مرزا غالب کی 144ویں برسی

سید ذیشان

محفلین
ہوئی مدت کی غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا



15 فروری 1869 کو مرزا غالب اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہرگز نہیں ہوگا کہ ان کی وفات کے ڈیڑھ سو برس بعد بھی لوگوں کے دلوں میں ان کا کیا مقام ہوگا۔ ہمارے لئے غالب کا وہی مقام ہے جو انگریزوں کے لئے شیکسپیئر کا، یا ایرانیوں کے لئے فردوسی کا ہے۔ غالب نے ایک خط میں لکھا:
"
سنو صاحب! شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں، یہ تین آدمی تین فن میں سرِ دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے، فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے، عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو....
"

اس وقت میں غالب سے متعلق چند چیزیں پیش کروں گا۔

ایک شعر:
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

نظم طباطبائی اس شعر کے بارے میں لکھتے ہیں:
اسقدر معانی ان دونوں مصرعوں میں سما گئی ہیں کہ ان کی تفصیل لطف سے خالی نہیں ہے!
(ایک طائر چمن اور نشیمن سے جدا ہو کر اسیر ہو گیا ہے) اس مضمون پر فقط ایک لفظ قفس اشارہ کر رہا ہے۔
2۔(اس نے اپنی آنکھوں سے باغ میں بجلی گرتے ہوئے دیکھی ہے اور قفس میں متردد ہے کہ نجانے میرا آشیانہ بچا یا جل گیا) اس تمام معانی پر فقط کل کا لفظ دلالت کر رہا ہے۔
3- (ایک اور طائر جو اسکا ہم صفیر و ہمدم ہے وہ سامنے کسی درخت پر آ کر بیٹھا ہے اور اسیرِ قفس نے اس سے روداد چمن کو دریافت کرنا چاہا مگر اس سبب سے کہ اسی کا نشیمن جل گیا ہے طائر ہم صفیر مفصل حال کہتے ہوئے پس و پیش کرتا ہے کہ اس آفت اسیری میں نشیمن کے کلنے کی کیا خبر سناوں) اس تمام مضمون پر فقط یہ جملہ دلالت کرتا ہے کہ مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم۔
4۔ علاوہ اس کثرتِ معانی کے اس مضمون نے جو دوسرے مصرع میں ہے تمام واقعہ کو کیسا دردناک کر دیا ہے یعنی جس گرفتار ِ قفس پر ایک ایسی تازہ آفت و بلائے آسمانی نازل ہوئی ہے اس نے کیسا اپنے دل کو سمجھا کر مطمئن کر لیا ہے کہ باغ میں ہزاروں آشیانہ ہیں کیا میرے ہی نشیمن پر بجلی گری ہوگی۔ یہ حالت ایسی ہے کہ دیکھنے والوں کا اور سننے والوں کا دل کڑھتا ہے اور ترس آتا ہے اور یہ ترس بڑے جلیل الشان مسئلوں کی جو کہ آداب کاتب و شاعر میں اہم اصول ہیں ایک مسئلہ تو یہ کہ خیرالکلام ما قل دول اور دوسرا مسئلہ یہ کہ الشعر کلام ینقض بہ النفس و یبسط- اور یہاں انقباض خاطر کا اثر پیدا ہوا ہے۔

ایک خط:
بہ آواز ضیاء محی الدین

دو غزلیں:
بہ آواز ضیاء محی الدین

ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا


ایک غزل:

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا بہ آواز عابدہ پروین
 

مہ جبین

محفلین
ہوئی مدت کی غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

کیا کہنے ہیں
غالب تو واقعی غالب ہی ہیں

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
 

حسان خان

لائبریرین
میر انیس نے مرزا غالب کے انتقال پر یوں منظوم خراج ادا کیا تھا:

گلزارِ جہاں سے باغِ جنت میں گئے
مرحوم ہوئے جوارِ رحمت میں گئے
مداحِ علی کا مرتبہ اعلی ہے
غالب اسد اللہ کی خدمت میں گئے
(میر انیس)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جیسا منظوم خراجِ تحسین علامہ اقبالؒ نے غالب کو پیش کیا ہے، ویسا کہیں نظر نہیں آتا۔


مرزا غالب

فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا

تھا سراپا روح تو ، بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا

دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار

تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار

زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں

نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر

شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلی گل شیراز پر

آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے

لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں

ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں

گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزیِ پروانہ ہے

اے جہان آباد ، اے گہوارۂ علم و ہنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در

ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر

دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟

 
Top