سید شہزاد ناصر
محفلین
علمی ادبی دنیا میں شمیم طارق کی پہچان مختلف حیثیت کی حامل ہے۔ شاعری، تنقید، تحقیق، صحافت اور تصوف ان کے خاص میدان ہیں۔ اس وقت ان کی دو کتابیں پیش نظر ہیں اور دونوں کا تعلق غالبیات 'تحقیق' سے ہے۔ پہلی کتاب ''غالب اور ہماری تحریک آزادی'' ہے جس کا دوسرا ایڈیشن سنہ 2007 میں شائع ہوا تھا۔ پہلے ایڈیشن کے مقابلے میں جو سنہ 2002 میں شائع ہوا تھا، اس دوسرے ایڈیشن میں 30 صفحات کا اضافہ ہے۔ یہ اضافہ پرانے ابواب کی عبارتوں اور ''توقیتِ غالب'' 'سنہ 1857ء سے وفات تک' ''1857ء کے بعد کی غالب کی مطبوعات'' کے عنوان سے دو نئے ابواب کی شکل میں ہے۔ کتاب 9 ابواب اور ضخیمے کے طور پر مولانا فضل حق خیر آبادی کے قصیدہ ''الشورہ الہندیہ'' ''قصیدہ ہمزیہ'' اور ''قصیدہ دالیہ'' کے ترجموں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب تو میں نے بعد میں پڑھی، اس پر تبصرہ پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ چہ میگوئیاں بھی علم میں تھیں۔ کتاب پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ 9 میں سے 8 ابواب پر گفتگو کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ''توقیت غالب'' کے عنوان کے تحت 28جنوری سنہ 1857ء سے ''جب مرزا فخرو نے غالب کا تلمذ اختیار کیا'' 15 فروری سنہ 1869ء تک کے حالات کو تاریخ وار چن دیا گیا ہے۔
''سنہ 1857 کے بعد غالب کی مطبوعات'' کے عنوان سے یہ اطلاع فراہم کرنے کے ساتھ کہ غالب کی کل 33 کتابیں شائع ہوئیں، یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ 33 میں سے 8 مطبوعات سنہ 1857 سے پہلے اور 1857 کے بعد شائع ہوئیں۔ ہر کتاب کا نام اور سن اشاعت درج ہے۔ ضخیمے میں جو کچھ شامل ہے ان کی اہمیت اور اندازہ پروفیسر سید عبدالباری کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ''انہوں'شمیم طارق' نے بعض ایسے نوادر اس کتاب میں شامل کردئیے ہیں جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں''۔ ''غالب اور ہماری تحریک آزادی'' کے عنوان کے تحت انہوں نے جو باب قائم کیا ہے اس میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:
ان ''غالب'' کے ذاتی کردار سے یقینا صرفِ نظر ضروری ہے کہ کسی کی خوابگاہ میں جھانکنا اخلاقی گناہ ہے مگر قومی امور میں کسی فرد واحد کے کردار کی ایسی توجیہ جس سے وطن عزیز پر جان دینے والے لاکھوں وطن دوستوں کی قربانیوں پر حرف آتا ہو اخلاقی گناہ کے ساتھ قومی گناہ بھی ہے۔'' 'ص:116-117'
''غالب اور سرسید'' کے عنوان سے جو باب قائم کیا گیا ہے اور میں غالب کے مذہب و عقیدہ پر روشنی ڈالنے کے بعد غالب اور سرسید کے نظریات کا موازنہ کرتے ہوئے، واضح کیا گیا ہے کہ غالب کو صرف اپنا مفاد عزیز تھا اور سرسید کو پوری ملت کا۔ یہ بہت اہم باب ہے اور برسہا برس کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے۔ یہی خوبی پوری کتاب کی ہے جو حوالوں اور حواشی سے مزین ہے۔ اس باب میں شمیم طارق نے جو سوالات قائم کئے ہیں یا جو انکشافات کئے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ماہرین غالبیات نے بہت سی باتوں کو یونہی فرض کرلیا تھا۔
شمیم طارق نے غالب کی نظم و نثر کے حوالے سے ان کی نفی کی ہے۔ انہوں نے حوالے سے واضح کیا ہے کہ:
''نظم و نثر دونوں میں غالب نے اپنے عقیدہ و مذہب کے متعلق بھی جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کا حنفی، صوفی، تفصیلی، اثناعشری، نیم مسلمان و مطلقا کافر ہونا سب ثابت ہوتا ہے اور قطع نظر اس سے کہ حالی سے کالی داس گپتا رضا تک غالب کے مذہب کے متعلق کس نے کیا لکھا ہے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے راقم الحروف یہ سمجھتا ہے کہ وقت و حالات کے تحت ہی نہیں مخاطب و مکتوب الیہم کی رعایت سے بھی غالب کے اظہار عقیدہ میں فرق آتا گیا ہے۔'' 'ص:130-131'
اس کے بعد غالب کے خطوط اور اشعار سے ثبوت فراہم کئے گئے ہیں لیکن نتیجہ اخذ کرنے میں حسن ظن کا مظاہرہ کیا گیا ہے:
بسوز غالب آزادہ را و باک مدار
بشرطِ آں کہ تواں گفت نا مسلمانانش
''اور جو مسلمان ہونے کی مدعی ہوں ہم انہیں مسلمان ہی کہیں گے۔'' 'ص:123
''دستنبو پر ایک نظر'' کے عنوان سے انہوں نے غالب کی تحریروں کی روشنی میں ہی ان کے متعدد اکاذیب کی نشاندہی کی ہے۔
غالب کی قصیدہ گوئی سے انہوں نے واضح کیا ہے کہ: وہ شہنشاہ دلی کی موجودگی میں ان کے علاوہ دوسرے نوابوں اور مہاراجوں کی شان میں بھی قصیدے کہا کرتے تھے حتی کہ انہوں نے انگریزون کی قصیدہ خوانی بھی شروع کردی تھی۔
ان کے متعدد فیصلے ایسے بھی ہیں جو اولا کسی اور کی مدح میں لکھے گئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے قدرے تغیر کے ساتھ ان کے ممدوح بدل دئے گئے۔
وہ قصیدہ لکھنے اور ممدوح کے پاس بھیجنے کے بعد خاموش نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ممدوح کو یاد دہانی بھی کراتے تھے کہ وہ انعام سے نوازیں۔
یاد دہانی کے ساتھ وہ اپنے ممدوح سے اس خواہش کا اظہار کرنے میں بھی ججھک محسوس نہیں کرتے کہ قصیدہ کا صلہ اس قدر ملے۔
قصیدوں اور خطوں میں ترمیم و تنسیج کرنے کے ساتھ انہوں نے اپنے نسب کے اظہار میں بھی تضاد بیانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 'ص: 150'
''ایک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خاموش ہے'' کے عنوان سے انہوں نے ثبوت و شواہد کی بنیاد پر باور کرایا ہے کہ سنہ 1857 کے المناک حوادث و واقعات غالب کے شعری تجربے میں نہیں ڈھل سکے، بعد والوں نے سنہ 1857 سے 35 تا 41 سال پہلے کہے ہوئے شعروں کو سنہ 1857 کے واقعات پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔
آخری باب میں غالب کے خطوط پر مجموعی تبصرے کے ساتھ غالب کے سنہ 1857 سے متعلق خطوط کے اقتباسات کو تاریخی ترتیب سے یکجا کردیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ پہلا خط 5ڈسمبر سنہ 1857 کا اور آخری خط 15 فروری سنہ 1867 کا ہے۔ ان خطوط کی روشنی میں غالب کے دل کی کیفیت کے ساتھ دلی کی پوری کیفیت بھی سامنے آجاتی ہے۔ شمیم طارق کے لفظوں میں:
''انہیں تسلسل سے پڑھنے اور ان میں بیان کئے ہوئے واقعات و حالات کا ہم عصر روز نامچوں، تذکروں، حکام کی خفیہ اور انتظامی رپورٹوں اور مؤرخین کی بیان کی گئی شہادتوں سے موازنہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ غالب سے کہاں سہو ہوا ہے، کہاں انہوں نے قصدا جھوٹ کا سہارا لیا ہے اور کہاں انہوں نے انگریزوں کے بے پناہ مظالم کے حوالے مصلحتا حذف کردئے ہیں۔'' 'ص:180'
مندرجہ بالا تعارف و تجزیہ دوسرے سے آخری باب تک کا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان ابواب میں جو نتائج اخذ کئے گئے یا جو شواہد پیش کئے گئے ہیں ان سے اختلاف کرنا ممکن نہیں ہے اور اس کی دو اہم وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انہوں نے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ غالب ہی کے بیانات و اعترافات پر مبنی ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اختلاف کرنے والوں کو ثابت کرنا پڑے گا کہ:
غالب کو احساس تھا کہ ان کے انتقال '78برس' اور سنہ 1857 کے 90 برس بعد انگریزوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا۔
دستنبو میں انہوں نے جھوٹ کا سہارا نہیں لیا ہے۔
ایک کے قصیدے کو دوسرے کے لئے استعمال نہیں کرتے تھے یا قصیدہ پیش کرنے کے بعد صلہ کا بھی تقاضہ نہیں کرتے تھے۔
سنہ 1857 کے بعد ان کی شعر گوئی پر زوال نہیں آیا تھا اور انگریزوں کے مظالم کے حوالے انہوں نے حذف نہیں کئے تھے۔ لیکن مندرجہ بالا باتوں میں کسی ایک کو بھی ثابت کرنا ممکن نظر نہیں آتا ہے اس لئے شمیم طارق کے اخذ کئے ہوئے نتائج سے اختلاف شاید ممکن نہیں ہے۔ پہلے باب میں البتہ کچھ باتوں کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غالب کے عہد میں سیاسی بے یقینی ہی نہیں تھی، مذہبی تہذیبی اور معاشی انار کی کا بھی دور دورہ تھا، کچھ جماعتیں اگر احیاء مذہب اور ملکی استحکام کے لئے سرگرم عمل تھیں تو زیادہ تر لوگ صرف اپنے لئے جی رہے تھے۔ اس عہد کے بارے میں تاریخ دانوں میں بھی بہت اختلاف رہا ہے۔ شمیم طارق نے مجموعی طور پر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس بے یقینی کے دور میں بھی یقین والے لوگ موجود تھے اور ان کی کوششوں کے سبب ہی سنہ 1803 سے ہی جب شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا تھا ہندوستان انگریزوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کررہا تھا۔ سنہ 1857 اس کا نقطہ عروج تھا۔ اس جنگ میں صرف دو قسم کے لوگ شامل نہیں تھے۔ ایک وہ جو نئے نئے زمیندار ہوئے تھے اور دوسرے روشن خیال لوگ جن کی دولت و سماجی حیثیت کا تمام تر انحصار انگریزوں کی عطا پر تھا۔ غالب دوسری قسم کے لوگوں میں تھے۔ شمیم طارق کے لفظوں میں:
''ان کی نگاہیں کلکتہ اور بنگال کے چہرے پر انگریزوں کے ملے ہوئے غازے سے آگے نہیں دیکھ سیکیں۔ وہ انقلابی بنگال کی اس روح کو بھی نہیں پہچان سکے جو بنگال کی انقلابی اور قومی تحریکوں کی محرک بنی۔ نہ ہی انہوں نے سنہ 1857 کے خاکستر میں چھپی چنگاریوں کی گرمی محسوس کی جو بعد میں ریشمی رومال، دیوبند اور دوسری قومی و انقلابی تحریکوں کی صورت میں شعلہ جوالہ بن کر غلامی کی زنجیروں کو پگھلا دینے کا سبب بنیں۔'' 'ص: 27'
اس باب کا ایک اہم نتیجہ جو انہوں نے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ غالب کے قریبی دوست مولانا فضل حق خیر آبادی اور غالب کی گرفتاری پر خوشی سے بغلیں بجانے والے مولوی باقر ایسے علما میں تھے جن کا انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنا ثابت نہیں ہے۔ مولانا فضل حق کے فتوی کی بڑی تشہیر کی گئی ہے ایک مسلک کے لوگ اس سلسلے میں بڑے جذباتی ہیں لیکن شمیم طارق نے مولانا فضل حق خیر آبادی کے علم و فضل کے اعتراف کے باوجود ان کے جہاد کا فتوی دینے کی روایت کو مطبوعہ تحریروں اور دستاویزوں کی بنیاد پر مسترد کیا ہے۔ انہی کے لفظوں میں:
مولانا امتیاز علی خان عرشی اور مالک رام نے نواب یوسف علی خان والی رام پور کے نام لکھتے ہوئے غالب کے ایک خط اور اصل مقدمہ کے کوائف اور دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر ثابت کردیا ہے کہ:
مولانا نے کبھی کوئی ایسا فتوی دیا ہی نہیں تھا جس میں مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دی گئی ہو۔
غلط فہمی کی بنیاد پر انگریزوں نے انہیں گرفتار کرکے جو مقدما چلایا اس کے دوران وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ میں نے بغاوت میں کوئی حصہ نہیں لیا اور فتوی جہاد پر جن علما کے دستخط ہیں ان میں میرا نام نہیں ہے۔
مولانا نے اپنی پیرانہ سالی، اولاد کی کمسنی اور عسیر الحالی کی دہائی دے کر انگریزوں سے رحم کی پرزور التجا بھی کی۔'' 'ص:33-32'
انگریزوں کو غلط فہمی ہوئی کیوں؟ اس سلسلے میں شمیم طارق کا کہنا ہے کہ مولانا سید فضل حق شاہجہاں پوری ثم رامپوری ایک دوسرے عالم تھے جو شہزادہ فیروز بخت کے ساتھ انگریزوں سے جنگ کررہے تھے نام کی مشابہت کی بنیاد پر انگریزوں کو دھوکہ ہوا۔ جب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے دوسرے شخص کو گرفتار کرلیا ہے تو انہوں نے پروانہ رہائی جاری کیا لیکن جب مولانا کے صاحب زادے پروانہ رہائی لے کر اندمان پہنچے تو مولانا کا جنازہ لے جایا جارہا تھا۔ اس باب میں بھی جو کچھ ہے مدلل ہے۔ حوالوں کے ساتھ ہے اس لئے حیرت ہونے کے باوجود قبول کرنا پڑتا ہے۔ کتاب میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر سید عبدالباری، جناب کالی داس گپتا، رضا اور ڈاکٹر شمس بدایونی کی آرا شامل ہیں اور یہ تمام صاحبان قلم اردو تحقیق و غالبیات میں مستند حوالے کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے آراء کے باوجود اگر کوئی کہے کہ اس کتاب سے مجھے اتفاق نہیں ہے تو اس کی اس سادگی پر مسکرانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کتاب غالب کی شخصیت اور سنہ 1857 کے نتائج میں اس کے مطالعے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حوالے کی کتاب کا بھی درجہ رکھتی ہے۔
علمی تحقیق سے اختلاف سے نئی تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں اس لئے اختلاف کو اگر وہ مدلل ہو برا نہیں سمجھا جاتا، مگر شمیم طارق کی اس کتاب کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والوں کا اصل سرمایہ علیمی استدلال نہیں محض کٹ حجتی محسوس ہوتی ہے۔
دوسری کتاب '' غالب: بہادر شاہ ظفر اور سنہ 1857'' سنہ 1857 کے 150ویں سال میں غالب کے 210ویں یوم ولادت کے موقع پر غالب اکیڈمی دہلی میں دیا گیا شمیم طارق کا خطبہ ہے۔ خطبہ کو کیسٹ کی مدد سے کتاب میں منتقل کیا گیا ہے۔ خطبے اور کتاب میں فرق صرف یہ ہے کہ خطبے میں طویل اقتباسات کی طرف صرف اشارے تھے، کتاب میں اقتباسات شامل کردئے گئے ہیں۔ اس سے کتاب اور زیادہ مستند ہوگئی ہے۔ موضوع جتنا اہم ہے شمیم طارق نے اس پر روشنی بھی اتنی ہی محنت سے ڈالی ہے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے ایک اہم سوال قائم کیا ہے:
''موضوع بہت وسیع ہے اور اس موضوع کا حق تبھی ادا ہوسکتا ہے جب موضوع کے سبھی اجزاء کا احاطہ کیا جائے اور وہ بھی مختلف زاویوں سے۔ لیکن اس سے بھی زیاہ اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ گفتگو ہو کن بنیادوں پر؟ غالب اور بہادر شاہ ظفر تاریخی شخصیتیں ہیں، سنہ 1857 تاریخ کا ایک ورق ہے، مکمل تاریخ ہے اور تاریخ حکایات و قصص کا نام نہیں ہے۔'' 'ص: 10'
اس کتاب میں انہوں نے تاریخی ماخذ کو 5/قسموں میں تقسیم کرکے ان پر روشنی ڈالی ہے۔
1۔پہلی قسم ان تاریخوں اور تذکروں کی ہے جو انگریز دوستوں کے لکھے ہوئے ہیں۔
2۔دوسری قسم کارل مارکس کی کتاب The Indian war of independence 1857-8 جیسی کتابوں پر مشتمل ہے۔
3۔تیسری قسم اس زمانے کے اخبارات و رسائل پر مشتمل ہے۔
4۔چوتھی قسم ملفوضات ادب کی ہے۔ اور بہت اہم ہے۔ اردو میں اس موضوع پر نہیں لکھا گیا تھا۔ شمیم طارق نے اردو والوں کو تاریخ کے ایک بہت اہم ماخذ سے واقف کرایا ہے۔
5۔پانچویں قسم انگریزوں کی رپورٹوں، ڈائریوں، یادداشتوں، ٹریبونل کے فیصلوں اور انتظامی امور کے متعلق جاری کئے گئے حکم ناموں پر مشتمل ہے۔
ماخذ کی ان پانچ قسموں پر گفتگو کرنے کے بعد شمیم طارق نے ماخذ کی روشنی میں جو اہم نکات بیان کئے ہیں یا جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ یہ ہیں:
الف۔''غالب اگر چہ اس معنی میں خوش نصیب شاعر تھے کہ انہیں بہت اچھے سوانح نگار ملے مثلا مولانا الطاف حسین حالی۔
زبردست مداح ملے مثلا عبدالرحمن بجنوری جنہوں نے مقدس وید اور دیوان غالب کو ہم پلہ قرار دے دیا۔
بدترین نکتہ چین ملے مثلا یاس یگانہ چنگیزی جن کی غالب شکنی کی روش نے غالب کو اور زیادہ محبوب بنا دیا۔
بہت اچھے اور بڑی تعداد میں شارح ملے کہ غالب کے کلام کی مکمل، نامکمل شرح کرنے والوں کی تعداد 40 سے زیادہ ہے مگر اس معنی میں وہ بدقسمت بھی تھے کہ انہیں اچھے نقاد نہیں ملے۔'' 'ص: 35'
ب۔ ''بہادر شاہ ظفر کو وہ شاہانہ وقار ایک پل کے لئے بھی نصیب نہیں ہوا جو باہر سے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر تک ہر مغل بادشاہ کو حاصل تھا مگر وہ بادشاہ اس لئے کہے جاتے تھے کہ دادودہش، اہل علم اور اہل ہند کی قدردانی اور رعایا پروری جیسے شاہانہ اوصاف ان کے مزاج و کردار کا حصہ تھے۔'' 'ص:10'
ج۔ ''سنہ 1857 ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی خونیں لکیر کانام ہے جو وقت کے ساتھ مدہم ہونے بجائے نمایاں ہوتی جارہی ہے اس کو ایک عہد کا خاتمہ کہیں تو درست اور ایک عہد کا آغاز کہیں تو درست۔ ایک عہد کا آغاز اس لئے کہ اس کے صرف 90 سال بعد انگریز آزادی کی متعین تاریخ سے پہلے ہی ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔'' 'ص:10'
نئے ماخذ کی نشاندہی، ان پر بحث اور واقعات کی تاریخ وار ترتیب پیش کرنے کے بعد شمیم طارق نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ کتاب کا حاصل ہے۔
''سنہ 1857 کے سوسال پہلے ہی سے ہندوستان لاشعوری طور پر انگریزوں کے خلاف جنگ کی تیاری کررہا تھا۔
''سنہ 1857 میں افراتفری تھی اس کے باوجود ہندوستان کے طول و عرض میں ہی نہیں دلی کے محاذ پر بھی انگریزوں کو شکست ہورہی تھی اس شکست کو انگریزوں کے ہندوستانی جاسوسوں اور ایجنٹوں نے فتح میں تبدیل کیا اور وہ اس طرح کے انہوں نے کبھی پُل اڑا کر، کبھی بارود خانوں اور توپوں کو تباہ کرکے، کبھی حملے کی پیشگی خبر سے انگریزوں کو خبردار کرکے اور کبھی مسلح مزاحمت کرنے والوں میں اختلاف پیدا کرکے انگریزوں کی مدد کی۔'' 'ص:64'
یہ کتاب نہایت جامع اور پراز معلومات ہے، حوالوں حاشیوں سے سجی ہوئی ہے، انداز بیان اتنا پر اثر ہے کہ ایک بار ہاتھ میں آجائے تو ختم کئے بغیر نہیں رہا جاتا۔ قاری جگہ جگہ چونکتا ہے۔ یہی اس کتاب کا کمال ہے کہ قاری جہاں چونکتا ہے وہاں بھی مصنف سے اختلاف نہیں کر پاتا کیونکہ چونکا دینے والا ہر انکشاف یا اخذ کیا گیا ہر نتیجہ نہ صرف مدلل بلکہ متوازن بھی ہے۔
مختصر لفظوں میں شمیم طارق کی دونوں کتابیں غالبیات میں نئے دریچے واکرتی ہیں۔ ان کی حیثیت ایک مصدر و مرجع کی ہے۔ شمیم طارق پر پتھراؤ کرنے سے ان کتابوں کی اہمیت کم نہ ہوگی۔ وقت کے ساتھ ان کی اہمیت بھی بڑھے گی اور مقبولیت بھی۔ یہ پیشن گوئی گزشتہ 6 برسوں کے تجربات کا خاصہ ہے جن میں : ''غالب اور ہماری تحریک آزادی'' کو اہم کتاب تسلیم کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔
تحریر: محمد شعیب کوٹی
بشکریہ فیس بک
''سنہ 1857 کے بعد غالب کی مطبوعات'' کے عنوان سے یہ اطلاع فراہم کرنے کے ساتھ کہ غالب کی کل 33 کتابیں شائع ہوئیں، یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ 33 میں سے 8 مطبوعات سنہ 1857 سے پہلے اور 1857 کے بعد شائع ہوئیں۔ ہر کتاب کا نام اور سن اشاعت درج ہے۔ ضخیمے میں جو کچھ شامل ہے ان کی اہمیت اور اندازہ پروفیسر سید عبدالباری کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ''انہوں'شمیم طارق' نے بعض ایسے نوادر اس کتاب میں شامل کردئیے ہیں جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں''۔ ''غالب اور ہماری تحریک آزادی'' کے عنوان کے تحت انہوں نے جو باب قائم کیا ہے اس میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:
ان ''غالب'' کے ذاتی کردار سے یقینا صرفِ نظر ضروری ہے کہ کسی کی خوابگاہ میں جھانکنا اخلاقی گناہ ہے مگر قومی امور میں کسی فرد واحد کے کردار کی ایسی توجیہ جس سے وطن عزیز پر جان دینے والے لاکھوں وطن دوستوں کی قربانیوں پر حرف آتا ہو اخلاقی گناہ کے ساتھ قومی گناہ بھی ہے۔'' 'ص:116-117'
''غالب اور سرسید'' کے عنوان سے جو باب قائم کیا گیا ہے اور میں غالب کے مذہب و عقیدہ پر روشنی ڈالنے کے بعد غالب اور سرسید کے نظریات کا موازنہ کرتے ہوئے، واضح کیا گیا ہے کہ غالب کو صرف اپنا مفاد عزیز تھا اور سرسید کو پوری ملت کا۔ یہ بہت اہم باب ہے اور برسہا برس کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے۔ یہی خوبی پوری کتاب کی ہے جو حوالوں اور حواشی سے مزین ہے۔ اس باب میں شمیم طارق نے جو سوالات قائم کئے ہیں یا جو انکشافات کئے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ماہرین غالبیات نے بہت سی باتوں کو یونہی فرض کرلیا تھا۔
شمیم طارق نے غالب کی نظم و نثر کے حوالے سے ان کی نفی کی ہے۔ انہوں نے حوالے سے واضح کیا ہے کہ:
''نظم و نثر دونوں میں غالب نے اپنے عقیدہ و مذہب کے متعلق بھی جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کا حنفی، صوفی، تفصیلی، اثناعشری، نیم مسلمان و مطلقا کافر ہونا سب ثابت ہوتا ہے اور قطع نظر اس سے کہ حالی سے کالی داس گپتا رضا تک غالب کے مذہب کے متعلق کس نے کیا لکھا ہے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے راقم الحروف یہ سمجھتا ہے کہ وقت و حالات کے تحت ہی نہیں مخاطب و مکتوب الیہم کی رعایت سے بھی غالب کے اظہار عقیدہ میں فرق آتا گیا ہے۔'' 'ص:130-131'
اس کے بعد غالب کے خطوط اور اشعار سے ثبوت فراہم کئے گئے ہیں لیکن نتیجہ اخذ کرنے میں حسن ظن کا مظاہرہ کیا گیا ہے:
بسوز غالب آزادہ را و باک مدار
بشرطِ آں کہ تواں گفت نا مسلمانانش
''اور جو مسلمان ہونے کی مدعی ہوں ہم انہیں مسلمان ہی کہیں گے۔'' 'ص:123
''دستنبو پر ایک نظر'' کے عنوان سے انہوں نے غالب کی تحریروں کی روشنی میں ہی ان کے متعدد اکاذیب کی نشاندہی کی ہے۔
غالب کی قصیدہ گوئی سے انہوں نے واضح کیا ہے کہ: وہ شہنشاہ دلی کی موجودگی میں ان کے علاوہ دوسرے نوابوں اور مہاراجوں کی شان میں بھی قصیدے کہا کرتے تھے حتی کہ انہوں نے انگریزون کی قصیدہ خوانی بھی شروع کردی تھی۔
ان کے متعدد فیصلے ایسے بھی ہیں جو اولا کسی اور کی مدح میں لکھے گئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے قدرے تغیر کے ساتھ ان کے ممدوح بدل دئے گئے۔
وہ قصیدہ لکھنے اور ممدوح کے پاس بھیجنے کے بعد خاموش نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ممدوح کو یاد دہانی بھی کراتے تھے کہ وہ انعام سے نوازیں۔
یاد دہانی کے ساتھ وہ اپنے ممدوح سے اس خواہش کا اظہار کرنے میں بھی ججھک محسوس نہیں کرتے کہ قصیدہ کا صلہ اس قدر ملے۔
قصیدوں اور خطوں میں ترمیم و تنسیج کرنے کے ساتھ انہوں نے اپنے نسب کے اظہار میں بھی تضاد بیانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 'ص: 150'
''ایک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خاموش ہے'' کے عنوان سے انہوں نے ثبوت و شواہد کی بنیاد پر باور کرایا ہے کہ سنہ 1857 کے المناک حوادث و واقعات غالب کے شعری تجربے میں نہیں ڈھل سکے، بعد والوں نے سنہ 1857 سے 35 تا 41 سال پہلے کہے ہوئے شعروں کو سنہ 1857 کے واقعات پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔
آخری باب میں غالب کے خطوط پر مجموعی تبصرے کے ساتھ غالب کے سنہ 1857 سے متعلق خطوط کے اقتباسات کو تاریخی ترتیب سے یکجا کردیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ پہلا خط 5ڈسمبر سنہ 1857 کا اور آخری خط 15 فروری سنہ 1867 کا ہے۔ ان خطوط کی روشنی میں غالب کے دل کی کیفیت کے ساتھ دلی کی پوری کیفیت بھی سامنے آجاتی ہے۔ شمیم طارق کے لفظوں میں:
''انہیں تسلسل سے پڑھنے اور ان میں بیان کئے ہوئے واقعات و حالات کا ہم عصر روز نامچوں، تذکروں، حکام کی خفیہ اور انتظامی رپورٹوں اور مؤرخین کی بیان کی گئی شہادتوں سے موازنہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ غالب سے کہاں سہو ہوا ہے، کہاں انہوں نے قصدا جھوٹ کا سہارا لیا ہے اور کہاں انہوں نے انگریزوں کے بے پناہ مظالم کے حوالے مصلحتا حذف کردئے ہیں۔'' 'ص:180'
مندرجہ بالا تعارف و تجزیہ دوسرے سے آخری باب تک کا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان ابواب میں جو نتائج اخذ کئے گئے یا جو شواہد پیش کئے گئے ہیں ان سے اختلاف کرنا ممکن نہیں ہے اور اس کی دو اہم وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انہوں نے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ غالب ہی کے بیانات و اعترافات پر مبنی ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اختلاف کرنے والوں کو ثابت کرنا پڑے گا کہ:
غالب کو احساس تھا کہ ان کے انتقال '78برس' اور سنہ 1857 کے 90 برس بعد انگریزوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا۔
دستنبو میں انہوں نے جھوٹ کا سہارا نہیں لیا ہے۔
ایک کے قصیدے کو دوسرے کے لئے استعمال نہیں کرتے تھے یا قصیدہ پیش کرنے کے بعد صلہ کا بھی تقاضہ نہیں کرتے تھے۔
سنہ 1857 کے بعد ان کی شعر گوئی پر زوال نہیں آیا تھا اور انگریزوں کے مظالم کے حوالے انہوں نے حذف نہیں کئے تھے۔ لیکن مندرجہ بالا باتوں میں کسی ایک کو بھی ثابت کرنا ممکن نظر نہیں آتا ہے اس لئے شمیم طارق کے اخذ کئے ہوئے نتائج سے اختلاف شاید ممکن نہیں ہے۔ پہلے باب میں البتہ کچھ باتوں کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غالب کے عہد میں سیاسی بے یقینی ہی نہیں تھی، مذہبی تہذیبی اور معاشی انار کی کا بھی دور دورہ تھا، کچھ جماعتیں اگر احیاء مذہب اور ملکی استحکام کے لئے سرگرم عمل تھیں تو زیادہ تر لوگ صرف اپنے لئے جی رہے تھے۔ اس عہد کے بارے میں تاریخ دانوں میں بھی بہت اختلاف رہا ہے۔ شمیم طارق نے مجموعی طور پر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس بے یقینی کے دور میں بھی یقین والے لوگ موجود تھے اور ان کی کوششوں کے سبب ہی سنہ 1803 سے ہی جب شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا تھا ہندوستان انگریزوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کررہا تھا۔ سنہ 1857 اس کا نقطہ عروج تھا۔ اس جنگ میں صرف دو قسم کے لوگ شامل نہیں تھے۔ ایک وہ جو نئے نئے زمیندار ہوئے تھے اور دوسرے روشن خیال لوگ جن کی دولت و سماجی حیثیت کا تمام تر انحصار انگریزوں کی عطا پر تھا۔ غالب دوسری قسم کے لوگوں میں تھے۔ شمیم طارق کے لفظوں میں:
''ان کی نگاہیں کلکتہ اور بنگال کے چہرے پر انگریزوں کے ملے ہوئے غازے سے آگے نہیں دیکھ سیکیں۔ وہ انقلابی بنگال کی اس روح کو بھی نہیں پہچان سکے جو بنگال کی انقلابی اور قومی تحریکوں کی محرک بنی۔ نہ ہی انہوں نے سنہ 1857 کے خاکستر میں چھپی چنگاریوں کی گرمی محسوس کی جو بعد میں ریشمی رومال، دیوبند اور دوسری قومی و انقلابی تحریکوں کی صورت میں شعلہ جوالہ بن کر غلامی کی زنجیروں کو پگھلا دینے کا سبب بنیں۔'' 'ص: 27'
اس باب کا ایک اہم نتیجہ جو انہوں نے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ غالب کے قریبی دوست مولانا فضل حق خیر آبادی اور غالب کی گرفتاری پر خوشی سے بغلیں بجانے والے مولوی باقر ایسے علما میں تھے جن کا انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنا ثابت نہیں ہے۔ مولانا فضل حق کے فتوی کی بڑی تشہیر کی گئی ہے ایک مسلک کے لوگ اس سلسلے میں بڑے جذباتی ہیں لیکن شمیم طارق نے مولانا فضل حق خیر آبادی کے علم و فضل کے اعتراف کے باوجود ان کے جہاد کا فتوی دینے کی روایت کو مطبوعہ تحریروں اور دستاویزوں کی بنیاد پر مسترد کیا ہے۔ انہی کے لفظوں میں:
مولانا امتیاز علی خان عرشی اور مالک رام نے نواب یوسف علی خان والی رام پور کے نام لکھتے ہوئے غالب کے ایک خط اور اصل مقدمہ کے کوائف اور دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر ثابت کردیا ہے کہ:
مولانا نے کبھی کوئی ایسا فتوی دیا ہی نہیں تھا جس میں مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دی گئی ہو۔
غلط فہمی کی بنیاد پر انگریزوں نے انہیں گرفتار کرکے جو مقدما چلایا اس کے دوران وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ میں نے بغاوت میں کوئی حصہ نہیں لیا اور فتوی جہاد پر جن علما کے دستخط ہیں ان میں میرا نام نہیں ہے۔
مولانا نے اپنی پیرانہ سالی، اولاد کی کمسنی اور عسیر الحالی کی دہائی دے کر انگریزوں سے رحم کی پرزور التجا بھی کی۔'' 'ص:33-32'
انگریزوں کو غلط فہمی ہوئی کیوں؟ اس سلسلے میں شمیم طارق کا کہنا ہے کہ مولانا سید فضل حق شاہجہاں پوری ثم رامپوری ایک دوسرے عالم تھے جو شہزادہ فیروز بخت کے ساتھ انگریزوں سے جنگ کررہے تھے نام کی مشابہت کی بنیاد پر انگریزوں کو دھوکہ ہوا۔ جب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے دوسرے شخص کو گرفتار کرلیا ہے تو انہوں نے پروانہ رہائی جاری کیا لیکن جب مولانا کے صاحب زادے پروانہ رہائی لے کر اندمان پہنچے تو مولانا کا جنازہ لے جایا جارہا تھا۔ اس باب میں بھی جو کچھ ہے مدلل ہے۔ حوالوں کے ساتھ ہے اس لئے حیرت ہونے کے باوجود قبول کرنا پڑتا ہے۔ کتاب میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر سید عبدالباری، جناب کالی داس گپتا، رضا اور ڈاکٹر شمس بدایونی کی آرا شامل ہیں اور یہ تمام صاحبان قلم اردو تحقیق و غالبیات میں مستند حوالے کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے آراء کے باوجود اگر کوئی کہے کہ اس کتاب سے مجھے اتفاق نہیں ہے تو اس کی اس سادگی پر مسکرانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کتاب غالب کی شخصیت اور سنہ 1857 کے نتائج میں اس کے مطالعے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حوالے کی کتاب کا بھی درجہ رکھتی ہے۔
علمی تحقیق سے اختلاف سے نئی تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں اس لئے اختلاف کو اگر وہ مدلل ہو برا نہیں سمجھا جاتا، مگر شمیم طارق کی اس کتاب کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والوں کا اصل سرمایہ علیمی استدلال نہیں محض کٹ حجتی محسوس ہوتی ہے۔
دوسری کتاب '' غالب: بہادر شاہ ظفر اور سنہ 1857'' سنہ 1857 کے 150ویں سال میں غالب کے 210ویں یوم ولادت کے موقع پر غالب اکیڈمی دہلی میں دیا گیا شمیم طارق کا خطبہ ہے۔ خطبہ کو کیسٹ کی مدد سے کتاب میں منتقل کیا گیا ہے۔ خطبے اور کتاب میں فرق صرف یہ ہے کہ خطبے میں طویل اقتباسات کی طرف صرف اشارے تھے، کتاب میں اقتباسات شامل کردئے گئے ہیں۔ اس سے کتاب اور زیادہ مستند ہوگئی ہے۔ موضوع جتنا اہم ہے شمیم طارق نے اس پر روشنی بھی اتنی ہی محنت سے ڈالی ہے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے ایک اہم سوال قائم کیا ہے:
''موضوع بہت وسیع ہے اور اس موضوع کا حق تبھی ادا ہوسکتا ہے جب موضوع کے سبھی اجزاء کا احاطہ کیا جائے اور وہ بھی مختلف زاویوں سے۔ لیکن اس سے بھی زیاہ اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ گفتگو ہو کن بنیادوں پر؟ غالب اور بہادر شاہ ظفر تاریخی شخصیتیں ہیں، سنہ 1857 تاریخ کا ایک ورق ہے، مکمل تاریخ ہے اور تاریخ حکایات و قصص کا نام نہیں ہے۔'' 'ص: 10'
اس کتاب میں انہوں نے تاریخی ماخذ کو 5/قسموں میں تقسیم کرکے ان پر روشنی ڈالی ہے۔
1۔پہلی قسم ان تاریخوں اور تذکروں کی ہے جو انگریز دوستوں کے لکھے ہوئے ہیں۔
2۔دوسری قسم کارل مارکس کی کتاب The Indian war of independence 1857-8 جیسی کتابوں پر مشتمل ہے۔
3۔تیسری قسم اس زمانے کے اخبارات و رسائل پر مشتمل ہے۔
4۔چوتھی قسم ملفوضات ادب کی ہے۔ اور بہت اہم ہے۔ اردو میں اس موضوع پر نہیں لکھا گیا تھا۔ شمیم طارق نے اردو والوں کو تاریخ کے ایک بہت اہم ماخذ سے واقف کرایا ہے۔
5۔پانچویں قسم انگریزوں کی رپورٹوں، ڈائریوں، یادداشتوں، ٹریبونل کے فیصلوں اور انتظامی امور کے متعلق جاری کئے گئے حکم ناموں پر مشتمل ہے۔
ماخذ کی ان پانچ قسموں پر گفتگو کرنے کے بعد شمیم طارق نے ماخذ کی روشنی میں جو اہم نکات بیان کئے ہیں یا جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ یہ ہیں:
الف۔''غالب اگر چہ اس معنی میں خوش نصیب شاعر تھے کہ انہیں بہت اچھے سوانح نگار ملے مثلا مولانا الطاف حسین حالی۔
زبردست مداح ملے مثلا عبدالرحمن بجنوری جنہوں نے مقدس وید اور دیوان غالب کو ہم پلہ قرار دے دیا۔
بدترین نکتہ چین ملے مثلا یاس یگانہ چنگیزی جن کی غالب شکنی کی روش نے غالب کو اور زیادہ محبوب بنا دیا۔
بہت اچھے اور بڑی تعداد میں شارح ملے کہ غالب کے کلام کی مکمل، نامکمل شرح کرنے والوں کی تعداد 40 سے زیادہ ہے مگر اس معنی میں وہ بدقسمت بھی تھے کہ انہیں اچھے نقاد نہیں ملے۔'' 'ص: 35'
ب۔ ''بہادر شاہ ظفر کو وہ شاہانہ وقار ایک پل کے لئے بھی نصیب نہیں ہوا جو باہر سے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر تک ہر مغل بادشاہ کو حاصل تھا مگر وہ بادشاہ اس لئے کہے جاتے تھے کہ دادودہش، اہل علم اور اہل ہند کی قدردانی اور رعایا پروری جیسے شاہانہ اوصاف ان کے مزاج و کردار کا حصہ تھے۔'' 'ص:10'
ج۔ ''سنہ 1857 ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی خونیں لکیر کانام ہے جو وقت کے ساتھ مدہم ہونے بجائے نمایاں ہوتی جارہی ہے اس کو ایک عہد کا خاتمہ کہیں تو درست اور ایک عہد کا آغاز کہیں تو درست۔ ایک عہد کا آغاز اس لئے کہ اس کے صرف 90 سال بعد انگریز آزادی کی متعین تاریخ سے پہلے ہی ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔'' 'ص:10'
نئے ماخذ کی نشاندہی، ان پر بحث اور واقعات کی تاریخ وار ترتیب پیش کرنے کے بعد شمیم طارق نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ کتاب کا حاصل ہے۔
''سنہ 1857 کے سوسال پہلے ہی سے ہندوستان لاشعوری طور پر انگریزوں کے خلاف جنگ کی تیاری کررہا تھا۔
''سنہ 1857 میں افراتفری تھی اس کے باوجود ہندوستان کے طول و عرض میں ہی نہیں دلی کے محاذ پر بھی انگریزوں کو شکست ہورہی تھی اس شکست کو انگریزوں کے ہندوستانی جاسوسوں اور ایجنٹوں نے فتح میں تبدیل کیا اور وہ اس طرح کے انہوں نے کبھی پُل اڑا کر، کبھی بارود خانوں اور توپوں کو تباہ کرکے، کبھی حملے کی پیشگی خبر سے انگریزوں کو خبردار کرکے اور کبھی مسلح مزاحمت کرنے والوں میں اختلاف پیدا کرکے انگریزوں کی مدد کی۔'' 'ص:64'
یہ کتاب نہایت جامع اور پراز معلومات ہے، حوالوں حاشیوں سے سجی ہوئی ہے، انداز بیان اتنا پر اثر ہے کہ ایک بار ہاتھ میں آجائے تو ختم کئے بغیر نہیں رہا جاتا۔ قاری جگہ جگہ چونکتا ہے۔ یہی اس کتاب کا کمال ہے کہ قاری جہاں چونکتا ہے وہاں بھی مصنف سے اختلاف نہیں کر پاتا کیونکہ چونکا دینے والا ہر انکشاف یا اخذ کیا گیا ہر نتیجہ نہ صرف مدلل بلکہ متوازن بھی ہے۔
مختصر لفظوں میں شمیم طارق کی دونوں کتابیں غالبیات میں نئے دریچے واکرتی ہیں۔ ان کی حیثیت ایک مصدر و مرجع کی ہے۔ شمیم طارق پر پتھراؤ کرنے سے ان کتابوں کی اہمیت کم نہ ہوگی۔ وقت کے ساتھ ان کی اہمیت بھی بڑھے گی اور مقبولیت بھی۔ یہ پیشن گوئی گزشتہ 6 برسوں کے تجربات کا خاصہ ہے جن میں : ''غالب اور ہماری تحریک آزادی'' کو اہم کتاب تسلیم کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔
تحریر: محمد شعیب کوٹی
بشکریہ فیس بک