طارق شاہ
محفلین
مرزاا یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
بر غزلِ شہیدیؔ
آرہی ہے یہ صدا کان میں ویرانوں سے
کل کی ہے بات کہ آباد تھے دِیوانوں سے
لے چلی وحشتِ دِل کھینچ کے صحرا کی طرف
ٹھنڈی ٹھنڈی جو ہوا آئی بیابانوں سے
پاؤں پکڑے نہ کہِیں کوچۂ جاناں کی زمِیں
خاک اُڑاتا جو نکل آؤں بیابانوں سے
تنکے چُن جا کے کسی کوچے میں او دستِ جنُوں
کیوں اُلجھتا ہے عبث چاک گریبانوں سے
آج ہی کل میں ہے چلنے کو نسیمِ وحشت
تنگ آنے لگے دِیوانے گریبانوں سے
لڑکھڑا کر ذرا کاندھے پہ سہارا ہو کیا
ہاتھ کٹوائے ہیں ظالم نے مِرے شانوں سے
چُور تھے نشّے میں اور رات بھی آئی تھی بہت
ہوگئے اور وہ غافل مِرے افسانوں سے
زمزوں سے مِرے ہِل جائے نہ صیّاد کا دِل
چوٹ آئے نہ کہِیں درد کے افسانوں سے
چارہ گر قابلِ مرہم نہیں اب زخمِ جِگر
بس مِرے دوست میں باز آیا اِن احسانوں سے
جام لبریز ہُوا ہے کسی مہجور کا آج
بُوئے خُوں آتی ہے ساقی مجھے پیمانوں سے
نہیں معلُوم، اُن آنکھوں کا اِشارہ کیا تھا
جنگ پر تُل گئے کُفّار مُسلمانوں سے
چلتے چلتے تو گلے شمع سے مِل لیں اُٹھ کر !
اب سَحر ہوتی ہے کہہ دے کوئی پروانوں سے
آنکھ اُٹھا کر نہ کسی سمت قفس سے دیکھا
موسمِ گُل کی خبر سُنتے رہے کانوں سے
کیا کوئی پُوچھنے والابھی اب اپنا نہ رہا
دردِ دِل رونے لگے یاسؔ جو بیگانوں سے
۔
مرزا یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزی
آخری تدوین: