مرسی حکومت کی برطرفی حرام ہے: 56 سعودی علما کا فتویٰ

یوسف-2

محفلین
news-08.gif
 

یوسف-2

محفلین
چھپکلی (عبداللہ طارق سہیل)
امریکی سی آئی اے نے پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ1953ء میں ایران کے منتخب جمہوری وزیراعظم مصدق کا تختہ اسی نے الٹا تھا۔60 برس بعد کئے جانے والے اعتراف میں بتایا گیا ہے کہ یہ تختہ امریکی خارجہ پالیسی کے فیصلے کے تحت الٹا گیا تھا اور اس کام میں برطانیہ کی بدنام زمانہ ایم آئی6(جو آج کل ایک تنظیم کے ذریعے کراچی کو الگ کرنے کے لئے سرگرم ہے) کا پورا تعاون بھی حاصل تھا۔
مصدق نے ایران میں تیل کے کاروبار کو سرکاری ملکیت میں لے لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ایران کو بے مثال معاشی فائدے ملنے تھے لیکن امریکہ اور برطانیہ جو اس کاروبار کے ذریعے ایران کو اس کے جائز منافع سے محروم کر رہے تھے ، ناراض ہوگئے۔ انہوں نے مصدق کے خلاف مظاہرے منظم کرائے اور پھر فوج کے ذریعے تختہ الٹ دیا۔

مصر میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ وہاں بھی غیر ملکی پیسے سے (امریکہ کی کٹھ پتلی عرب ریاستوں اور اسرائیل نے کئی ارب ڈالر دیئے ) صدر مرسی کے خلاف مظاہرے منظم کرائے اور طے شدہ منصوبے کے تحت مرسی کا تختہ الٹ دیا۔ مرسی کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے مصر کے غیر ملکی قرضے کم کرائے اور رفاہی اور ترقیاتی کاموں کا جال بچھا کر مصر کو خود انحصاری کی راہ پر ڈال دیا۔ امریکہ اب دکھاوے کے لئے مصر کی فوجی حکومت پر پابندیاں لگا رہا ہے کیونکہ امریکہ کے اندر رائے عامہ کا ایک اہم حصہ قتل عام اور غیر انسانی سلوک کی خبروں پر برہم ہے۔ امریکہ کو نہر سویز پر آزادانہ اختیار چاہئے۔ مرسی کی حکومت نہر سویز سے گزرنے والے جہازوں پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کر چکی تھی جس کی وجہ سے فرد جرم مزید سنگین ہوگئی۔ جو کچھ ہوا، امریکہ اسرائیل اور عرب ملکوں کی ملی بھگت سے ہوا لیکن معاملہ کچھ اس لئے الجھ گیا کہ فوجی حکومت کے بے رحمانہ کریک ڈاؤن کی وجہ سے ’’دہشت گردی‘‘ کو میدان مل گیا ہے، اس لئے اب امریکہ کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کرے۔ یعنی مصر چھپکلی بن کر گلے میں اٹک گیا ہے کہ اگلے بنے نہ نگلے بنے۔

امریکہ کی واردات وہی پرانی ہے۔ پیسے دے کر جلسے کرواؤ، جلوس نکلواؤ اور پھر فوج یہ کہہ کر آجائے کہ عوام نے کہا تھا۔مصدّق کے بعد ایران پر شاہ رضا شاہ کی حکومت آئی جو کامل وفاداری کے ساتھ امریکہ کی اطاعت کرتی رہی۔ لیکن1970ء کی دہائی میں امریکہ نے بھارت کو سوویت بلاک سے توڑنے کے لئے اسے علاقے کا تھانیدار بننے کی ترغیب دی۔ اس کام میں شاہ رضا تعاون کے لئے تیار نہیں تھے۔وہ پاکستان کے اتحادی نہیں، دوست تھے اور کسی قیمت پر بھارت کی بالادستی کا خیال ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ امریکہ نے اس’’بغاوت‘‘ پر دیرینہ وفادار کا تختہ ایسے کمال فن سے الٹا کہ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کے امریکہ مخالفوں نے اسے ’’امریکہ کی شکست ‘‘ سمجھا۔ امریکہ اندر ہی اندر مزے لیتا رہا کہ کیسی چال چلی۔ فتح میری ہوئی اور سب مطمئن ہیں کہ امریکہ ہار گیا۔ بہرحال، شاہ ایران کا پتہّ صاف کرنے کا اصل فائدہ اسے خلیجی جنگوں میں ہوا اور اس نے پڑوسی ملک کے بھرپور تعاون سے عراق کو تباہ کر دیا۔ یہ جنگیں نہ ہوتیں تو عراق نے اگلے دس برسوں میں ایٹمی طاقت بن جانا تھا۔ امریکہ نے اسی پڑوسی ملک کے ذریعے عالم عرب میں شیعہ سنی جنگ چھیڑ کر اسرائیل کو مزید بے خطر کر دیا۔

مصر کے باب میں بھی ا مریکہ ایسی ہی بظاہر متضاد چال چل رہا ہے۔ دکھا رہا ہے کہ وہ مصر کی فوجی حکومت کے خلاف ہے لیکن اندر سے تھپکی ہے۔ دکھاوے کو جتنے ارب ڈالر کی امداد روک رہا ہے، اس سے دس گیارہ گنا زیادہ رقم اپنے غلام ملکوں کے ذریعے ایران کو دلوا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مصر کو جتنی بھی رقم ملے گی، وہ معاشیات کو ٹھیک کرنے پر نہیں خرچ ہوگی بلکہ اخوان کو کچلنے پر لگائی جائے گی۔

شروع میں بین الاقوامی تبصرہ نگاروں کا خیال تھا کہ سیسی کی حکومت اخوان پر تشدد اس لئے کر رہی ہے کہ اسے ڈرا دھمکا کر سیاسی عمل میں شریک کرنے پر مجبور کر دے تاکہ اس کے سیاسی عمل کو جواز مل جائے۔ بعد میں اخوان کو تھوڑی بہت سیٹوں پر جیتنے کی اجازت دے دی جائے گی اور حکومت فوج اور سیکولر حلقے مل کر ہی بنائیں گے لیکن یہ جائزے غلط نکلے۔ اس لئے کہ امریکہ نے نہایت مہارت سے کھیل کا نقشہ بنایا تھا۔ اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اخوان کو سرے سے ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس کی قیادت کے تین ہزار ارکان گرفتار ہو چکے ہیں۔ یعنی قیادت کی پہلی دوسری ہی نہیں، تیسری چوتھی بلکہ پانچویں صف بھی گرفتار ہے۔ گویا اخوان اب بے قیادت ہے اور عارضی طور پر اس کی فیصلوں کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔اب یہی تبصرہ نگار لکھ رہے ہیں کہ اخوان کو سرے سے ختم کرنے کی پالیسی بن گئی ہے۔ صرف قیادت ہی نہیں کارکن بھی گرفتار کئے جا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید گرجوں کو نذر آتش کیا جائے گا اور تھانوں پر حملے کرائے جائیں گے اور اس کا الزام اخوان پر لگا کر بڑے پیمانے پرکارکن ہلاک کئے جائیں گے۔

اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر بدیع کی گرفتاری سے ایک روز پہلے ان کے گھر کو آگ لگا کر راکھ کر دیا گیا۔ یہ گھر بنو سویف میں تھا اور اس وقت وہ اور ان کے اہل خانہ گھر میں نہیں تھے۔ اس گھر میں قرآن مجید کے بہت قسموں کے نادر نسخے اور تفاسیر کا ذخیرہ تھا۔ وہ سب جلا دیا گیا۔ مصری حکومت کی وحشت کا یہ عالم ہے کہ مسجد میں قتل عام کے ایک ہفتے بعد تک بھی وہاں لاشیں پڑی رہیں اور لواحقین کو اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ فوج کا اصرار تھا کہ لواحقین یہ لکھ کر دیں کہ موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی جبکہ ہر لاش درجنوں گولیوں سے چھلنی تھی۔ فوج یہ چاہتی ہے کہ کریک ڈاؤن میں مرنے والوں کی تعداد کم کرکے بتائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک شہداء کی سرکاری گنتی900 سے زیادہ نہیں بڑھی حالانکہ ان کی تعداد کئی ہزار ہے۔ بہت سی لاشیں غائب کر دی گئیں۔ مسجد رابطہ اورالفتح سے ایک ہفتے بعد بھی جلے ہوئے قرآن پاک کے نسخے نہیں اٹھائے گئے۔
امریکہ نے کھیل تو کھیلا اور بہت ہی چالاکی سے کھیلا لیکن نتیجہ مرضی کا نہیں آرہا اسی لئے بحر اوقیانوس کے دونوں ساحلوں پر تشویش ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ایک مغربی نیوز ایجنسی کی رپورٹ ہے کہ لیبیا سے بڑی مقدار میں اسلحہ مصر پہنچ رہا ہے۔ ایک اور نیوز ایجنسی کی اطلاع ہے کہ القاعدہ کے جنگجو صومالیہ کا محاذ خالی کرکے مصر آجائیں گے اور سوڈان سمیت دوسرے ملکوں سے بھی القاعدہ کے ارکان مصر پہنچ رہے ہیں۔ مصر کی خانہ جنگی کے شام سے زیادہ خوفناک نتیجے نکلیں گے کیونکہ مصر کے ایک طرف اسرائیل ہے تو دوسری طرف سعودی عرب اور اس کے علاوہ مصر کے براہ راست متاثرین میں اردن بھی شامل ہو سکتا ہے۔ ان سارے علاقوں میں کوئی بحرانی شکل پیدا ہوئی تو وہ اسرائیل کے لئے خطرناک ہوگی۔ امریکہ کے لئے صحیح طریقہ تو یہی ہے کہ وہ سیسی کا انقلاب رول بیک کرے لیکن وہ یہ کرے گا نہیں اور صورتحال گلے میں پھنسی چھپکلی والی رہے گی۔ سعودی عرب کی قیادت کو شاید ابھی اندازہ نہ ہولیکن ہو سکتا ہے کہ جلد ہو جائے کہ اس سے کیا ’’سرزد‘‘ ہو گیا ہے۔

مصر کا میڈیا اخوان دشمنی میں یک جان ہے اور وہ عالمی پریس پر برس رہا ہے کہ مقتولین کی تصویریں کیوں دکھائی جا رہی ہیں۔ وہ اس پر بھی ناراض ہے کہ عالمی میڈیا اکثریت کی رائے کا احترام کیوں نہیں کر رہا۔ اکثریت یعنی30فیصد !اخوان کو70فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن مصری میڈیا کا پیمانہ انوکھا ہے۔ اس پیمانے میں30فیصد کا نام اکثریت،70کا اقلیت ہے۔
بشکریہ نئی بات 22 اگست 2013
 
مصر میں مرسی کی حکومت غلط برطرف کی گئی۔ مصر میں ظلم کیا جارہا ہے۔ اس کی مذمت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے

مگر مصر میں خانہ جنگی مسلمانوں کے حٖق میں نہیں ہے۔ یہ صرف اسرائیل اور ایران کے حق میں ہے۔ خانہ جنگی کی حوصلہ افزائی غلط ہے۔

اگر مصر میں 70 فی صد اخوان کے حامی ہیں تو جلد یا بدیر اقتدار میں پھر اجائیں گے۔ مگر خانہ جنگی کی صورت میں کبھی نہیں ۔ یہ مصر کو تباہ کردے گی
 

یوسف-2

محفلین
خان صاحب! مصر میں خانہ جنگی نہیں بلکہ قتل عام ہورہا ہے۔ قتل عام اور خانہ جنگی قرار کے فرق کو مٹانے کر آپ ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا نہ کریں۔ :(
 
خان صاحب! مصر میں خانہ جنگی نہیں بلکہ قتل عام ہورہا ہے۔ قتل عام اور خانہ جنگی قرار کے فرق کو مٹانے کر آپ ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا نہ کریں۔ :(

میں نہیں کررہا۔ دیکھیے مرسی اگر70 فی صد حمایت رکھتا ہے تو سڑکوں پر مظاہرے کے بجائے صبر سے کام لینا چاہیے تھا۔اس صورت میں فوج کو بہانہ نہیں ملتا۔ یقینا مصری مظلوم ہیں۔ پر وہ فوج سے لڑائی مول لے لیں گے تو خانہ جنگی شروع ہوجائےگی۔

ویسے مصری جیسے لوگ ہیں انھیں وہ لوگ جانتے ہیں جو ان سے براہ راست رابطہ میں ہیں۔
 
Top