عارضی کے

محفلین
اسرائیل پاکستان ہی کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اور جس طرح پاکستان کے اندر مختلف سیاسی یا مذہبی جماعتیں ملک کے قیام کے خلاف ہیں، ویسے ہی اسرائیل میں بھی یہی حال ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔


میرا ریل اسٹیٹ بزنس سے دور دور تک بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ کسی ایجنٹ کو ڈھونڈیں جو آپکے لئے یہ کام کر سکے۔
تو پھر آپ یہودیوں کے رئیل اسٹیٹس کے ڈاکومنٹس لیے پھرے کیا چاہتے ہیں؟
 

ربیع م

محفلین
ہمیشہ سے یہودیوں کا آبائی وطن ہی تھا، ہے اور رہے گا۔

یہود یعنی بنی اسرائیل کا تعلق اسی خطےسے ہمیشہ جڑا رہا ہے۔ یہ لوگ اس علاقے کے باسی ہیں۔ جبکہ عرب جزیرہ نما عرب سے آئے ہیں۔

ایک طالب علم کی حیثیت سے اس کی مزید وضاحت درکار ہے براہ مہربانی اس پر روشنی ڈالئے ۔
 

arifkarim

معطل
ایک طالب علم کی حیثیت سے اس کی مزید وضاحت درکار ہے براہ مہربانی اس پر روشنی ڈالئے ۔
یہود کی اس علاقے میں تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ ظہور اسلام سے 1600سال قبل یہاں حضرت داؤد اور سلمان کے زیر تحت سلطنت اسرائیل موجود تھی۔ جبکہ فلسطین غزہ کی پٹی تک محدود تھا:
TheUnitedKingdomOfIsrael.png~original

عرب اسلامی فتوحات کے بعد یہ علاقہ سنہ 637 عیسوی میں مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔
 

ربیع م

محفلین
اس علاقے میں بسنے والی اولین قوم کو ن سی تھی ؟
کنعانی اور آموری کون تھے؟
بنو اسرائیل سب سے پہلے اس علاقے میں کب آبسے اور پہلی بار کتنی مدت کیلئے رہے ؟
 

arifkarim

معطل
اس علاقے میں بسنے والی اولین قوم کو ن سی تھی ؟
کنعانی اور آموری کون تھے؟
بنو اسرائیل سب سے پہلے اس علاقے میں کب آبسے اور پہلی بار کتنی مدت کیلئے رہے ؟
تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کا ذکر 1209 قبل مسیح میں ملتا ہے۔
کنعانی اور آموری بھی اسرائیلیوں کی طرح اسی علاقے کی قومیں ہیں۔
متحدہ سلطنت اسرائیل کم و بیش سو سال تک چلی اور بعد میں سلطنت یہود و سلطنت اسرائیل میں بٹ گئی۔
 

ربیع م

محفلین
تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کا ذکر 1209 قبل مسیح میں ملتا ہے۔
کنعانی اور آموری بھی اسرائیلیوں کی طرح اسی علاقے کی قومیں ہیں۔
متحدہ سلطنت اسرائیل کم و بیش سو سال تک چلی اور بعد میں سلطنت یہود و سلطنت اسرائیل میں بٹ گئی۔

کنعانی اور آموری اس علاقے کے پہلے متفقہ باسی تھے ، اگر چہ ان سے پہلے نطوفی قبائل کی موجودگی کے اشارے ملتے ہیں لیکن اس بارے میں صحیح تفصیل میسر نہیں ۔
کنعانی اور آموری دونوں عرب قبائل تھے جو کہ بنواسرائیل سے کئی سو سال پہلے یہاں بستے تھے ۔
اور صرف کنعانی اور آموری ہی نہیں بلکہ بہت سے عرب قبائل اپنے علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں بستے رہے جن میں سے "الیبیسیون " القدس شہر میں آباد ہوئے ۔
اسی لئے ارض فلسطین کنعانیوں کی نسبت سے متفقہ طور پر ارض کنعان کے نام سے مشہور ہے ، اور یہ واضح طور پر آسمانی کتابوں تورات اور انجیل میں بھی ملتا ہے ۔جبکہ کتب تاریخ یا آسمانی کتابوں میں اس دورانئے کے دوران یہود کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔

تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے دونوں بیٹے اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام فلسطین میں پیدا ہوئے ، لیکن یہ ارض فلسطین میں بطور مہاجر آئے تھے ، یہاں کے باشندے نہیں تھے ،پھر یوسف علیہ السلام کو غلام بنا کر مصر لے جایا گیا ، وہاں اللہ رب العزت نے انھیں حکومت عطا کی ،اور انھوں نے اپنے باپ یعقوب علیہ السلام اور اپنے تمام بھائیوں کو مصر بلوا لیا۔اور اس طرح ارض فلسطین میں ان کی سکونت ختم ہو گئی۔
چنانچہ یعقوب علیہ السلام کی ایک نسل بھی فلسطین میں نہیں رہی ، اور نہ ہی یہ کہاجاسکتا ہے کہ فلسطین یعقوب علیہ السلام کا اصلی وطن تھا۔
 

arifkarim

معطل
کنعانی اور آموری دونوں عرب قبائل تھے جو کہ بنواسرائیل سے کئی سو سال پہلے یہاں بستے تھے ۔
کعنانی اور آموری عرب کب سے بن گئے؟ عربی زبان و تہذیب کا ظہور تو بہت بعد میں ہوا۔

اور اس طرح ارض فلسطین میں ان کی سکونت ختم ہو گئی۔
کچھ عرصہ کیلئے ختم ہوئی۔ واپسی بھی تو ہوئی تھی۔
 

عارضی کے

محفلین
جناب اس خطے کی تاریخ کو شروع کرنا ہے تو تھوڑا پیچھے آئیے آپ اسی ریاست اسرائیل کے زمانے پر اٹکے ہوئے ہیں!
ان صاحب کے ساتھ مسئلہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیلی ریاست سے پہلے کا زمانہ شائد ویکی پیڈیا پر دستیاب نہیں ہوگا۔:)
 

ربیع م

محفلین
مرثیہ ابن الآبار

اندلس میں موحدین کے زوال کے بعد ایک بار پھر اسلامی شہر اور قلعے اہل صلیب کی زد میں تھے ، اسلامی اندلس پر جو تباہی وبربادی نازل ہوئی اور مسلمانوں کو جس ذلت اور بے بسی سے دوچار ہونا پڑا اس کی روئیداد غم والم سنانے والے ہمیشہ کی طرح اب بھی محدثین اور علمائے امت ہی تھے جو مسلمانان اندلس کی فریاد لے کر اسلامی مشرق خصوصا شمالی افریقہ کے مسلم حکمرانوں کے پاس آتے رہے ، کبھی یوسف بن تاشفین اور کبھی عبدالمومن بن علی کے پاس ، اب کے مراکش کی حفصی حکومت کے بادشاہ ابو زکریا بن ابی حفصی کے پاس اندلس کا مشہور محدث عالم ادیب اور شاعر ابو عبداللہ بن الابار فریادی بن کر آیا تھا ،اس کا سڑسٹھ اشعار پر مشتمل ایک سینیہ قصیدہ ہے جو اسلام ی اندلس کے بہترین مراثی میں شمار ہوتا ہے ، اس کا مطلع اور چند اشعار یہاں ذکر کئے جاتے ہیں :

أدركْ بخيلك خيل الله أندلسا
إن السبيل إلى منجاتها دَرَسَا

اے بادشاہ اپنے شہسواروں کو ساتھ لے جو اللہ کے شہسوار ہیں اور اندلس کی فریادرسی کو پہنچ ، کیونکہ اس کی آزادی و نجات کے امکانات نابود ہو چکے ہیں ۔

وهب لها من عزيز النصر ما التمست
فلم يزل منك عز النصر ملتمَسا

اہل اندلس کی غالب آنے والی مدد کر جیساکہ تجھ سے مانگی گئی ہے کیونکہ غالب آنے والی مدد تو تجھ سے ہی مطلوب ہوتی ہے ۔
يا للجزيرة أضحى أهلها جزرا
ًللحادثات وأمسى جدها تعسا

آہ !جزیرہ اندلس !!اس کے باشندے تو مذبح خانے کے جانوربن چکے ہیں جو حوادث کی زد میں ہیں اور اندلس کا مقدر تو اب بد نصیبی ہے ۔

في كل شارقة إلمام بائقة
يعود مأتمها عند العدى عُرُسا

ہر طلوع ہونے والا سورج ایک بجلی بن کر گرتا ہے اس کا ماتم ہمارا حصہ ہے مگر یہی دشمنوں کے لئے شادمانی بن جاتا ہے ۔

وكل غاربة إجحاف نائبة
تثني الأمان حِذاراً والسرور أسى

ہر ڈوبنے والا سورج دوشیزہ کیلئے رسوائی کا پیغام دے کر جاتاہے جو امان کو احتیاط اور خوشی کو غم میں بدل دیتا ہے۔

تقاسم الروم لا ن۔الت مقاسِمُهمإ
لا عقائلها المحجوبة الأنسا

نصاریٰ نے قسم کھائی ہے اللہ کرے ان کی قسمیں پوری نہ ہوں ، کہ وہ پردہ نشیں حسیناؤں پر ہی دست درازی کریں گے ۔

وفي بلنسيةٍ منها وقرطبةٍ
ما ينسف النفْس أو ما ينزف النَّفَسا

ان نصاریٰ نے بلنسیہ اور قرطبہ میں جو مظالم ڈھائے ہیں جو جان لینے والے اور خون نچوڑ دینے والے تھے ۔

مدائنٌ حلها الإشراك مبتسماً
جذلان وارتحل الإيمان مبتئسا

یہ شہر ہیں جہاں شرک خوشی سے دندناتا ہوافروکش ہو گیا ہے اور ایمان مایوس ہو کر کوچ کر گیا ہے ۔

وصيّرتها العوادي العابثات بها
يستوحش الطرف منها ضعف ما أنسا


مصائب نے ان کی حالت کو ایسا بدل دیا ہے کہ جب ان کی جانب نظر دوڑائی جائے تو اپنے زندگی کی خوشیوں سے کئی گنا زیادہ وحشت محسوس ہوتی ہے ۔

يا للمساجد عادت للعدى بيعا
ًوللنداء غدا أثناءها جَرَسا

آہ! وہ مساجد جنہیں دشمنوں نے گرجوں میں بدل دیا ہے اور اذان کی جگہ وہاں اب گھنٹیاں بج رہی ہیں ۔

اقتباس از
سقوط اندلس پر شعرائے اندلس کی مرثیہ خوانی
ڈاکٹر ظہور احمد اظہر
 
مدیر کی آخری تدوین:

عارضی کے

محفلین
میرا یہود نواز یا یہودی میڈیا سے متاثرہ افراد سے یہ سوال ہے کہ تاریخ میں یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمان فاتحین نے جن علاقوں کو قبضہ کیا تو ان تینوں کا مفتوحین کو لوٹنے، عصمت دری کرنے اور قتلِ عام کا تناسب کتنا ہے؟
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
میرا یہود نواز یا یہودی میڈیا سے متاثرہ افراد سے یہ سوال ہے کہ تاریخ میں یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمان فاتحین نے جن علاقوں کو قبضہ کیا تو ان تینوں کا مفتوحین کو لوٹنے، عصمت دری کرنے اور قتلِ عام کا تناسب کتنا ہے؟
تاریخ میں یہودیوں کی فتوحات پر تو کچھ روشنی ڈالیں۔
 
Top