ربیع م
محفلین
اندلس کے شہروں کا مرثیہ
اندلس جنت گم گشتہ جسے مسلمانوں نے اپنی نااہلی باہمی نااتفاقی اور اغیار کی بھرپور کوششوں اور سازشوں کی وجہ سے عرصہ دراز حکومت کے بعد اپنے ہاتھوں سے کھویا ، کوئی ایسا سانحہ نہ تھا جسے آسانی سے بھلایا جاسکے ،اور اس پر مستزاد مسلمانان اندلس پر صلیبیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے غیر انسانی اور وحشیانہ مظالم ، جبری تبدیلی مذہب کی سرتوڑ کوششوں اور جلاوطن کرنے پر مجبور کرنے نے اس سانحہ کو مزید اندوہناک بنا دیا، عرب شاعری میں اس سانحہ کے بارے میں بہت سے مرثیے کہے گئے ،ان میں ایک مشہور مرثیہ "قصیدہ نونیہ " کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ قصیدہ اندلس کے ادیب اور شاعر " ابوالبقاء صالح بن شریف الرندی الاندلسی " کا ہے ، جس سے میری پہلی شناسائی " ڈاکٹر ظہور احمد اظہر " کی کتاب " مرثیہ صقلیہ پر ایک نظر" کے مطالعہ کے دوران ہوئی ،اس کے بعد بھی بہت سی اردو کتب میں اس کا تذکرہ سننے کو ملا، انتہائی سادہ، دل کو موہ لینے والے الفاظ نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا،اس کا اردو میں ترجمہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ، کچھ اشعار کا ترجمہ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے اپنی کتاب " مرثیہ صقلیہ پر ایک نظر " میں کیا ہے لیکن مکمل ترجمہ مجھے دستیاب نہ ہو سکا ، تو خود ہی یہ ترجمہ کرنے کی کوشش کی ، عربی اور اردو دونوں زبانوں پر گرفت نہ ہونے کی وجہ سے یقینا یہ ترجمہ اس قصیدہ نونیہ کے شایان شان تو نہیں ، لیکن کم از کم مجھے ان الفاظ کا ٹوٹا پھوٹا مفہوم سمجھا کر ماضی کے ان دردناک ایام میں لے تو جاتا ہے ، مجھ جیسے شخص کیلئے شاید اتنا بھی بہت ہو۔المقری نے ذکر کیا ہے کہ ابو البقاء کا یہ پر درد اور پر اثر قصیدہ اس قدر مقبول عام ہوا کہ بعد میں آنے والے لوگوں نے بعد کے المناک واقعات کے متعلق اضافی اشعار کہہ کر اس میں شامل کر دئیے ۔
اسی وجہ سے بہت سی جگہوں پر اشعار میں کچھ کمی بیشی اور الفاظ میں کچھ تبدیلی بھی موجود ہے ۔
اور شاید ابو البقاء صالح الرندی کی سب سے زیادہ شناخت بھی اسی "قصیدہ نونیہ " کے ذریعہ ہی ہے ۔
شاعر کا مختصر تعارف:
صالح بن یزید الرندی ابو البقاء ان کی کنیت ہے جس سے یہ مشہور ہوئے ۔
الرندی ، کی نسبت رندہ نامی گاؤں کی جانب ہے جو کہ اشبیلیہ کے مضافات میں واقع ہے ، جہاں یہ 601 ھ میں پیدا ہوئے اور 684 ھ میں ان کی وفات ہوئی ۔
انھوں نے "مملکت الموحدین " اور غرناطہ میں بنواحمر کا دور حکومت پایا۔یہ دور فکری ادبی سرگرمیوں سے بھرپور تھا ، لیکن اسی دور میں ہسپانویوں کے ہاتھوں یکے بعد دیگرے اندلسی شہروں کا سقوط عمل میں آیا۔
قصیدہ کہنے کی وجہ :
اس سلسلے میں مختلف آراء ہیں :
ابوالبقاء نے اپنی آنکھوں کے سامنے مختلف اندلسی شہروں کا سقوط اور مسلم امراء اور سلاطین کو ان شہروں سے دستبردار ہوتے دیکھ کر یہ قصیدہ کہا ۔
محمد بن یوسف جن کا لقب الغالب تھا سلطان غرناطہ اس کا شاہ قشتالہ کیلئے مختلف قلعوں اور شہروں سے دستبردار ہونے کے(665ھ) موقع پر کہا ۔
اشبیلیہ شہر کے سقوط کے بعد کہا۔
لكل شيءٍ إذا ما تم نقصانُ
فلا يُغرُّ بطيب العيش إنسانُ
ہر چیز جب مکمل (عروج پر پہنچ جائے )ہو جائے تو اس کے نقصان(زوال) کا آغاز ہو جاتا ہے
چنانچہ کسی بھی انسان کو عمدہ زندگی سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے
هي الامور كما شاهدتها دُولٌ
مَن سَرَّهُ زَمنٌ ساءَتهُ أزمانُ
یہ تو بدلتے ہوئے حالات ہیں جیساکہ تم نے مشاہدہ کیا
اگر کسی کو ایک زمانہ خوشی دیتا ہے تو کئی زمانے اسے تکلیف بھی دیتے ہیں
وهذه الدار لا تُبقي على أحد
ولا يدوم على حالٍ لها شان
یہ دنیا ہمیشہ کسی ایک کی نہیں رہتی
نہ یہ کسی ایک حال پر قائم رہتی ہے
فلا يُغرُّ بطيب العيش إنسانُ
ہر چیز جب مکمل (عروج پر پہنچ جائے )ہو جائے تو اس کے نقصان(زوال) کا آغاز ہو جاتا ہے
چنانچہ کسی بھی انسان کو عمدہ زندگی سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے
هي الامور كما شاهدتها دُولٌ
مَن سَرَّهُ زَمنٌ ساءَتهُ أزمانُ
یہ تو بدلتے ہوئے حالات ہیں جیساکہ تم نے مشاہدہ کیا
اگر کسی کو ایک زمانہ خوشی دیتا ہے تو کئی زمانے اسے تکلیف بھی دیتے ہیں
وهذه الدار لا تُبقي على أحد
ولا يدوم على حالٍ لها شان
یہ دنیا ہمیشہ کسی ایک کی نہیں رہتی
نہ یہ کسی ایک حال پر قائم رہتی ہے
أين الملوك ذَوو التيجان من يمنٍ
وأين منهم أكاليلٌ وتيجانُ ؟
کہاں ہیں یمن کے تاجدار بادشاہ
اور ان کا تاج و تخت آج کہاں ہے
وأين ما شاده شدَّادُ في إرمٍ
وأين ما ساسه في الفرس ساسانُ ؟
ارم میں شداد کی بنائی ہوئی جنت کہاں ہے
فارسیوں کی ساسان میں بنیاد رکھی گئی سلطنت آج کہاں گئی
وأين ما حازه قارون من ذهب
وأين عادٌ وشدادٌ وقحطانُ ؟
قارون کے جمع کردہ سونے کے خزانے کیا ہوئے
عاد و شداد اور قحطان آج کہاں ہیں
أتى على الكُل أمر لا مَرد له
حتى قَضَوا فكأن القوم ما كانوا
ان سب پر اللہ کا اٹل حکم فنا آیا تو یہ سب مٹ گئے
یہاں تک کہ گویا یہ لوگ کبھی تھے ہی نہیں !
وصار ما كان من مُلك ومن مَلِك
كما حكى عن خيال الطّيفِ وسْنانُ
بادشاہت اور بادشاہ میں سے ہر ایک کا وہی حشر ہوا
جو اونگھ کی حالت میں آنے والے طیف خیال کا ہوتا ہے
فجائعُ الدهر أنواعٌ مُنوَّعة
وللزمان مسرّاتٌ وأحزانُ
دکھ دینے والی آفات زمانہ کا سلسلہ نوع در نوع ہے
اور زمانہ انسان کو کبھی خوشیاں دکھاتا ہے اور کبھی غموں سے دوچار کرتا ہے
وللحوادث سُلوان يسهلها
وما لما حلّ بالإسلام سُلوانُ
ان حوادث کیلئے صبر وتسلی کا کچھ نہ کچھ سامان ہوتا ہے جس سے ان کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے
لیکن جو آفات اسلام اور اہل اسلام پر پڑی ہیں ان کیلئے کوئی سامان تسلی نہیں ۔
دهى الجزيرة أمرٌ لا عزاءَ له
هوى له أُحدٌ وانهدْ ثهلانُ
الجزیرۃ ( جزیرۃ اندلس ) پر ایسی آزمائش آن پڑی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا
جو اگر احدیا ثہلان پہاڑ (نجد کا ایک عظیم پہاڑ) پر آگرتیں تو یہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتے
أصابها العينُ في الإسلام فامتحنتْ
حتى خَلت منه أقطارٌ وبُلدانُ
اسے (اندلس کو ) اسلام میں حاسدانہ نظر لگی چنانچہ اس پر آزمائشیں آن پڑیں
یہاں تک کہ اس (اسلام )سے شہر اور علاقے خالی ہوتے چلے گئے ۔
فاسأل (بلنسيةً) ما شأنُ (مُرسيةً)
وأينَ (شاطبةٌ) أمْ أينَ (جَيَّانُ)
پس بلنسیہ سے پوچھئے کہ مرسیہ کا کیا ہوا
اور شاطبہ یا جیان اب کہاں ہیں
وأين (قُرطبة)ٌ دارُ العلوم فكم
من عالمٍ قد سما فيها له شانُ
اور کہاں ہے قرطبہ دارلعلوم
جہاں کتنے ہی علماء کا مرتبہ بلند ہوا
وأين (حْمص)ُ وما تحويه من نزهٍ
ونهرهُا العَذبُ فياضٌ وملآنُ
اور کہاں ہے حمص(اشبیلیہ ) اور اس کی سبزہ پوش شادابیاں
اور اس کا دریا (وادی الکبیر ) جس کا پانی میٹھا اور لبالب بھرا تھا
قواعدٌ كنَّ أركانَ البلاد فما عسى
البقاءُ إذا لم تبقَ أركانُ
یہ عظیم شہر اندلس کے ستون تھے
پس جب یہ ستون ہی نہ رہے تو سقوط اندلس سے کون روک پائے گا
تبكي الحنيفيةَ البيضاءُ من أسفٍ
كما بكى لفراق الإلفِ هيمانُ
مسلمان شدت غم سے اس طرح روتے ہیں
جیسا کہ شدید محبت کرنے والا اپنے محبوب کی جدائی پر روتا ہے
على ديار من الإسلام خالية
قد أقفرت ولها بالكفر عُمرانُ
ان دیار پر جو کہ اسلام سے خالی ہو گئے
اسلام سے دوری ان کا مقدر ٹھہری اور کفر نے ان میں ٹھکانہ بنا لیا
حيث المساجد قد صارت كنائسَ
ما فيهنَّ إلا نواقيسٌ وصُلبانُ
جہاں مساجد کو کلیساؤں میں بدل دیا گیا
اور اب ان میں ناقوس اور صلیبوں کے علاوہ کچھ نہ بچا
حتى المحاريبُ تبكي وهي جامدةٌ
حتى المنابرُ ترثي وهي عيدانُ
یہاں تک کہ محراب بھی روتےہیں حالانکہ وہ جامد ( پتھر) ہیں
اور یہاں تک کہ منبر بھی روتے ہیں حالانکہ وہ محض پتھر ہیں ۔
يا غافلاً وله في الدهرِ موعظةٌ
إن كنت في سِنَةٍ فالدهرُ يقظانُ
اے غافل ( ان علاقوں کے مسلمانوں کو خطاب جو ابھی تک مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے ) اور تیرے لئے زمانے میں نصیحت ہے
اگر تو اونگھ یا خواب غفلت میں ہے تو زمانہ (دشمن)بہت بیدار ہے ۔
وماشيًا مرحًا يلهيه موطنهُ
أبعد حمصٍ تَغرُّ المرءَ أوطانُ ؟
راحت وآرام سے گھومنے پھرنے والے جسے اپنا وطن بہت لبھاتا ہے
کیا حمص کے بعد بھی انسان کو وطن دھوکہ دے سکتے ہیں
تلك المصيبةُ أنستْ ما تقدمها
وما لها مع طولَ الدهرِ نسيانُ
یہ وہ مصیبت ہے ( اندلسی شہروں کا سقوط) جس نے اپنے سے پچھلے تمام مصائب کو بھلا دیا
اور عرصہ دراز گزرنے کے باوجود بھی اس مصیبت کو بھلایا نہیں جاسکے گا۔
يا راكبين عتاق الخيلِ ضامرةً
كأنها في مجال السبقِ عقبانُ
اے عمدہ تضمیر شدہ گھوڑوں پر سوار ہونے والے (مسلمانان افریقہ کو خطاب ہے )
(ایسے گھوڑے ) گویا وہ دوڑ کے میدان میں عقاب ہوں
وحاملين سيُوفَ الهندِ مرهفةُ
كأنها في ظلام النقع نيرانُ
تیز دھار کاٹ دینے والی ہندی تلواریں اٹھائے ہوئے
گویا وہ( تلواریں ) گردوغبار کے اندھیرے میں چنگاریاں مارتی ہوئی آگ ہوں
أعندكم نبأ من أهل أندلسٍ
فقد سرى بحديثِ القومِ رُكبانُ ؟
کیا تمہارے پاس اہل اندلس کی کوئی خبر ہے
ان کے متعلق باتیں تو اب تمام سواروں کی زبانوں پر زدعام ہیں
ماذا التقاُطع في الإسلام بينكمُ
وأنتمْ يا عبادَ الله إخوانُ ؟
اسلام میں یہ باہمی قطع تعلقی وسنگ دلی کیسی
جب کہ تم اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی ہو
ألا نفوسٌ أبياتٌ لها هممٌ
أما على الخيرِ أنصارٌ وأعوانُ
کیا تم میں خوددار نفوس نہیں ہیں جو بلندپایہ ہمت کے مالک ہوں
کیا خیراور نیکی کی بنیاد پر مددکرنے والے تم میں ختم ہو گئے
يا من لذلةِ قومٍ بعدَ عزِّهمُ
أحال حالهمْ جورُ وطُغيانُ
ہائے کون ہے اس قوم کیلئے جسے عزت کے بعد ذلت سے دوچار ہونا پڑا
جن کی حالت میں یہ تبدیلی کفار و سرکشوں نے کی
بالأمس كانوا ملوكًا في منازلهم
واليومَ هم في بلاد الكفرِّ عُبدانُ
کل وہ اپنے گھروں میں بادشاہوں کی مانندتھے
اور آج وہ بلاد کفر میں غلام ہیں
فلو تراهم حيارى لا دليل لهمْ
عليهمُ من ثيابِ الذلِ ألوانُ
اگر تو انھیں دیکھے تو حیران و پریشان بغیر کسی رہنما کے ہوں گے
ان کے اوپر دشمن نے مختلف رنگ کے ذلت کے لباس پہنا رکھے ہیں
ولو رأيتَ بكاهُم عندَ بيعهمُ
لهالكَ الأمرُ واستهوتكَ أحزانُ
پس اگر تو فروخت کے وقت ان کا رونا دیکھے تو
یہ معاملہ تجھے اتنا عظیم دکھائی دے کہ تجھ پر غم ویاس کے بادل چھا جائیں ۔
يا ربَّ أمّ وطفلٍ حيلَ بينهما
كما تفرقَ أرواحٌ وأبدانُ
ہائے کتنی ہی ماؤں اور بچوں کے درمیان جدائی ڈال دی گئی
جس طرح جسم سے روح کھینچ لی جاتی ہے
وطفلةً مثل حسنِ الشمسِ إذ طلعت
كأنما هي ياقوتٌ ومرجانُ
اور کتنی ہی بچیاں جو طلوع ہوتے سورج کی مانند حسین تھیں
گویا کہ وہ یاقوت اور مرجان ہوں
يقودُها العلجُ للمكروه مكرهةً
والعينُ باكيةُ والقلبُ حيرانُ
ایک دشمن اسلام اسے اس کی ناپسندیدگی کے باوجود مکروہ کام کیلئے ہانکتا ہوا لے جاتا ہے
اور آنکھ ہے کہ رو رہی ہے اور دل حیران ہے
لمثل هذا يذوب القلبُ من كمدٍ
إن كان في القلبِ إسلامٌ وإيمانُ
ایسے مناظر پر ہی تو دکھ اور جلن کے مارے دل پگھلتا ہے
اگر دل میں اسلام اور ایمان کی دولت باقی ہے۔
وأين منهم أكاليلٌ وتيجانُ ؟
کہاں ہیں یمن کے تاجدار بادشاہ
اور ان کا تاج و تخت آج کہاں ہے
وأين ما شاده شدَّادُ في إرمٍ
وأين ما ساسه في الفرس ساسانُ ؟
ارم میں شداد کی بنائی ہوئی جنت کہاں ہے
فارسیوں کی ساسان میں بنیاد رکھی گئی سلطنت آج کہاں گئی
وأين ما حازه قارون من ذهب
وأين عادٌ وشدادٌ وقحطانُ ؟
قارون کے جمع کردہ سونے کے خزانے کیا ہوئے
عاد و شداد اور قحطان آج کہاں ہیں
أتى على الكُل أمر لا مَرد له
حتى قَضَوا فكأن القوم ما كانوا
ان سب پر اللہ کا اٹل حکم فنا آیا تو یہ سب مٹ گئے
یہاں تک کہ گویا یہ لوگ کبھی تھے ہی نہیں !
وصار ما كان من مُلك ومن مَلِك
كما حكى عن خيال الطّيفِ وسْنانُ
بادشاہت اور بادشاہ میں سے ہر ایک کا وہی حشر ہوا
جو اونگھ کی حالت میں آنے والے طیف خیال کا ہوتا ہے
فجائعُ الدهر أنواعٌ مُنوَّعة
وللزمان مسرّاتٌ وأحزانُ
دکھ دینے والی آفات زمانہ کا سلسلہ نوع در نوع ہے
اور زمانہ انسان کو کبھی خوشیاں دکھاتا ہے اور کبھی غموں سے دوچار کرتا ہے
وللحوادث سُلوان يسهلها
وما لما حلّ بالإسلام سُلوانُ
ان حوادث کیلئے صبر وتسلی کا کچھ نہ کچھ سامان ہوتا ہے جس سے ان کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے
لیکن جو آفات اسلام اور اہل اسلام پر پڑی ہیں ان کیلئے کوئی سامان تسلی نہیں ۔
دهى الجزيرة أمرٌ لا عزاءَ له
هوى له أُحدٌ وانهدْ ثهلانُ
الجزیرۃ ( جزیرۃ اندلس ) پر ایسی آزمائش آن پڑی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا
جو اگر احدیا ثہلان پہاڑ (نجد کا ایک عظیم پہاڑ) پر آگرتیں تو یہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتے
أصابها العينُ في الإسلام فامتحنتْ
حتى خَلت منه أقطارٌ وبُلدانُ
اسے (اندلس کو ) اسلام میں حاسدانہ نظر لگی چنانچہ اس پر آزمائشیں آن پڑیں
یہاں تک کہ اس (اسلام )سے شہر اور علاقے خالی ہوتے چلے گئے ۔
فاسأل (بلنسيةً) ما شأنُ (مُرسيةً)
وأينَ (شاطبةٌ) أمْ أينَ (جَيَّانُ)
پس بلنسیہ سے پوچھئے کہ مرسیہ کا کیا ہوا
اور شاطبہ یا جیان اب کہاں ہیں
وأين (قُرطبة)ٌ دارُ العلوم فكم
من عالمٍ قد سما فيها له شانُ
اور کہاں ہے قرطبہ دارلعلوم
جہاں کتنے ہی علماء کا مرتبہ بلند ہوا
وأين (حْمص)ُ وما تحويه من نزهٍ
ونهرهُا العَذبُ فياضٌ وملآنُ
اور کہاں ہے حمص(اشبیلیہ ) اور اس کی سبزہ پوش شادابیاں
اور اس کا دریا (وادی الکبیر ) جس کا پانی میٹھا اور لبالب بھرا تھا
قواعدٌ كنَّ أركانَ البلاد فما عسى
البقاءُ إذا لم تبقَ أركانُ
یہ عظیم شہر اندلس کے ستون تھے
پس جب یہ ستون ہی نہ رہے تو سقوط اندلس سے کون روک پائے گا
تبكي الحنيفيةَ البيضاءُ من أسفٍ
كما بكى لفراق الإلفِ هيمانُ
مسلمان شدت غم سے اس طرح روتے ہیں
جیسا کہ شدید محبت کرنے والا اپنے محبوب کی جدائی پر روتا ہے
على ديار من الإسلام خالية
قد أقفرت ولها بالكفر عُمرانُ
ان دیار پر جو کہ اسلام سے خالی ہو گئے
اسلام سے دوری ان کا مقدر ٹھہری اور کفر نے ان میں ٹھکانہ بنا لیا
حيث المساجد قد صارت كنائسَ
ما فيهنَّ إلا نواقيسٌ وصُلبانُ
جہاں مساجد کو کلیساؤں میں بدل دیا گیا
اور اب ان میں ناقوس اور صلیبوں کے علاوہ کچھ نہ بچا
حتى المحاريبُ تبكي وهي جامدةٌ
حتى المنابرُ ترثي وهي عيدانُ
یہاں تک کہ محراب بھی روتےہیں حالانکہ وہ جامد ( پتھر) ہیں
اور یہاں تک کہ منبر بھی روتے ہیں حالانکہ وہ محض پتھر ہیں ۔
يا غافلاً وله في الدهرِ موعظةٌ
إن كنت في سِنَةٍ فالدهرُ يقظانُ
اے غافل ( ان علاقوں کے مسلمانوں کو خطاب جو ابھی تک مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے ) اور تیرے لئے زمانے میں نصیحت ہے
اگر تو اونگھ یا خواب غفلت میں ہے تو زمانہ (دشمن)بہت بیدار ہے ۔
وماشيًا مرحًا يلهيه موطنهُ
أبعد حمصٍ تَغرُّ المرءَ أوطانُ ؟
راحت وآرام سے گھومنے پھرنے والے جسے اپنا وطن بہت لبھاتا ہے
کیا حمص کے بعد بھی انسان کو وطن دھوکہ دے سکتے ہیں
تلك المصيبةُ أنستْ ما تقدمها
وما لها مع طولَ الدهرِ نسيانُ
یہ وہ مصیبت ہے ( اندلسی شہروں کا سقوط) جس نے اپنے سے پچھلے تمام مصائب کو بھلا دیا
اور عرصہ دراز گزرنے کے باوجود بھی اس مصیبت کو بھلایا نہیں جاسکے گا۔
يا راكبين عتاق الخيلِ ضامرةً
كأنها في مجال السبقِ عقبانُ
اے عمدہ تضمیر شدہ گھوڑوں پر سوار ہونے والے (مسلمانان افریقہ کو خطاب ہے )
(ایسے گھوڑے ) گویا وہ دوڑ کے میدان میں عقاب ہوں
وحاملين سيُوفَ الهندِ مرهفةُ
كأنها في ظلام النقع نيرانُ
تیز دھار کاٹ دینے والی ہندی تلواریں اٹھائے ہوئے
گویا وہ( تلواریں ) گردوغبار کے اندھیرے میں چنگاریاں مارتی ہوئی آگ ہوں
أعندكم نبأ من أهل أندلسٍ
فقد سرى بحديثِ القومِ رُكبانُ ؟
کیا تمہارے پاس اہل اندلس کی کوئی خبر ہے
ان کے متعلق باتیں تو اب تمام سواروں کی زبانوں پر زدعام ہیں
ماذا التقاُطع في الإسلام بينكمُ
وأنتمْ يا عبادَ الله إخوانُ ؟
اسلام میں یہ باہمی قطع تعلقی وسنگ دلی کیسی
جب کہ تم اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی ہو
ألا نفوسٌ أبياتٌ لها هممٌ
أما على الخيرِ أنصارٌ وأعوانُ
کیا تم میں خوددار نفوس نہیں ہیں جو بلندپایہ ہمت کے مالک ہوں
کیا خیراور نیکی کی بنیاد پر مددکرنے والے تم میں ختم ہو گئے
يا من لذلةِ قومٍ بعدَ عزِّهمُ
أحال حالهمْ جورُ وطُغيانُ
ہائے کون ہے اس قوم کیلئے جسے عزت کے بعد ذلت سے دوچار ہونا پڑا
جن کی حالت میں یہ تبدیلی کفار و سرکشوں نے کی
بالأمس كانوا ملوكًا في منازلهم
واليومَ هم في بلاد الكفرِّ عُبدانُ
کل وہ اپنے گھروں میں بادشاہوں کی مانندتھے
اور آج وہ بلاد کفر میں غلام ہیں
فلو تراهم حيارى لا دليل لهمْ
عليهمُ من ثيابِ الذلِ ألوانُ
اگر تو انھیں دیکھے تو حیران و پریشان بغیر کسی رہنما کے ہوں گے
ان کے اوپر دشمن نے مختلف رنگ کے ذلت کے لباس پہنا رکھے ہیں
ولو رأيتَ بكاهُم عندَ بيعهمُ
لهالكَ الأمرُ واستهوتكَ أحزانُ
پس اگر تو فروخت کے وقت ان کا رونا دیکھے تو
یہ معاملہ تجھے اتنا عظیم دکھائی دے کہ تجھ پر غم ویاس کے بادل چھا جائیں ۔
يا ربَّ أمّ وطفلٍ حيلَ بينهما
كما تفرقَ أرواحٌ وأبدانُ
ہائے کتنی ہی ماؤں اور بچوں کے درمیان جدائی ڈال دی گئی
جس طرح جسم سے روح کھینچ لی جاتی ہے
وطفلةً مثل حسنِ الشمسِ إذ طلعت
كأنما هي ياقوتٌ ومرجانُ
اور کتنی ہی بچیاں جو طلوع ہوتے سورج کی مانند حسین تھیں
گویا کہ وہ یاقوت اور مرجان ہوں
يقودُها العلجُ للمكروه مكرهةً
والعينُ باكيةُ والقلبُ حيرانُ
ایک دشمن اسلام اسے اس کی ناپسندیدگی کے باوجود مکروہ کام کیلئے ہانکتا ہوا لے جاتا ہے
اور آنکھ ہے کہ رو رہی ہے اور دل حیران ہے
لمثل هذا يذوب القلبُ من كمدٍ
إن كان في القلبِ إسلامٌ وإيمانُ
ایسے مناظر پر ہی تو دکھ اور جلن کے مارے دل پگھلتا ہے
اگر دل میں اسلام اور ایمان کی دولت باقی ہے۔
مدیر کی آخری تدوین: