طارق شاہ
محفلین
مِرزا یاس، یگانہ،چنگیزی
بخت بیدار اگر سِلسِلہ جُنباں ہو جائے
شام سے بڑھ کے سَحر دست و گریباں ہوجائے
پڑھ کے دو کلمے اگر کوئی مُسلماں ہوجائے
پھر تو حیوان بھی دو دن میں اِنساں ہو جائے
آگ میں ہو جسے جلنا تو وہ ہندُو بن جائے
خاک میں ہو جسے مِلنا وہ مُسلماں ہو جائے
دُشمن و دوست سے آباد ہیں دونوں پہلوُ
نام جانے کا نہ لے جو مِرا مہماں ہو جائے
درد کا قحط ہو، دِل کا کوئی گاہک نہ رہے
وائے بر عِشق کہ بازیچۂ طِفلاں ہو جائے
روگ ایسا لگے پھر جس کی دوا ہو نہ دُعا
درد سے پہلے جو دِل خُوگرِ درماں ہو جائے
خوابِ شِیریں نہ سہی خوابِ پریشاں ہی سہی
دِل بہلنے کا شبِ غم کوئی ساماں ہو جائے
پاؤں پھیلاتے ہیں رہ رہ کے اسیرانِ ہوَس
چاہتے ہیں قفسِ تنگ گُلِستاں ہو جائے
دِل کو کُچھ زندگیِ عِشق کی لذّت تو مِلے
خاک سے پاک ہو یا خاک سے یکساں ہوجائے
اُف رے آغازِ خطرناک! کہ رکھتے ہی قدم
منزلِ دیر و حرَم بُھول بُھلّیاں ہو جائے
نشّۂ حُسن کو اِس طرح اُترتے دیکھا
عیب پر اپنے کوئی جیسے پشیماں ہو جائے
یاس بیداریِ موہُوم ہے ساری ہستی
آنکھ ہو بند تو سب خواب پریشاں ہوجائے
مِرزا یاس، یگانہ،چنگیزی
(مِرزا واجد حسین عظیم آبادی )
بخت بیدار اگر سِلسِلہ جُنباں ہو جائے
شام سے بڑھ کے سَحر دست و گریباں ہوجائے
پڑھ کے دو کلمے اگر کوئی مُسلماں ہوجائے
پھر تو حیوان بھی دو دن میں اِنساں ہو جائے
آگ میں ہو جسے جلنا تو وہ ہندُو بن جائے
خاک میں ہو جسے مِلنا وہ مُسلماں ہو جائے
دُشمن و دوست سے آباد ہیں دونوں پہلوُ
نام جانے کا نہ لے جو مِرا مہماں ہو جائے
درد کا قحط ہو، دِل کا کوئی گاہک نہ رہے
وائے بر عِشق کہ بازیچۂ طِفلاں ہو جائے
روگ ایسا لگے پھر جس کی دوا ہو نہ دُعا
درد سے پہلے جو دِل خُوگرِ درماں ہو جائے
خوابِ شِیریں نہ سہی خوابِ پریشاں ہی سہی
دِل بہلنے کا شبِ غم کوئی ساماں ہو جائے
پاؤں پھیلاتے ہیں رہ رہ کے اسیرانِ ہوَس
چاہتے ہیں قفسِ تنگ گُلِستاں ہو جائے
دِل کو کُچھ زندگیِ عِشق کی لذّت تو مِلے
خاک سے پاک ہو یا خاک سے یکساں ہوجائے
اُف رے آغازِ خطرناک! کہ رکھتے ہی قدم
منزلِ دیر و حرَم بُھول بُھلّیاں ہو جائے
نشّۂ حُسن کو اِس طرح اُترتے دیکھا
عیب پر اپنے کوئی جیسے پشیماں ہو جائے
یاس بیداریِ موہُوم ہے ساری ہستی
آنکھ ہو بند تو سب خواب پریشاں ہوجائے
مِرزا یاس، یگانہ،چنگیزی
(مِرزا واجد حسین عظیم آبادی )