صفی حیدر
محفلین
ہے زندہ زیرِ گور بتاتی ہے ماں مجھے
ہر شب کو آ کے لوری سناتی ہے ماں مجھے
جب زندگی کی دھوپ میں جلتی ہے میری روح
شفقت کا سایہ بن کے سلاتی ہے ماں مجھے
کیسے کہوں میں شہرِ خموشاں میں ہے مقیم
آواز دے کے صبح اٹھاتی ہے ماں مجھے
دیتی ہے حوصلہ مجھے جینے کا یاس میں
مٹی میں رہ کے آس دلاتی ہے ماں مجھے
جاتا ہوں لوٹ عہدِ گذشتہ کی سمت میں
اپنی لحد پہ جب بھی بلاتی ہے ماں مجھے
تربت پہ اس کی وقت کی گردش سمٹتی ہے
بچپن کے قصے سارے سناتی ہے ماں مجھے
جب بھی میں اس کی قبر پہ جاتا ہوں اے صفی
خوش ہو کے اپنے پاس بٹھاتی ہے ماں مجھے
ہر شب کو آ کے لوری سناتی ہے ماں مجھے
جب زندگی کی دھوپ میں جلتی ہے میری روح
شفقت کا سایہ بن کے سلاتی ہے ماں مجھے
کیسے کہوں میں شہرِ خموشاں میں ہے مقیم
آواز دے کے صبح اٹھاتی ہے ماں مجھے
دیتی ہے حوصلہ مجھے جینے کا یاس میں
مٹی میں رہ کے آس دلاتی ہے ماں مجھے
جاتا ہوں لوٹ عہدِ گذشتہ کی سمت میں
اپنی لحد پہ جب بھی بلاتی ہے ماں مجھے
تربت پہ اس کی وقت کی گردش سمٹتی ہے
بچپن کے قصے سارے سناتی ہے ماں مجھے
جب بھی میں اس کی قبر پہ جاتا ہوں اے صفی
خوش ہو کے اپنے پاس بٹھاتی ہے ماں مجھے