کاشفی

محفلین
غزل
(مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب رحمتہ اللہ علیہ)

شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں‌بھی عریاں نکلا

زخم نے داد نہ دی تنگئی دل کی یارب
تیر بھی سینہء‌بسمل سے پر افشاں نکلا

بوئے گل، نالہء دل، بوئے چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

دل حسرت زدہ تھا مائدہء لذت درد
کام یاروں کا بقدر لب و دنداں‌ نکلا

تھی نو آموز فنا، ہمت دشوار پسند
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

کر گیا ایک نظر میں وہ سبھی کو گھائل
اس کی مژگاں سے سر بزم جو پیکاں‌نکلا

دل میں‌پھر گریے نے اک شور اُٹھایا غالب
آہ! جو قطرہ نہ نکلا تھا، سو طوفاں‌نکلا


غزل
(متین امروہوی)

اس کے دل میں تو نہاں جذبہء ایماں نکلا
جس کو سمجھا تھا میں کافر، وہ مسلماں نکلا

اشک کیا چیز ہے، اک آہ نہ منہ سے نکلی
درد بھی دل سے مرے ہو کے پشیماں نکلا

آرزو، حسرت و ارمان، تمنا تیری
خانہء دل میں مرے یہ سرو ساماں نکلا

پیرہن اس کی انا کا ہے سلامت اب تک
میری چاہت کا مگر چاک گریباں نکلا

میں نے دیکھا تھا جو کچھ، جاگتی آنکھوں سے کبھی
وہ حقیقت میں مرا خواب پریشاں نکلا

سی گیا زخم جگر بھی اسی یک سوئی سے
وہ رفوگر تو مرے درد کا درماں نکلا

خو‌ں‌بہا تک نہ دیا، آہ مرے قاتل نے
خون ناحق مرا، پانی سے بھی ارزاں نکلا
 
Top