہیں، جیسے یہ بیٹھی ام البنین، یا میری نند محمودہ یا حسن آرا، توبہ توبہ کر کے کہتی ہوں کہ اگر ان کو کسی بڑے بھرے پرے گھر کا انتظام اس وقت سونپ دیا جائے تو ان شاءاللہ ایسا کریں گی جیسے کوئی مشاق اور تجربہ کار کرتی ہے۔ میں صرف پڑھنے پر تاکید نہیں کرتی۔ پڑھنے کے علاوہ ان کو دنیا کا کام بھی بتاتی ہوں جو چند روز بعد ان کے سر پڑے گا۔
یہ کہہ کر اصغری نے حسن آرا کو بلایا اور کہا کہ بوا، تمہاری گڑیا کا گھر تو خوب آراستہ ہے۔ صرف ایک کسر ہے کہ تمہاری گڑیوں کے پاس رنگین جوڑے نظر نہیں آتے۔ کیا تم کو رنگنا نہیں آتا؟
حسن آرا: رنگ تو محمودہ بیگم نے مجھ کو بہت سے سکھا دیے ہیں۔ یوں ہی آلکسی کے مارے نہیں رنگے۔
اصغری: بھلا بتاؤ تو؟
حسن آرا: استانی جی، برسات کے رنگ، سرخ، نارنجی، گل انار، گل شفتالو، سروئی، دھانی،
صفحہ 113
اودا، جاڑے کے گیندئی، جوگیا، عنابی، کاہی، تیلی، کاکریزی، سیاہ، نیلا، گلابی، زعفرانی،کوکئی، کرنجوی، اور گرمی کے پیازی، آبی، چنپئی، کپاسی، بادامی، کافوری، دودھیا، خشخاشی، فالسئی، ملا گیری، سیندوریا رنگ تو بہت ہیں مگر میں وہی بیان کئے جو اکثر پہنتے ہیں۔
اصغری: رنگوں کے نام تو تم نے بہت گنوا دیے، بھلا یہ تو بتاؤ کہ یہ سب رنگ تم کو رنگنے بھی آتے ہیں؟
حسن آرا: میں نے ان ہی رنگوں کے نام لیے ہیں جو مجھ کو خود رنگنے آتے ہیں۔
اصغری: بھلا بتاؤ تو سروئی کیوں کر رنگتے ہیں؟
حسن آرا: کاہی قند اچھے گہرے رنگ کی آدھ گز منگوائی اور پانی کو خوب جوش کر کے پھٹکڑی کی ڈلی اوپر سے قند کا ٹکڑا ڈال کر ہلا دیا۔ پھٹکڑی کی تاثیر سے قند کا رنگ کٹ جائے گا۔ بس اس میں کپڑا رنگ لیا۔
اصغری: بھلا قند نہ ملے؟
حسن آرا: تو ٹیسو کے پھولوں کو جوش دے کر پھٹکڑی پیس کر ملا دی۔ سروئی ہو جائے گا۔ لیکن لکا کپاسی ہو گا۔ اچھا سروئی بے قند کے نہیں رنگا جاتا اور اگر قند کی جگہ بانات کا رنگ کاٹا جائے تو وہ عمدہ رنگ آتا ہے کہ سبحان اللہ! لیکن ان دنوں مجنٹن ایسا چلا ہے کہ سب رنگوں کو مات کیا ہے۔ کپڑے تو کپڑے مٹھائی کھانے کا گوٹا مجنٹن میں نہایت خوش رنگ رنگا جاتا ہے۔ بڑی آپا جان نے مجنٹن کے رنگ کا زردہ پکا کر بھیجا تھا۔ زعفران سے بہتر رنگ تھا۔
اصغری خانم نے گھبرا کر پوچھا " حسن آرا کہیں تم نے وہ مجنٹن کے رنگے ہوئے چاول کھائے تو نہیں؟
حسن آرا: میں نے کھائے تو نہیں ۔ لیکن استانی جی، کیوں؟ کچھ بری بات ہے؟
اصغری خانم: اے ہے! مجنٹن میں سنکھیا پڑتی ہے۔ خبردار! مجنٹن کی کوئی چیز زبان پر مت رکھنا۔
حسن آرا: میں نے تو مجنٹن کا رنگا ہوا گوٹا محرم میں بہت کھایا۔
اصغری خانم: کیا ہوا۔ رمق برابر مجنٹن میں تو بہتیرا گوٹا رنگا جاتا ہے۔ اس سبب سے تم کو کچھ نقصان نہ ہوا۔ لیکن یاد رکھو کہ اس میں زہر ہے۔
صفحہ 114
حسن آرا: مجنٹن کی رنگی ہوئی مٹھائی لوگ منوں کھاتے ہیں۔
اصغری خانم: بہت برا کرتے ہیں۔ زہر جب اپنی مقدار پر پہنچ جائے گا، ضرور اثر کرے گا۔
شام ہوئی تو لڑکیاں اپنے اپنے کشیدے اور کتابیں معمول کے مطابق کھیلنے اور کہانیاں اور پہیلیاں کہنے سننے کو آ بیٹھیں۔ اصغری نے سفیہن سے کہا کہ یہاں چڑے چڑیا کی کہانیاں نہیں ہوتیں۔ کہانیوں کی ایک عمدہ کتاب ہے، منتخب الحکایات جس میں بڑی اچھی اچھی کہانیاں ہیں اور ہر ایک کہانی ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔ اب یہ لڑکیاں اسی کتاب کی کہانیوں سے جی بہلائیں گی۔ کہانیاں کہنے سے ان کی تقریر صاف ہوتی ہے۔ ادائے مطلب کی استعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اور جب کبھی مجھ کو فرصت ہوتی ہے تو میں کہانیوں کے بیچ بیچ میں ان سے الجھتی جاتی ہوں اور جیسی ان کی سمجھ ہے، یہ میری بات کا جواب دیتی ہیں۔ اگر نادرست ہوتا ہے ، میں بتا دیتی ہوں۔ پہیلیوں کے بوجھنے سے ان کی عقل کو ترقی اور ان کے ذہنوں کو تیزی ہوتی ہے۔ لیکن تم ان میں بیٹھ کر سیردیکھو۔ مجھ کو آج عالیہ کی ماں نے بلا بھیجا ہے۔ ان کے بچے کا جی اچھا نہیں۔ بہت بہت منتیں کہلا بھیجی ہیں۔ نہ جاؤں گی تو برا مانیں گی اور میرا جی نہیں مانتا۔
سفیہن: ہاں، میں نے بھی سنا ہے کہ ان کے لڑکے نے کئی دن سے دودھ نہیں پیا۔ بیچاری بہت ہراساں ہو رہی ہیں۔ اے ہے! خدا کرے نگوڑا جیتا رہے۔ بڑی اللہ آمین کا بچہ ہے۔ دس برس میں پھڑک پھڑک کر خدا نے یہ صورت دکھائی ہے۔ عالیہ کے اوپر یہی تو ایک بچہ پیدا ہوا ہے۔ استانی جی، تم کو علاج کے واسطے بلایا ہو گا۔
اصغری: علاج ولاج تو مجھ کو کچھ بھی نہیں آتا۔ ایک مرتبہ پہلے اسی لڑکے کو پیاس ہو گئی تھی۔ میں زہر مہرہ، بنسلوچین، گلاب کا زیرا، چھوٹی الائچی، زیرے کی گری، کباب، چینی، خرفہ ، اسی طرح کی دو چار دوائیں بتا دی تھیں۔ خدا کا کرنا، لڑکا اچھا ہو گیا۔
سفیہن: استانی جی، تم تو ماشاءاللہ اچھی خاصی حکیم بھی ہو۔
اصغری: اجی اللہ اللہ کرو۔ حکیموں کا درجہ تو بہت بڑا ہے۔ میں بے چاری کیا حکیمی کروں گی۔ پر بات یہ ہے کہ ہمارے میکے میں دوا درمن کا بہت خیال ہے۔ جب میں چھوٹی تھی، جو دوا آتی ، میں ہی اس کو چھانتی، بناتی اور خیال رکھتی۔ اسی طرح پرسنی سنائی دو چار دوائیں
صفحہ 115
یاد ہیں جس کو ضرورت ہوئی بتا دی۔ اور بچوں کا علاج تو عورتیں ہی کر لیا کرتی ہیں۔ جب مشکل آ پڑتی ہے تو حکیم کے پاس لے جاتے ہیں۔
سفیہن: استانی جی، تم نے مہربانی کر کے مجھ کو اپنے مکتب کا سب انتظام تو دکھایا۔ اللہ ذرا دم کے دم ٹھہر جاؤ تو میں دیکھ لوں کہ لڑکیاں کیوں کر کہانیاں کہتی ہیں اور کہانیوں میں کیوں کر تم تعلیم کرتی ہو۔
اصغری: بوا، مجھ کو تو دیر ہوتی ہے۔ پر خیر، تمہاری خاطر ہے۔ اچھا لڑکیو، آج کس کی باری ہے؟
محمودہ: باری تو امتہ اللہ کی ہے لیکن فضیلت سے کہلائیے۔
اصغری: اچھا فضیلت جس کتاب میں سے تمہارا جی چاہے، جلدی سے کوئی بہت چھوٹی سی کہانی پڑھو۔
فضیلت نے کہانی شروع کی کہ ایک تھا بادشاہ ۔۔۔۔
اصغری: بادشاہ کس کو کہتے ہیں؟
فضیلت: جیسے دہلی میں بہادر شاہ تھے۔
اصغری: یہ تو تم نے ایسی بات کہی کہ جو دہلی اور بہادر شاہ کو جانتا ہو وہی سمجھے۔
فضیلت: بادشاہ کہتے ہیں حاکم کو۔
اصغری: تو کوتوال تھانے دار بھی بادشاہ ہیں؟
ٍفضیلت: نہیں کوتوال تھانے دار تو بادشاہ نہیں ہیں۔ یہ تو بادشاہ کے نوکر ہیں۔
اصغری: کیوں؟ کیا کوتوال حاکم نہیں ہے؟
فضیلت: حاکم تو ہے لیکن بادشاہ سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے اور سب پر حکم چلاتا ہے۔
اصغری: ہمارا بادشاہ کون ہے؟
فضیلت: جب سے بہادر شاہ کو انگریز پکڑ کر کالے پانی لے گئے، تب سے تو کوئی بادشاہ نہیں۔ یہ سن کر سب لڑکیاں ہنس پڑیں۔
اصغری: فضیلت، تم بڑی نادان ہو۔ تم نے خود کہا کہ جو سب سے بڑا حاکم ہو اور سب پر حکم چلائے، وہ بادشاہ ہوتا ہے اور یہ بھی جانتی ہو کہ بہادر شاہ کو انگریز پکڑ کر کالے پانی لے گئے تو انگریز بادشاہ ہوئے یا نہ ہوئے؟
-----------------------
ریختہ صفحات 111 تا 115 مکمل
-----------------------