مرحلے ہم پہ آسان ہو بھی گئے

نوید ناظم

محفلین
مرحلے ہم پہ آسان ہو بھی گئے
جتنا ہونا تھا ویران ہو بھی گئے

دل ابھی اُن سے مانگا نہیں ہے مگر
وہ ابھی سے پریشان ہو بھی گئے

ایک ناصح ہے جو ہم کو سمجھاتا ہے
ایک ہم ہیں جو نادان ہو بھی گئے

گھر سے نکلے نہیں وہ سنور کر ابھی
اور ہم اُن پہ قربان ہو بھی گئے

صور پُھونکا گیا، حشر برپا ہوا
اُن کے آنے کے امکان ہو بھی گئے

یہ عدو تو عبث مارتا ہے مُجھے
مجھ پہ یاروں کے احسان ہو بھی گئے

جن کے وعدوں پہ تُو جی رہا ہے ابھی
اُن کے غیروں سے پیمان ہو بھی گئے

مجھ کو دیکھا تو بولے کہ "یہ کون ہے"؟
اِس کا مطلب وہ انجان ہو بھی گئے

درد، غم، اشک، آہیں اُتاری گئیں
زندہ رہنے کے سامان ہو بھی گئے

کُفر ہو گا اگر اب بُھلا دوں اُنھیں
اب تو وہ میرا ایمان ہو بھی گئے

مے کدے آئے تھے واعظِ محترم؟
وہ اِدھر سے مِری جان ہو بھی گئے!!

نوید ناظم
 
Top