کاشفی
محفلین
مردِ انقلاب کی آواز
(جوش ملیح آبادی)
اگر انسان ہوں، دنیا کو حیراں کر کے چھوڑوں گا
میں ہر ناچیز ذرّے کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
تری اِس اُلفت کی سوگند، اے لیلائے رنگینی
کہ ارضِ خار و خس کو سُنبلستاں کر کے چھوڑوں گا
وہ پنہاں قوّتیں جو مِل کے زک دیتی ہیں دُنیا کو
اُنہیں آپس ہی میں دست و گریباں کر کے چھوڑوں گا
سرِ تقلید کو مغزِ تفکر سے جِلا دے کر
چراغِ مردہ کو مہرِ درخشاں کر کے چھوڑوں گا
شعارِ تازہ کو بخشوں گا آب و رنگِ جمیعت
رسوم کُہنہ کی محفل کو ویراں کر کے چھوڑوں گا
چراغِ اجتہادِ نَو بہ نَو کی جلوہ ریزی سے
سرِ راہِ خرد مندی چراغاں کر کے چھوڑوں گا
مُسلطّ ہیں ازل کے روز سے جو ابنِ آدم پر
میں اُن اوہام کو سردر گریباں کر کے چھوڑوں گا
ترے اس پیچ و خم کھاتے دُھویں کو شمع حق بینی
فرازِ عقل پر ابرِ خراماں کر کے چھوڑوں گا
جو انساں، آج سنگ و خشت کو معبود کہتا ہے
اُس انساں کو الوہیت بداماں کر کے چھوڑوں گا
قناعت جس نے کر لی ہے عناصر کی غلامی پر
میں اُس کو کِرد گارِ بادوباراں کر کے چھوڑوں گا
قسم کھاتا ہوں اے کوہِ الم! دستِ زلیخا کی
کہ داماں کو ترے یوسف کا داماں کر کے چھوڑوں گا
پکاروں گا کلیم نو کو طُورِ عصرِ حاضر سے
جو کچھ کہہ دوں گا اُس کو دین و ایماں کر کے چھوڑوں گا
مری حکمت، بشر کو دعوتِ نَو دے کے دم لے گی
میں اِس بھٹکے ہوئے انساں کو انساں کر کے چھوڑوں گا
اگر یہ کُفر ہے جو کچھ زباں پر میری جاری ہے
تو میں اِس کفر کو گلبانگِ عرفاں کر کے چھوڑوں گا
اگر عصیاں ہی پر موقوف ہے انساں کی بیداری
تو میں دُنیا کو غرقِ بحرِ عصیاں کر کے چھوڑوں گا
(جوش ملیح آبادی)
اگر انسان ہوں، دنیا کو حیراں کر کے چھوڑوں گا
میں ہر ناچیز ذرّے کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
تری اِس اُلفت کی سوگند، اے لیلائے رنگینی
کہ ارضِ خار و خس کو سُنبلستاں کر کے چھوڑوں گا
وہ پنہاں قوّتیں جو مِل کے زک دیتی ہیں دُنیا کو
اُنہیں آپس ہی میں دست و گریباں کر کے چھوڑوں گا
سرِ تقلید کو مغزِ تفکر سے جِلا دے کر
چراغِ مردہ کو مہرِ درخشاں کر کے چھوڑوں گا
شعارِ تازہ کو بخشوں گا آب و رنگِ جمیعت
رسوم کُہنہ کی محفل کو ویراں کر کے چھوڑوں گا
چراغِ اجتہادِ نَو بہ نَو کی جلوہ ریزی سے
سرِ راہِ خرد مندی چراغاں کر کے چھوڑوں گا
مُسلطّ ہیں ازل کے روز سے جو ابنِ آدم پر
میں اُن اوہام کو سردر گریباں کر کے چھوڑوں گا
ترے اس پیچ و خم کھاتے دُھویں کو شمع حق بینی
فرازِ عقل پر ابرِ خراماں کر کے چھوڑوں گا
جو انساں، آج سنگ و خشت کو معبود کہتا ہے
اُس انساں کو الوہیت بداماں کر کے چھوڑوں گا
قناعت جس نے کر لی ہے عناصر کی غلامی پر
میں اُس کو کِرد گارِ بادوباراں کر کے چھوڑوں گا
قسم کھاتا ہوں اے کوہِ الم! دستِ زلیخا کی
کہ داماں کو ترے یوسف کا داماں کر کے چھوڑوں گا
پکاروں گا کلیم نو کو طُورِ عصرِ حاضر سے
جو کچھ کہہ دوں گا اُس کو دین و ایماں کر کے چھوڑوں گا
مری حکمت، بشر کو دعوتِ نَو دے کے دم لے گی
میں اِس بھٹکے ہوئے انساں کو انساں کر کے چھوڑوں گا
اگر یہ کُفر ہے جو کچھ زباں پر میری جاری ہے
تو میں اِس کفر کو گلبانگِ عرفاں کر کے چھوڑوں گا
اگر عصیاں ہی پر موقوف ہے انساں کی بیداری
تو میں دُنیا کو غرقِ بحرِ عصیاں کر کے چھوڑوں گا