یہ بی بی سی کی خبر کی سرخی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں یہ خبر اتنی دفعہ شائع کی جا چکی ہے کہ ہر انسان کے دل میں خوامخواہ ایک قاتل کیلئے رحم کے جذبات زور پکڑ چکے ہیں۔ مجھے مرزا طاہر پر اسلئے بھی ترس آرہا ہے کہ اس نے اگر موت کی سزا پانی ہی تھی تو اٹھارہ سال تک کونسی سزا بھگتی ہے۔ قاتل میں نے اسلئے کہا ہے کیونکہ اسے بلا استثناء پاکستان کی تمام عدالتوں بشمول سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کی جانب مجرم قرار دیا گیا ہے۔
بی بی سی اور دوسرے تمام نشریاتی اداروں سے شعور رکھنے والے قارئین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ جہاں وہ مرزا طاہر کی حالت زار پر اتنا لکھتے ہیں وہاں وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ مقتول کے خاندان کا کیا موقف ہے۔ اگر پاکستان کی سپریم کورٹ تک نے اس کو قتل عمد کا مجرم سمجھا ہے تو بی بی سی کیوں بار بار مندرجہ ذیل کلمات کو دہراتی ہے:
" ٹیکسی ڈرائیور نے مرزا طاہر حسین کو اسلحہ کے زور پر لوٹنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی اور اس دوران ہاتھا پائی میں گولی چلنے سے ڈرائیور ہلاک ہو گیا"
کچھ عرصہ پہلے ایک دفعہ مرحوم کے بھائی کا بیان نشر کیا بھی تو یہ کہ "ہم غیرت مند لوگ ہیں ہم خون معاف نہیں کریں گے۔" گویا اس میں بھی مقتول کے گھر والوں کو ہی بدنام کرنے کی کوشش کی۔
میرا موقف اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔
1۔ اگر پاکستانی تمام عدالتوں سے یہ شخص مجرم قرار پا چکا ہے تو یا تو اس کو معاف کرنے سے پہلے ان عدالتوں کو رخصت کیا جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی ان عدالتوں کے شر سے بچ سکیں یا پھر اس شخص کو قتل عمد کے جرم میں پھانسی دی جائے۔
2۔ مقتول کے لواحقین کو اس بناء پر بدنام کرنا کہ وہ اپنے مقتول کے قتل کا انصاف کیوں چاہتے ہیں، یہ ہر اچھی شہرت رکھنے والے ادارے کیلئے باعث شرم ہونا چاہئیے۔
3۔ ہر خبر رساں ادارے کو یہ بھی نشر کرنا چاہئیے کہ آخر وہ کیا ناقابل تردید شواہد ہیں جن کی بنیاد پر عدالتوں نے اس شخص کو مجرم قرار دیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ اس شخص کو معاف نہیں کر سکتے کیونکہ یہ شخص باقاعدہ سزا یافتہ ہے اور وہ آمر نہیں ہیں۔ اس بیان پر وہ کتنا عمل کرتے ہیں، اس پر ہمیں نظر رکھنی ہو گی۔ پاکستان میں بم دھماکوں کے جرم میں سزائے موت پانے والے بھارتی جاسوس کا معاملہ بھی دوبارہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خیال ہے کہ حکومت اس کو بھی پاکستانیوں کا قتل عام معاف کرنا چاہ رہی ہے۔
بی بی سی اور دوسرے تمام نشریاتی اداروں سے شعور رکھنے والے قارئین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ جہاں وہ مرزا طاہر کی حالت زار پر اتنا لکھتے ہیں وہاں وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ مقتول کے خاندان کا کیا موقف ہے۔ اگر پاکستان کی سپریم کورٹ تک نے اس کو قتل عمد کا مجرم سمجھا ہے تو بی بی سی کیوں بار بار مندرجہ ذیل کلمات کو دہراتی ہے:
" ٹیکسی ڈرائیور نے مرزا طاہر حسین کو اسلحہ کے زور پر لوٹنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی اور اس دوران ہاتھا پائی میں گولی چلنے سے ڈرائیور ہلاک ہو گیا"
کچھ عرصہ پہلے ایک دفعہ مرحوم کے بھائی کا بیان نشر کیا بھی تو یہ کہ "ہم غیرت مند لوگ ہیں ہم خون معاف نہیں کریں گے۔" گویا اس میں بھی مقتول کے گھر والوں کو ہی بدنام کرنے کی کوشش کی۔
میرا موقف اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔
1۔ اگر پاکستانی تمام عدالتوں سے یہ شخص مجرم قرار پا چکا ہے تو یا تو اس کو معاف کرنے سے پہلے ان عدالتوں کو رخصت کیا جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی ان عدالتوں کے شر سے بچ سکیں یا پھر اس شخص کو قتل عمد کے جرم میں پھانسی دی جائے۔
2۔ مقتول کے لواحقین کو اس بناء پر بدنام کرنا کہ وہ اپنے مقتول کے قتل کا انصاف کیوں چاہتے ہیں، یہ ہر اچھی شہرت رکھنے والے ادارے کیلئے باعث شرم ہونا چاہئیے۔
3۔ ہر خبر رساں ادارے کو یہ بھی نشر کرنا چاہئیے کہ آخر وہ کیا ناقابل تردید شواہد ہیں جن کی بنیاد پر عدالتوں نے اس شخص کو مجرم قرار دیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ اس شخص کو معاف نہیں کر سکتے کیونکہ یہ شخص باقاعدہ سزا یافتہ ہے اور وہ آمر نہیں ہیں۔ اس بیان پر وہ کتنا عمل کرتے ہیں، اس پر ہمیں نظر رکھنی ہو گی۔ پاکستان میں بم دھماکوں کے جرم میں سزائے موت پانے والے بھارتی جاسوس کا معاملہ بھی دوبارہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خیال ہے کہ حکومت اس کو بھی پاکستانیوں کا قتل عام معاف کرنا چاہ رہی ہے۔