ربیع م

محفلین
اندلس کے شہروں کا مرثیہ
اندلس جنت گم گشتہ جسے مسلمانوں نے اپنی نااہلی باہمی نااتفاقی اور اغیار کی بھرپور کوششوں اور سازشوں کی وجہ سے عرصہ دراز حکومت کے بعد اپنے ہاتھوں سے کھویا ، کوئی ایسا سانحہ نہ تھا جسے آسانی سے بھلایا جاسکے ،اور اس پر مستزاد مسلمانان اندلس پر صلیبیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے غیر انسانی اور وحشیانہ مظالم ، جبری تبدیلی مذہب کی سرتوڑ کوششوں اور جلاوطن کرنے پر مجبور کرنے نے اس سانحہ کو مزید اندوہناک بنا دیا، عرب شاعری میں اس سانحہ کے بارے میں بہت سے مرثیے کہے گئے ،ان میں ایک مشہور مرثیہ "قصیدہ نونیہ " کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ قصیدہ اندلس کے ادیب اور شاعر " ابوالبقاء صالح بن شریف الرندی الاندلسی " کا ہے ، جس سے میری پہلی شناسائی " ڈاکٹر ظہور احمد اظہر " کی کتاب " مرثیہ صقلیہ پر ایک نظر" کے مطالعہ کے دوران ہوئی ،اس کے بعد بھی بہت سی اردو کتب میں اس کا تذکرہ سننے کو ملا، انتہائی سادہ، دل کو موہ لینے والے الفاظ نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا،اس کا اردو میں ترجمہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ، کچھ اشعار کا ترجمہ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے اپنی کتاب " مرثیہ صقلیہ پر ایک نظر " میں کیا ہے لیکن مکمل ترجمہ مجھے دستیاب نہ ہو سکا ، تو خود ہی یہ ترجمہ کرنے کی کوشش کی ، عربی اور اردو دونوں زبانوں پر گرفت نہ ہونے کی وجہ سے یقینا یہ ترجمہ اس قصیدہ نونیہ کے شایان شان تو نہیں ، لیکن کم از کم مجھے ان الفاظ کا ٹوٹا پھوٹا مفہوم سمجھا کر ماضی کے ان دردناک ایام میں لے تو جاتا ہے ، مجھ جیسے شخص کیلئے شاید اتنا بھی بہت ہو۔
المقری نے ذکر کیا ہے کہ ابو البقاء کا یہ پر درد اور پر اثر قصیدہ اس قدر مقبول عام ہوا کہ بعد میں آنے والے لوگوں نے بعد کے المناک واقعات کے متعلق اضافی اشعار کہہ کر اس میں شامل کر دئیے ۔


اسی وجہ سے بہت سی جگہوں پر اشعار میں کچھ کمی بیشی اور الفاظ میں کچھ تبدیلی بھی موجود ہے ۔

اور شاید ابو البقاء صالح الرندی کی سب سے زیادہ شناخت بھی اسی "قصیدہ نونیہ " کے ذریعہ ہی ہے ۔

شاعر کا مختصر تعارف:

صالح بن یزید الرندی ابو البقاء ان کی کنیت ہے جس سے یہ مشہور ہوئے ۔

الرندی ، کی نسبت رندہ نامی گاؤں کی جانب ہے جو کہ اشبیلیہ کے مضافات میں واقع ہے ، جہاں یہ 601 ھ میں پیدا ہوئے اور 684 ھ میں ان کی وفات ہوئی ۔

انھوں نے "مملکت الموحدین " اور غرناطہ میں بنواحمر کا دور حکومت پایا۔یہ دور فکری ادبی سرگرمیوں سے بھرپور تھا ، لیکن اسی دور میں ہسپانویوں کے ہاتھوں یکے بعد دیگرے اندلسی شہروں کا سقوط عمل میں آیا۔

قصیدہ کہنے کی وجہ :

اس سلسلے میں مختلف آراء ہیں :

ابوالبقاء نے اپنی آنکھوں کے سامنے مختلف اندلسی شہروں کا سقوط اور مسلم امراء اور سلاطین کو ان شہروں سے دستبردار ہوتے دیکھ کر یہ قصیدہ کہا ۔

محمد بن یوسف جن کا لقب الغالب تھا سلطان غرناطہ اس کا شاہ قشتالہ کیلئے مختلف قلعوں اور شہروں سے دستبردار ہونے کے(665ھ) موقع پر کہا ۔

اشبیلیہ شہر کے سقوط کے بعد کہا۔


لكل شيءٍ إذا ما تم نقصانُ
فلا يُغرُّ بطيب العيش إنسانُ


ہر چیز جب مکمل (عروج پر پہنچ جائے )ہو جائے تو اس کے نقصان(زوال) کا آغاز ہو جاتا ہے
چنانچہ کسی بھی انسان کو عمدہ زندگی سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے


هي الامور كما شاهدتها دُولٌ
مَن سَرَّهُ زَمنٌ ساءَتهُ أزمانُ

یہ تو بدلتے ہوئے حالات ہیں جیساکہ تم نے مشاہدہ کیا
اگر کسی کو ایک زمانہ خوشی دیتا ہے تو کئی زمانے اسے تکلیف بھی دیتے ہیں


وهذه الدار لا تُبقي على أحد
ولا يدوم على حالٍ لها شان

یہ دنیا ہمیشہ کسی ایک کی نہیں رہتی
نہ یہ کسی ایک حال پر قائم رہتی ہے​
أين الملوك ذَوو التيجان من يمنٍ
وأين منهم أكاليلٌ وتيجانُ ؟


کہاں ہیں یمن کے تاجدار بادشاہ
اور ان کا تاج و تخت آج کہاں ہے


وأين ما شاده شدَّادُ في إرمٍ
وأين ما ساسه في الفرس ساسانُ ؟


ارم میں شداد کی بنائی ہوئی جنت کہاں ہے
فارسیوں کی ساسان میں بنیاد رکھی گئی سلطنت آج کہاں گئی


وأين ما حازه قارون من ذهب
وأين عادٌ وشدادٌ وقحطانُ ؟


قارون کے جمع کردہ سونے کے خزانے کیا ہوئے
عاد و شداد اور قحطان آج کہاں ہیں

أتى على الكُل أمر لا مَرد له
حتى قَضَوا فكأن القوم ما كانوا


ان سب پر اللہ کا اٹل حکم فنا آیا تو یہ سب مٹ گئے
یہاں تک کہ گویا یہ لوگ کبھی تھے ہی نہیں !

وصار ما كان من مُلك ومن مَلِك
كما حكى عن خيال الطّيفِ وسْنانُ


بادشاہت اور بادشاہ میں سے ہر ایک کا وہی حشر ہوا
جو اونگھ کی حالت میں آنے والے طیف خیال کا ہوتا ہے

فجائعُ الدهر أنواعٌ مُنوَّعة
وللزمان مسرّاتٌ وأحزانُ


دکھ دینے والی آفات زمانہ کا سلسلہ نوع در نوع ہے
اور زمانہ انسان کو کبھی خوشیاں دکھاتا ہے اور کبھی غموں سے دوچار کرتا ہے

وللحوادث سُلوان يسهلها
وما لما حلّ بالإسلام سُلوانُ


ان حوادث کیلئے صبر وتسلی کا کچھ نہ کچھ سامان ہوتا ہے جس سے ان کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے
لیکن جو آفات اسلام اور اہل اسلام پر پڑی ہیں ان کیلئے کوئی سامان تسلی نہیں ۔

دهى الجزيرة أمرٌ لا عزاءَ له
هوى له أُحدٌ وانهدْ ثهلانُ


الجزیرۃ ( جزیرۃ اندلس ) پر ایسی آزمائش آن پڑی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا
جو اگر احدیا ثہلان پہاڑ (نجد کا ایک عظیم پہاڑ) پر آگرتیں تو یہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتے

أصابها العينُ في الإسلام فامتحنتْ
حتى خَلت منه أقطارٌ وبُلدانُ


اسے (اندلس کو ) اسلام میں حاسدانہ نظر لگی چنانچہ اس پر آزمائشیں آن پڑیں
یہاں تک کہ اس (اسلام )سے شہر اور علاقے خالی ہوتے چلے گئے ۔
فاسأل (بلنسيةً) ما شأنُ (مُرسيةً)
وأينَ (شاطبةٌ) أمْ أينَ (جَيَّانُ)


پس بلنسیہ سے پوچھئے کہ مرسیہ کا کیا ہوا
اور شاطبہ یا جیان اب کہاں ہیں

وأين (قُرطبة)ٌ دارُ العلوم فكم
من عالمٍ قد سما فيها له شانُ


اور کہاں ہے قرطبہ دارلعلوم
جہاں کتنے ہی علماء کا مرتبہ بلند ہوا

وأين (حْمص)ُ وما تحويه من نزهٍ
ونهرهُا العَذبُ فياضٌ وملآنُ


اور کہاں ہے حمص(اشبیلیہ ) اور اس کی سبزہ پوش شادابیاں
اور اس کا دریا (وادی الکبیر ) جس کا پانی میٹھا اور لبالب بھرا تھا

قواعدٌ كنَّ أركانَ البلاد فما عسى
البقاءُ إذا لم تبقَ أركانُ


یہ عظیم شہر اندلس کے ستون تھے
پس جب یہ ستون ہی نہ رہے تو سقوط اندلس سے کون روک پائے گا

تبكي الحنيفيةَ البيضاءُ من أسفٍ
كما بكى لفراق الإلفِ هيمانُ


مسلمان شدت غم سے اس طرح روتے ہیں
جیسا کہ شدید محبت کرنے والا اپنے محبوب کی جدائی پر روتا ہے

على ديار من الإسلام خالية
قد أقفرت ولها بالكفر عُمرانُ


ان دیار پر جو کہ اسلام سے خالی ہو گئے
اسلام سے دوری ان کا مقدر ٹھہری اور کفر نے ان میں ٹھکانہ بنا لیا

حيث المساجد قد صارت كنائسَ
ما فيهنَّ إلا نواقيسٌ وصُلبانُ


جہاں مساجد کو کلیساؤں میں بدل دیا گیا
اور اب ان میں ناقوس اور صلیبوں کے علاوہ کچھ نہ بچا

حتى المحاريبُ تبكي وهي جامدةٌ
حتى المنابرُ ترثي وهي عيدانُ


یہاں تک کہ محراب بھی روتےہیں حالانکہ وہ جامد ( پتھر) ہیں
اور یہاں تک کہ منبر بھی روتے ہیں حالانکہ وہ محض پتھر ہیں ۔

يا غافلاً وله في الدهرِ موعظةٌ
إن كنت في سِنَةٍ فالدهرُ يقظانُ


اے غافل ( ان علاقوں کے مسلمانوں کو خطاب جو ابھی تک مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے ) اور تیرے لئے زمانے میں نصیحت ہے
اگر تو اونگھ یا خواب غفلت میں ہے تو زمانہ (دشمن)بہت بیدار ہے ۔

وماشيًا مرحًا يلهيه موطنهُ
أبعد حمصٍ تَغرُّ المرءَ أوطانُ ؟


راحت وآرام سے گھومنے پھرنے والے جسے اپنا وطن بہت لبھاتا ہے
کیا حمص کے بعد بھی انسان کو وطن دھوکہ دے سکتے ہیں

تلك المصيبةُ أنستْ ما تقدمها
وما لها مع طولَ الدهرِ نسيانُ


یہ وہ مصیبت ہے ( اندلسی شہروں کا سقوط) جس نے اپنے سے پچھلے تمام مصائب کو بھلا دیا
اور عرصہ دراز گزرنے کے باوجود بھی اس مصیبت کو بھلایا نہیں جاسکے گا۔

يا راكبين عتاق الخيلِ ضامرةً
كأنها في مجال السبقِ عقبانُ


اے عمدہ تضمیر شدہ گھوڑوں پر سوار ہونے والے (مسلمانان افریقہ کو خطاب ہے )
(ایسے گھوڑے ) گویا وہ دوڑ کے میدان میں عقاب ہوں

وحاملين سيُوفَ الهندِ مرهفةُ
كأنها في ظلام النقع نيرانُ


تیز دھار کاٹ دینے والی ہندی تلواریں اٹھائے ہوئے
گویا وہ( تلواریں ) گردوغبار کے اندھیرے میں چنگاریاں مارتی ہوئی آگ ہوں

أعندكم نبأ من أهل أندلسٍ
فقد سرى بحديثِ القومِ رُكبانُ ؟


کیا تمہارے پاس اہل اندلس کی کوئی خبر ہے
ان کے متعلق باتیں تو اب تمام سواروں کی زبانوں پر زدعام ہیں

ماذا التقاُطع في الإسلام بينكمُ
وأنتمْ يا عبادَ الله إخوانُ ؟


اسلام میں یہ باہمی قطع تعلقی وسنگ دلی کیسی
جب کہ تم اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی ہو

ألا نفوسٌ أبياتٌ لها هممٌ
أما على الخيرِ أنصارٌ وأعوانُ


کیا تم میں خوددار نفوس نہیں ہیں جو بلندپایہ ہمت کے مالک ہوں
کیا خیراور نیکی کی بنیاد پر مددکرنے والے تم میں ختم ہو گئے

يا من لذلةِ قومٍ بعدَ عزِّهمُ
أحال حالهمْ جورُ وطُغيانُ


ہائے کون ہے اس قوم کیلئے جسے عزت کے بعد ذلت سے دوچار ہونا پڑا
جن کی حالت میں یہ تبدیلی کفار و سرکشوں نے کی

بالأمس كانوا ملوكًا في منازلهم
واليومَ هم في بلاد الكفرِّ عُبدانُ


کل وہ اپنے گھروں میں بادشاہوں کی مانندتھے
اور آج وہ بلاد کفر میں غلام ہیں

فلو تراهم حيارى لا دليل لهمْ
عليهمُ من ثيابِ الذلِ ألوانُ


اگر تو انھیں دیکھے تو حیران و پریشان بغیر کسی رہنما کے ہوں گے
ان کے اوپر دشمن نے مختلف رنگ کے ذلت کے لباس پہنا رکھے ہیں

ولو رأيتَ بكاهُم عندَ بيعهمُ
لهالكَ الأمرُ واستهوتكَ أحزانُ


پس اگر تو فروخت کے وقت ان کا رونا دیکھے تو
یہ معاملہ تجھے اتنا عظیم دکھائی دے کہ تجھ پر غم ویاس کے بادل چھا جائیں ۔

يا ربَّ أمّ وطفلٍ حيلَ بينهما
كما تفرقَ أرواحٌ وأبدانُ


ہائے کتنی ہی ماؤں اور بچوں کے درمیان جدائی ڈال دی گئی
جس طرح جسم سے روح کھینچ لی جاتی ہے

وطفلةً مثل حسنِ الشمسِ إذ طلعت
كأنما هي ياقوتٌ ومرجانُ


اور کتنی ہی بچیاں جو طلوع ہوتے سورج کی مانند حسین تھیں
گویا کہ وہ یاقوت اور مرجان ہوں

يقودُها العلجُ للمكروه مكرهةً
والعينُ باكيةُ والقلبُ حيرانُ


ایک دشمن اسلام اسے اس کی ناپسندیدگی کے باوجود مکروہ کام کیلئے ہانکتا ہوا لے جاتا ہے
اور آنکھ ہے کہ رو رہی ہے اور دل حیران ہے

لمثل هذا يذوب القلبُ من كمدٍ
إن كان في القلبِ إسلامٌ وإيمانُ


ایسے مناظر پر ہی تو دکھ اور جلن کے مارے دل پگھلتا ہے
اگر دل میں اسلام اور ایمان کی دولت باقی ہے۔



 
مدیر کی آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
نیٹ گردی کے دوران یہ بہت سی آوازوں میں مل جائے گا ، لیکن مجھے ان سب میں سے یہ زیادہ پسند آیا۔

 

ربیع م

محفلین
مرثیہ طُلَیطلہ


اسلامی اندلس کے مرثیوں میں سے ایک مرثیہ طلیطلہ بھی ہے ، جو کسی گمنام شاعر کی تخلیق ہے ، مگر ہے بڑا پردرد ، اثرانگیز ، خوبصورت ، طلیطلہ قدیم اسلامی اندلس کے چار بڑے شہروں میں سےایک ہے ، قرطبہ پہلا یورپی اسلامی دارلحکومت ہے جسے اندلس کے اموی خلفاء کے عہد میں بڑاعروج اور عظمت حاصل ہوئی ۔ اشبیلیہ بنو عباد کا دارلحکومت تھا اور اسے معتمد ابن عبادکے حوالے سے بڑی عظمت و شہرت حاصل ہے ، غرناطہ اسلامی اندلس میں مسلمانوں کا آخری دارلحکومت اور بنو احمر کے قصر حمراء کا امین ہونے کی وجہ سے ساری دنیا جانتی ہے ، مگر طلیطلہ کو وہ عظمت وشہرت تو حاصل نہیں جو باقی تین شہروں کو حاصل ہے لیکن ملوک الطوائف کے ایک خاندان بنو ذوالنون کے عہد میں اسے بڑی اہمیت حاصل ہوئی ، اموی سلطنت کے زوال اور منصور بن عامر کی وفات کے بعد عرب اور بربر عداوت ، مخاصمت اور تصادم کے باعث اسلامی اندلس کو بہت برے دن دیکھنا پڑے ، قشتالہ اور ارغون کے عیسائی شروع میں باج وصول کرنے پر اکتفاء کرتے رہے اور جب یقین ہو گیا کہ اب اسلامی مشرق سے کوئی نہیں آئے گا تو ملوک الطوائف پر یلغار شروع کر دی ، اسی یلغار کے نتیجے میں طلیطلہ کا سقوط عمل میں آیا، عیسائی فاتحین نے مسلم مفتوحین کے ساتھ جو سلوک کیا وہ المناک اور شرمناک ہونے کے باوجود بھی بقیہ"امیر المومنینوں "کی آنکھ نہ کھول سکا۔

عیسائی راجہ اذقونش نے یوسف بن تاشفین کے ہاتھوں کاری ضرب کھانے اور زلاقہ میں عبرتناک شکست کھا نے سے قبل یکے بعد دیگرے ملوک الطوائف کو کچلنا اور اسلامی قلعوں اور شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا ۔ سات سال تک مسلسل طلیطلہ کا محاصرہ کئے رکھا مگر ملوک الطوائف کو امداد کی توفیق یا جرات نہ ہو سکی ۔ بالآخر علم ودانش کا یہ اسلامی مرکز سرنگوں ہونے پر مجبور ہو گیا، اس موقع پر صلیب کے علمبرداروں نے ہلال کے علمبرداروں کے ساتھ جو سلوک کیا ، اسے سن کر آج بھی انسانیت لرز ہ براندام ہوتی اور گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں ۔ سقوط طلیطلہ کے اس گمنا م شاعر نے 72 اشعار پر مشتمل مرثیہ کہا جو واقعات کی پر درد تصویر پیش کرتا ہے ، نفخ الطیب کا مصنف احمد المقری ہمارے شکر وتحسین کا مستحق ہے جس نے دیگر المناک واقعات اور قابل فخر کارناموں کو یکجا کر نے کے علاوہ اس قسم کے درد سے لبریز مرثیوں کو بھی محفوظ کر دیا ہے ، اس گمنام شاعر کے پردرد مرثیہ کے چند اشعار یہ ہیں :

طليطلة أباح الكفر منها حماها ،
إن ذا نبأ كبيرُ.
طلیطلہ کی محفوظ پناہ گاہ کو کفار نے لوٹ لیا
یہ تو بہت بڑی بھیانک خبر ہے ۔

فليس مثالها ايوان كسری
ولامنھا الخورنق والسدیر
جلال وجمال میں یہ شہر ایران کے کسریٰ ، خورنق اور سدیر ( شاہ حیرہ کے محل ) کو بھی مات کرتا تھا ۔

مُحصَّنة مُحسَّنة بعيد
تناولها و مطلبها عسير.
یہ شہر تو قلعہ تھا ، سراپا حسن تھا ، اس تک دست درازی تو دور کی بات اس تک رسائی بھی مشکل تھی ۔

أَ لَمْ تك معقلا للدين صعبا
فذلَّله كما شاء القديرُ .
کیا یہ شہر دین اسلام کا محفوظ قلعہ نہ تھا مگر قدرت نے اسے ذلیل کر دیا ۔

و أُخرِجَ أهلها منها جميعا
فصاروا حيث شاء بهم مصير .
اسکے تمام باشندے جلاوطن کر دئیے گئے ، اب وہ قدرت کا عذاب بھگتتے ہوئے بھٹکتے پھرتے ہیں ۔

وكانت دار إيمان و علم
معالمها التي طُمِسَت تنيرُ .
یہ ایمان اور علم کا گھر تھا ، اس کے وہ نشان جو نابود کردئیے گئے اسے روشن کرتے تھے ۔

مساجدها كنائس ، أيُّ قلب
على هذا يَقَرُّ و لا يطيرُ .
اس کی مساجد گرجوں میں بدل گئی ہیں ، کون سا دل ہو گا جو اس پر بے قرار ہو کر بکھر نہ جائے ۔

اذلت قاصرات الطرف کانت
مصونات مساکنها القصور
اس کی حسین دوشیزائیں جو محلات میں محفوظ تھیں ذلیل ہو کر ہوس کا نشانہ بن گئی ہیں ۔

وادرکها فتور فی انتظار
لسرب فی لواحظہ القصور
ان میں سے ایک دوشیزہ کھڑی ہے ، آنکھیں پتھرا گئی ہیں ، وہ ہوس کار گروہوں کی ہوس رانی کا شکار ہونے کی منتظر ہے ۔

وکان بنا و بالفتیات اولی
لو انضمت علی الکل القبور
ہمارے اور ان دوشیزاؤں کیلئے بہتر تو یہی ہے کہ ہم سب زمین میں دفن ہو جاتے !


اقتباس از
سقوط اندلس پر شعرائے اندلس کی مرثیہ خوانی
ڈاکٹر ظہور احمد اظہر​
 
مدیر کی آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
ارض اندلس ہم تجھے بھولے نہیں

ایک گمنام شاعر ( میرے علم کی حد تک ) کا تحریر کردہ قصیدہ ہے ، جو مجھے بہت پسند ہے ، خاص طور پر عالم عرب کے مشہور منشد ابو علی نے اسے گا کر اسے مزید چارچاند لگا دئیے ہیں ۔


مانسينا خبروها

كيف ينساها الولوع

ہم اسے بھولے نہیں اسے آگاہ کر دو

ایک دلدادہ شخص اسے کیسے بھلا سکتا ہے ۔


كيف يسلوها محب

بعدها عاف الهجوع

ایک محبت کرنے والا اسے کیسے بھلا سکتا ہے

جبکہ اسی نے اسے سکوں پہنچایا ہو


شاهد الليل عليه

وحكت عنه الدموع

رات اس بات پر گواہ ہے

بہتے آنسو اس کا قصہ سناتے ہیں


أنها حب مكين

عرشه بين الضلوع

کہ یہ بہت قیمتی محبت ہے

جو پسلیوں کے درمیان تخت نشیں ہے


كم تمنى أن يراها

لو ل۔ما فات رجوع

کتنی تمنا تھی کہ اسے دیکھا جائے

اگر میرے لئے اس میں لوٹ جانا ممکن ہوتا


صاربعدالوصل دهرا

في شذىالذكرىقنوع

اب تو وصال کو ایک زمانہ بیت گیا ہے

اب تو اس کی آنے والی خبروں پر ہی قناعت کرتے ہیں


قطفوا الزهرة منا

زهرة كانت تضوع

انھوں نے ہم سے ایک پھول چھینا

ایسا پھول جس کی مہک چہار سو پھیلی تھی


قد سقيناها دمانا

مثلها كيف يضيع

ہم نے اسے اپنا خون دے کر سیراب کیا تھا

اس جیسا کس طرح ضائع کیا جاسکتا ہے


جنة عنها لهينا

فطردنا بالجموع

وہ ایک جنت تھی جس کی ہم نے ناقدری کی

چنانچہ ہم سب کو اس سے نکال باہر کیا گیا


وبها عشنا قرونا

للدياجير شموع

جہاں ہم نے صدیاں بتا دیں

جو تاریکیوں میں شمع کی حیثیت رکھتا تھا


يعجب الشرق علاها

ولها الغرب خضوع

مشرق کو اس کی بلندی پسند تھی

اور مغرب اس کے تابع تھا


ياربى الاندلس الخضراء

ياطيب الربوع

اے میرے رب ہائے وہ اندلس خضراء

ہائے وہ بہاروں کی خوشبوئیں


كم لك اشتاق فؤاد

وبك هام ولوع

کتنے ہی دل تیرے لئے مشتاق ہیں

اور محبت کرنے والے تیرے ہی دیوانے ہیں ۔


نسأل الرحمن يوما

فيه نأتيك جموع

ہم رحمٰن سے اس دن کا سوال کرتے ہیں

جب ہم اکٹھے ہو کر تجھ میں آئیں
 

ربیع م

محفلین
اندلس کی تاریخ کا تذکرہ ہو یا اندلس کی شاعری ، ملوک الطوائف کا تذکرہ لازمی ملے گا ، یہ وہ دور تھا جب پورے اندلس میں انتشار کا عالم تھا اور ہر چھوٹے علاقے کا الگ سے حاکم تھا۔
ڈاکٹر طارق سویدان کی کتاب" اندلس کی تصویر ی تاریخ " سے ملوک الطوائف کا نقشہ ذیل میں پیش کر رہا ہوں ، جس میں مرکزی حکومت سے علیحدگی کی ترتیب کے لحاظ سے ان کی نمبرنگ کی گئی ہے ۔



 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
اندلس جنت گم گشتہ جسے مسلمانوں نے اپنی نااہلی باہمی نااتفاقی اور اغیار کی بھرپور کوششوں اور سازشوں کی وجہ سے عرصہ دراز حکومت کے بعد اپنے ہاتھوں سے کھویا
سوال یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اندلس کھو دیا۔ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ مسلمان جزیرہ نما عرب سے ہزاروں میل دور اندلس میں 700 سال تک کیا کر رہے تھے؟
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
اور اس پر مستزاد مسلمانان اندلس پر صلیبیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے غیر انسانی اور وحشیانہ مظالم ، جبری تبدیلی مذہب کی سرتوڑ کوششوں اور جلاوطن کرنے پر مجبور کرنے نے اس سانحہ کو مزید اندوہناک بنا دیا
اول اندلس عرب یا بربر مسلمانوں کا آبائی وطن نہیں تھا۔ انہوں نے اندلس کیخلاف جہاد کر کے اسے حاصل کیا تھا۔ تاریخی ہسپانیہ کا نام اندلس رکھ دینے سے یہ مسلمانوں کی ملکیت نہیں بن جاتا۔ یعنی جب اندلس پر مسلمانوں نے قبضہ کیا وہ مسلمانوں کا وطن نہیں تھا اور جب انکو وہاں سے مسیحی ہسپانیوں نے بھگایا گیاتب بھی وہ انکا ملک نہیں تھا۔ اندلس یا ہسپانیہ وہاں کے مقامی لوگوں کا تھا، ہے اور رہے گا۔
یہی بات اسرائیل پر بھی صادق آتی ہے جسکا نام فلسطین رکھ دینے سے وہ عرب مسلمانوں کا آبائی وطن نہیں بن جاتا۔ ہمیشہ سے یہودیوں کا آبائی وطن ہی تھا، ہے اور رہے گا۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
عیسائی فاتحین نے مسلم مفتوحین کے ساتھ جو سلوک کیا وہ المناک اور شرمناک ہونے کے باوجود بھی بقیہ"امیر المومنینوں "کی آنکھ نہ کھول سکا۔
مسلمان فاتحین بھی مفتوحین کیسے کیا کیا کرتے رہے، اسپر بھی روشنی ڈال دیں۔
 

arifkarim

معطل
اندلس کی تاریخ کا تذکرہ ہو یا اندلس کی شاعری ، ملوک الطوائف کا تذکرہ لازمی ملے گا ، یہ وہ دور تھا جب پورے اندلس میں انتشار کا عالم تھا اور ہر چھوٹے علاقے کا الگ سے حاکم تھا۔
مسلمانوں نے جہاں کہیں بھی حکومت کی ہے، وہاں گاہے بگاہے انتشار پھیلتا رہتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ مشرق سے مغرب کسی بھی اسلامی سلطنت کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔
 

ربیع م

محفلین
بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ مسلمان جزیرہ نما عرب سے ہزاروں میل دور اندلس میں 700 سا ل تک کیا کر رہے تھے؟

سوال یہ ہے کہ کیا اسلام یا مسلمان صرف عربوں تک محدود ہیں ؟
مسلمان فاتحین بھی مفتوحین کیسے کیا کیا کرتے رہے، اسپر بھی روشنی ڈال دیں۔

بالکل ایک چھوٹا سا موازنہ کر لیں ، جب عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو کتنا قتل عام ہو ااور جب بھی مسلمانوں نے اس پر قبضہ کیا تو کتنا قتل عام ہوا؟

یا میرے خیال میں اسی اندلس سے دور نے جائیں ، جب مسلمان فاتحین تھے ، اور جب غیر مسلم فاتحین تھے ،ان دونوں کے طرزعمل کو ہی ڈسکس کر لیں ؟

مسلمانوں نے جہاں کہیں بھی حکومت کی ہے، وہاں گاہے بگاہے انتشار پھیلتا رہتا ہے۔

غیر مسلموں کے اتحاد ویگانگیت کے تو ہم قائل ہی ہو گئے ، ابھی دو دن پہلے ہی ہم پر انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستان ایک متحدہ مملکت اور اہل ہند ایک قوم تھے ، اسلام کی آمد سے پہلے ۔

تاریخی ہسپانیہ کا نام اندلس رکھ دینے سے یہ مسلمانوں کی ملکیت نہیں بن جاتا۔ یعنی جب اندلس پر مسلمانوں نے قبضہ کیا وہ مسلمانوں کا وطن نہیں تھا
شایدآپ کو اندلس کی وجہ تسمیہ کا علم نہیں ، اندلس نام کی نسبت مسلمانوں کی جانب نہیں ہے ۔

ہمیشہ سے یہودیوں کا آبائی وطن ہی تھا، ہے اور رہے گا۔

ہمیشہ سے یہودیوں کا وطن تھا ، یہ بات تو آپ کی یکسر غلط ہے ، اور" رہے گا " کے بارے میں آنے والے دن فیصلہ کریں گے میں اور آپ نہیں ۔
 

arifkarim

معطل
سوال یہ ہے کہ کیا اسلام یا مسلمان صرف عربوں تک محدود ہیں ؟
جی نہیں ، مگر ہسپانیہ پر حملہ عرب و بربر مسلمانوں نے کیا تھا اور حکمران بنو امیہ کے خاندان سےتھا۔ یعنی عرب مسلمانوں کی حکومت تھی۔

بالکل ایک چھوٹا سا موازنہ کر لیں ، جب عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو کتنا قتل عام ہو ااور جب بھی مسلمانوں نے اس پر قبضہ کیا تو کتنا قتل عام ہوا؟
یہ کیسا موازنہ ہے؟ اگر مسیحیوں کے یروشلم پر قبضہ کا موازنہ ہی کرنا ہے تو عرب مسلمانوں کے فارس یعنی ایران پر حملے اور قبضے کے واقعات پڑھ لیں۔

شایدآپ کو اندلس کی وجہ تسمیہ کا علم نہیں ، اندلس نام کی نسبت مسلمانوں کی جانب نہیں ہے ۔
اندلس نام تاریخ میں پہلی بار خلافت قرطبہ کے سکوں پر نظر آیا تھا، 716-717 عیسوی میں:
Umayyads_dinar_711804.jpg

اس سے پہلے یہ علاقہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے اسکو نیا نام دیا۔

ہمیشہ سے یہودیوں کا وطن تھا ، یہ بات تو آپ کی یکسر غلط ہے ، اور" رہے گا " کے بارے میں آنے والے دن فیصلہ کریں گے میں اور آپ نہیں ۔
یہود یعنی بنی اسرائیل کا تعلق اسی خطےسے ہمیشہ جڑا رہا ہے۔ یہ لوگ اس علاقے کے باسی ہیں۔ جبکہ عرب جزیرہ نما عرب سے آئے ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
جی نہیں ، مگر ہسپانیہ پر حملہ عرب و بربر مسلمانوں نے کیا تھا اور حکمران بنو امیہ کے خاندان سےتھا۔ یعنی عرب مسلمانوں کی حکومت تھی۔
جی نہیں میں خود آپ نے جواب دے دیا ہے کہ کیوں حملہ کیا ، اب یہ الگ بات ہے کہ وہ وجہ آپ کے نزدیک قابل قبول ہو یا نا ہو۔

یہ کیسا موازنہ ہے؟ اگر مسیحیوں کے یروشلم پر قبضہ کا موازنہ ہی کرنا ہے تو عرب مسلمانوں کے فارس یعنی ایران پر حملے اور قبضے کے واقعات پڑھ لیں۔

یہ موازنہ کیوں پسند نہیں آیا، چلئے خیر آپ کے مطابق ہی فارسیوں پر حملہ کے وقت مسلمانوں نے اہل فارس پر جو ظلم وستم ڈھائے ، جو محکمہ تفتیش اور جبری مذہب تبدیلی ۔۔۔۔ وغیرہ جو کچھ بھی کیا وہ آگاہ کر کے ہم پر احسان فرمائیں ۔

اندلس نام تاریخ میں پہلی بار خلافت قرطبہ کے سکوں پر نظر آیا تھا، 716-717 عیسوی میں:

خلافت قرطبہ آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ 316 یا 317 ھ میں قائم ہوئی تھی اس سے پہلے خلافت قرطبہ کانام ونشان بھی نہیں تھا ۔پڑھ لیجئے گا اور ہجری کو میلادی سن میں خود ہی تبدیل کر لیں ۔

اس سے پہلے یہ علاقہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے اسکو نیا نام دیا۔

اندلس کی نسبت مسلمانوں کی جانب نہیں ہے بلکہ جرمن سے آنے والے حملہ آور ونڈال قبیلے کی جانب ہے ،اس کے علاوہ بھی کچھ وجہ تسمیہ بیان کی جاتی ہیں البتہ ان سب کی نسبت بھی مسلمانوں کے بجائے ان سے پہلے آنے والے غیر مسلم حملہ آوروں کی جانب رہی ہے ۔ البتہ مسلمانوں نے اندلس کے دیگر کئی ناموں کی جگہ اسے زیادہ رائج کیا۔

یہود یعنی بنی اسرائیل کا تعلق اسی خطےسے ہمیشہ جڑا رہا ہے۔ یہ لوگ اس علاقے کے باسی ہیں۔ جبکہ عرب جزیرہ نما عرب سے آئے ہیں۔

شکر ہے ہمیشہ وطن رہاہے سے تعلق جڑنے پر تو آئے ورنہ مجھے آپ سے پوچھنا پڑتا کہ ارض فلسطین میں آج سے 200 یا 300 سال پہلے یہودیوں کی آبادی کتنی تھی ۔
 

arifkarim

معطل
جی نہیں میں خود آپ نے جواب دے دیا ہے کہ کیوں حملہ کیا ، اب یہ الگ بات ہے کہ وہ وجہ آپ کے نزدیک قابل قبول ہو یا نا ہو۔
میں نے حملے کی وجہ بیان نہیں کی۔ صرف اتنا لکھا تھا کہ کس نے کس پر حملہ کیا۔

یہ موازنہ کیوں پسند نہیں آیا، چلئے خیر آپ کے مطابق ہی فارسیوں پر حملہ کے وقت مسلمانوں نے اہل فارس پر جو ظلم وستم ڈھائے ، جو محکمہ تفتیش اور جبری مذہب تبدیلی ۔۔۔۔ وغیرہ جو کچھ بھی کیا وہ آگاہ کر کے ہم پر احسان فرمائیں ۔
قتال، جبری غلامی، جبری تبدیلی مذہب، لوٹ مار
پیروزنہاوندی ایک فارسی غلام جو مال غنیمت کیساتھ مدینہ لایا گیا تھانے بالآخر دوسرے خلیفہ اسلام حضرت عمر کو شہید کر دیا۔ اور یوں اپنے ملک کی تباہی کا بدلہ لیا۔

خلافت قرطبہ آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ 316 یا 317 ھ میں قائم ہوئی تھی اس سے پہلے خلافت قرطبہ کانام ونشان بھی نہیں تھا ۔پڑھ لیجئے گا اور ہجری کو میلادی سن میں خود ہی تبدیل کر لیں ۔
میری مراد امارت قرطبہ سے تھی جو اس زمانہ میں خلافت بنو امیہ کا ہی حصہ تھی۔ خلافت قرطبہ بطور آزاد خلافت تو بہت بعد میں بنی۔

اندلس کی نسبت مسلمانوں کی جانب نہیں ہے بلکہ جرمن سے آنے والے حملہ آور ونڈال قبیلے کی جانب ہے ،اس کے علاوہ بھی کچھ وجہ تسمیہ بیان کی جاتی ہیں البتہ ان سب کی نسبت بھی مسلمانوں کے بجائے ان سے پہلے آنے والے غیر مسلم حملہ آوروں کی جانب رہی ہے ۔ البتہ مسلمانوں نے اندلس کے دیگر کئی ناموں کی جگہ اسے زیادہ رائج کیا۔
جی آپکی بات درست ہے۔ میں نے اندلس نام کی نسبت کچھ نہیں کہا بلکہ یہ لکھا تھا کہ مسلمانوں نے اس علاقے کو ایک نیا نام دیا۔

شکر ہے ہمیشہ وطن رہاہے سے تعلق جڑنے پر تو آئے ورنہ مجھے آپ سے پوچھنا پڑتا کہ ارض فلسطین میں آج سے 200 یا 300 سال پہلے یہودیوں کی آبادی کتنی تھی ۔
یہ ارض فلسطین نہیں ارض اسرائیل ہے۔ رومیو ں نے اس علاقے میں یہودیوں کی بار بار بغاوت سے تنگ آکر اسکا نام یہودا-اسرائیل سے بدل کر شام-فلسطین کر دیا تھا جو شام کے الگ ہو جانے کے بعد خالی فلسطین رہ گیا۔ جب مسلمان عرب یہاں قابض ہوئے تو وہی نام چلتا رہا جو رومی دیکرگئے تھے۔
1948 ،ارض اسرائیل میں صیہونی یہود کی مملکت بننے کے بعد اسے اسکے اصل نام اسرائیل سے پکارا جانے لگا۔ جبکہ فلسطین کا نام و نشان مٹ گیا کیونکہ اسکی اپنی کوئی شناخت یا پہچان ہی نہیں تھی۔ رومیوں اور عرب فاتحین کی باقیات تھیں۔
 
آخری تدوین:

عارضی کے

محفلین
جناب عارف صاحب!
لگتا ہے آپ نے تاریخ پڑھنے میں یا تو بے اعتدالی کی ہے اور یا پڑھی ہی نہیں۔ اور یا آپ نے ایک ہی بار کوئی کتاب پڑھ کر اپنی سوچ کو اسی ڈگر پر ڈال کر اطمینان حاصل کرلیا۔
تعجب ہے کہ تاریخ جیسی اہم موضوع میں آپ ایسی غلط فہمی کا شدید شکار ہےاور مختلف پیرایوں میں ایک ہی بات کو بار بار دہرارہے ہیں۔
آج بھی اسرائیل میں کئی دانشور سطح کےافراداس صہیونی ریاست (جسے آپ یہودی ریاست کہہ رہے ہیں )کے شدید مخالف ہیں۔
1۔ آپ کو چیلنج ہے کہ آپ یہ ثابت کریں کہ فلسطین یہودیوں کی اصل زمین ہے۔
دوسرا سوال اس کے بعد ہوگا۔
شکریہ۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
آج بھی اسرائیل میں کئی دانشور سطح کےافراداس صہیونی ریاست (جسے آپ یہودی ریاست کہہ رہے ہیں )کے شدید مخالف ہیں۔
اسرائیل پاکستان ہی کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اور جس طرح پاکستان کے اندر مختلف سیاسی یا مذہبی جماعتیں ملک کے قیام کے خلاف ہیں، ویسے ہی اسرائیل میں بھی یہی حال ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔

1۔ آپ کو چیلنج ہے کہ آپ یہ ثابت کریں کہ فلسطین یہودیوں کی اصل زمین ہے۔
میرا ریل اسٹیٹ بزنس سے دور دور تک بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ کسی ایجنٹ کو ڈھونڈیں جو آپکے لئے یہ کام کر سکے۔
 
آخری تدوین:
Top