طارق شاہ
محفلین
غزل
مرزا اسداللہ خاں غالبؔ
مُدّت ہُوئی ہے یار کو مہماں کئے ہُوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہُوئے
کرتا ہُوں جمع پھر ، جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہُوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہُوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہُوئے ہیں چاک گریباں کئے ہُوئے
پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفَس
مُدّت ہُوئی ہے سیرِِ چراغاں کئے ہُوئے
پھر پُرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عِشق
سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہُوئے
پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خونِ دِل
سازِ چمن طرازی ِداماں کئے ہُوئے
باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظّارہ و خیال کا ساماں کئے ہُوئے
دل پھر طوافِ کُوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ وِیراں کئے ہُوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دِل و جاں کئے ہُوئے
دوڑے ہے پھر ہر ایک گُل و لالہ پر خیال
صد گُلسِتاں نِگاہ کا ساماں کئے ہُوئے
پھر چاہتا ہُوں نامۂ دِلدار کھولنا
جاں، نذرِ دلفریبیِ عُنواں کئے ہُوئے
مانگے ہے پھر، کسی کو لبِ بام پر ہوس
زُلفِ سیاہ، رُخ پہ پریشاں کئے ہُوئے
چاہے ہے پھر، کسی کو مُقابل میں، آرزُو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کئے ہُوئے
اک نوبہارِ ناز کو تاکے ہے پھر ، نگاہ
چہرہ فروغِ مَے سے گُلسِتاں کئے ہُوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کِسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منّتِ درباں کئے ہُوئے
جی، ڈُھونڈتا ہے پھر، وہی فرصت، کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کئے ہُوئے
غالب! ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ طُوفاں کئے ہُوئے
مرزا اسداللہ خاں غالبؔ
آخری تدوین: