سید ذیشان
محفلین
ہوئی مدت کی غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
15 فروری 1869 کو مرزا غالب اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہرگز نہیں ہوگا کہ ان کی وفات کے ڈیڑھ سو برس بعد بھی لوگوں کے دلوں میں ان کا کیا مقام ہوگا۔ ہمارے لئے غالب کا وہی مقام ہے جو انگریزوں کے لئے شیکسپیئر کا، یا ایرانیوں کے لئے فردوسی کا ہے۔ غالب نے ایک خط میں لکھا:
"
اس وقت میں غالب سے متعلق چند چیزیں پیش کروں گا۔
ایک شعر:
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
نظم طباطبائی اس شعر کے بارے میں لکھتے ہیں:
اسقدر معانی ان دونوں مصرعوں میں سما گئی ہیں کہ ان کی تفصیل لطف سے خالی نہیں ہے!
(ایک طائر چمن اور نشیمن سے جدا ہو کر اسیر ہو گیا ہے) اس مضمون پر فقط ایک لفظ قفس اشارہ کر رہا ہے۔
2۔(اس نے اپنی آنکھوں سے باغ میں بجلی گرتے ہوئے دیکھی ہے اور قفس میں متردد ہے کہ نجانے میرا آشیانہ بچا یا جل گیا) اس تمام معانی پر فقط کل کا لفظ دلالت کر رہا ہے۔
3- (ایک اور طائر جو اسکا ہم صفیر و ہمدم ہے وہ سامنے کسی درخت پر آ کر بیٹھا ہے اور اسیرِ قفس نے اس سے روداد چمن کو دریافت کرنا چاہا مگر اس سبب سے کہ اسی کا نشیمن جل گیا ہے طائر ہم صفیر مفصل حال کہتے ہوئے پس و پیش کرتا ہے کہ اس آفت اسیری میں نشیمن کے کلنے کی کیا خبر سناوں) اس تمام مضمون پر فقط یہ جملہ دلالت کرتا ہے کہ مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم۔
4۔ علاوہ اس کثرتِ معانی کے اس مضمون نے جو دوسرے مصرع میں ہے تمام واقعہ کو کیسا دردناک کر دیا ہے یعنی جس گرفتار ِ قفس پر ایک ایسی تازہ آفت و بلائے آسمانی نازل ہوئی ہے اس نے کیسا اپنے دل کو سمجھا کر مطمئن کر لیا ہے کہ باغ میں ہزاروں آشیانہ ہیں کیا میرے ہی نشیمن پر بجلی گری ہوگی۔ یہ حالت ایسی ہے کہ دیکھنے والوں کا اور سننے والوں کا دل کڑھتا ہے اور ترس آتا ہے اور یہ ترس بڑے جلیل الشان مسئلوں کی جو کہ آداب کاتب و شاعر میں اہم اصول ہیں ایک مسئلہ تو یہ کہ خیرالکلام ما قل دول اور دوسرا مسئلہ یہ کہ الشعر کلام ینقض بہ النفس و یبسط- اور یہاں انقباض خاطر کا اثر پیدا ہوا ہے۔
ایک خط:
بہ آواز ضیاء محی الدین
دو غزلیں:
بہ آواز ضیاء محی الدین
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
ایک غزل:
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا بہ آواز عابدہ پروین
وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
15 فروری 1869 کو مرزا غالب اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہرگز نہیں ہوگا کہ ان کی وفات کے ڈیڑھ سو برس بعد بھی لوگوں کے دلوں میں ان کا کیا مقام ہوگا۔ ہمارے لئے غالب کا وہی مقام ہے جو انگریزوں کے لئے شیکسپیئر کا، یا ایرانیوں کے لئے فردوسی کا ہے۔ غالب نے ایک خط میں لکھا:
"
سنو صاحب! شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں، یہ تین آدمی تین فن میں سرِ دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے، فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے، عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو....
"اس وقت میں غالب سے متعلق چند چیزیں پیش کروں گا۔
ایک شعر:
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
نظم طباطبائی اس شعر کے بارے میں لکھتے ہیں:
اسقدر معانی ان دونوں مصرعوں میں سما گئی ہیں کہ ان کی تفصیل لطف سے خالی نہیں ہے!
(ایک طائر چمن اور نشیمن سے جدا ہو کر اسیر ہو گیا ہے) اس مضمون پر فقط ایک لفظ قفس اشارہ کر رہا ہے۔
2۔(اس نے اپنی آنکھوں سے باغ میں بجلی گرتے ہوئے دیکھی ہے اور قفس میں متردد ہے کہ نجانے میرا آشیانہ بچا یا جل گیا) اس تمام معانی پر فقط کل کا لفظ دلالت کر رہا ہے۔
3- (ایک اور طائر جو اسکا ہم صفیر و ہمدم ہے وہ سامنے کسی درخت پر آ کر بیٹھا ہے اور اسیرِ قفس نے اس سے روداد چمن کو دریافت کرنا چاہا مگر اس سبب سے کہ اسی کا نشیمن جل گیا ہے طائر ہم صفیر مفصل حال کہتے ہوئے پس و پیش کرتا ہے کہ اس آفت اسیری میں نشیمن کے کلنے کی کیا خبر سناوں) اس تمام مضمون پر فقط یہ جملہ دلالت کرتا ہے کہ مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم۔
4۔ علاوہ اس کثرتِ معانی کے اس مضمون نے جو دوسرے مصرع میں ہے تمام واقعہ کو کیسا دردناک کر دیا ہے یعنی جس گرفتار ِ قفس پر ایک ایسی تازہ آفت و بلائے آسمانی نازل ہوئی ہے اس نے کیسا اپنے دل کو سمجھا کر مطمئن کر لیا ہے کہ باغ میں ہزاروں آشیانہ ہیں کیا میرے ہی نشیمن پر بجلی گری ہوگی۔ یہ حالت ایسی ہے کہ دیکھنے والوں کا اور سننے والوں کا دل کڑھتا ہے اور ترس آتا ہے اور یہ ترس بڑے جلیل الشان مسئلوں کی جو کہ آداب کاتب و شاعر میں اہم اصول ہیں ایک مسئلہ تو یہ کہ خیرالکلام ما قل دول اور دوسرا مسئلہ یہ کہ الشعر کلام ینقض بہ النفس و یبسط- اور یہاں انقباض خاطر کا اثر پیدا ہوا ہے۔
ایک خط:
بہ آواز ضیاء محی الدین
دو غزلیں:
بہ آواز ضیاء محی الدین
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
ایک غزل:
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا بہ آواز عابدہ پروین