مرنے کا ترے غم میں ارادہ بھی نہیں ہے: مکمل غزل چاہیے

محمد واصف

محفلین
مرنے کا ترے غم میں ارادہ بھی نہیں ہے
ہے عشق مگر اتنا زیادہ بھی نہیں ہے

مکمل غزل چاہیے۔۔۔ کیا کوئی مدد کر سکتا ھے؟؟
 

فاتح

لائبریرین
مرنے کا ترے غم میں ارادہ بھی نہیں ہے
ہے عشق مگر اتنا زیادہ بھی نہیں ہے

ہے یوں کہ عبارت کی زباں اور ہے کوئی
کا غذ مری تقدیر کا سادہ بھی نہیں ہے

کیوں دیکھتے رہتے ہیں ستاروں کی طرف ہم
جب ان سے ملاقات کا وعدہ بھی نہیں ہے

کیوں راہ کے منظر میں الجھ جاتی ہیں آنکھیں
جب دل میں کوئی اور ارادہ بھی نہیں ہے

کیوں اس کی طرف دیکھ کے پاؤں نہیں اٹھتے
وہ شخص حسیں اتنا زیادہ بھی نہیں ہے

کس موڑ پہ لے آیا ہمیں ہجرِ مسلسل
تا حدّ نگہ وصل کا وعدہ بھی نہیں ہے

پتھر کی طرح سرد ہے کیوں آنکھ کسی کی
امجدؔ جو بچھڑنے کا ارادہ بھی نہیں ہے

امجد اسلام امجد​
 
Top