رانا
محفلین
دو واقعات پیش خدمت ہیں۔ ان دوواقعات کے راوی کا نام تو ذہن سے نکل گیا ہے اگر کسی کو معلوم ہو تو بتادیں۔
مرچ مسالہ
ایک دفعہ سر محمد یوسف نے اپنے گھر رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کی دعوت کی۔ چونکہ یو۔ پی کے لوگ اپنے ہاں سالن وغیرہ میں مرچ مسالہ تیز رکھتے ہیں اور اس دن جو کھانا جوہر صاحب کو کھلایا گیا اس میں کھٹائی اور مرچ مسالہ کچھ زیادہ ہی تیز تھا۔ سر محمد یوسف خود بیمار ہوگئے۔ انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کو فون کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ "بیت الخلاء" میں ہیں۔ اس صورت حال کا سرمحمد یوسف نے ان ٹوٹے پھوٹے اشعار میں بیان کیا ہے۔
شکم پر ہاتھ رکھ کر یوسف بیمار بیٹھے ہیں
کاوچ پر پیر پھیلائے ہوئے لاچار بیٹھے ہیں
کھٹائی اور مرچ نے لطف ایسا کردیا بیدار
کہ انجن کی طرح مولینا آتش بار بیٹھے ہیں
در بیت الخلاء پرآج ہم لوگوں کی محفل ہے
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھڑاے نکت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
قنبر کو بھیج
ایک تانگے میں جس کے چاروں طرف پردہ تنا ہوا تھا اور اندر چار شیعہ خواتین تھیں اور باہر تانگے والے کے ساتھ ان چاروں میں سے کسی کو شوہر براجمان تھے۔ تانگہ کا بے وزن ہوجانا اور گھوڑے کا سامنے کے دونوں پاوں اٹھا لینا یقینی تھا۔ گھوڑے نے جو دونوں پاوں اوپر اٹھائے تو گھبرا کر خواتین چیخ اٹھیں "یا علی قنبر کو بھیج" ﴿قنبر حضرت علی کا جاں نثار ملازم تھا﴾ ان خواتین کا یہ کہنا تھا کہ تانگے والا چیخ اٹھا۔ "بی بیو" پانچ سواریوں کے بوجھ سے تو تانگہ ویسے ہی بے وزن ہورہا ہے۔ قنبر آگیا تو اسے کہاں بٹھلاو گی۔
مرچ مسالہ
ایک دفعہ سر محمد یوسف نے اپنے گھر رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کی دعوت کی۔ چونکہ یو۔ پی کے لوگ اپنے ہاں سالن وغیرہ میں مرچ مسالہ تیز رکھتے ہیں اور اس دن جو کھانا جوہر صاحب کو کھلایا گیا اس میں کھٹائی اور مرچ مسالہ کچھ زیادہ ہی تیز تھا۔ سر محمد یوسف خود بیمار ہوگئے۔ انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کو فون کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ "بیت الخلاء" میں ہیں۔ اس صورت حال کا سرمحمد یوسف نے ان ٹوٹے پھوٹے اشعار میں بیان کیا ہے۔
شکم پر ہاتھ رکھ کر یوسف بیمار بیٹھے ہیں
کاوچ پر پیر پھیلائے ہوئے لاچار بیٹھے ہیں
کھٹائی اور مرچ نے لطف ایسا کردیا بیدار
کہ انجن کی طرح مولینا آتش بار بیٹھے ہیں
در بیت الخلاء پرآج ہم لوگوں کی محفل ہے
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھڑاے نکت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
قنبر کو بھیج
ایک تانگے میں جس کے چاروں طرف پردہ تنا ہوا تھا اور اندر چار شیعہ خواتین تھیں اور باہر تانگے والے کے ساتھ ان چاروں میں سے کسی کو شوہر براجمان تھے۔ تانگہ کا بے وزن ہوجانا اور گھوڑے کا سامنے کے دونوں پاوں اٹھا لینا یقینی تھا۔ گھوڑے نے جو دونوں پاوں اوپر اٹھائے تو گھبرا کر خواتین چیخ اٹھیں "یا علی قنبر کو بھیج" ﴿قنبر حضرت علی کا جاں نثار ملازم تھا﴾ ان خواتین کا یہ کہنا تھا کہ تانگے والا چیخ اٹھا۔ "بی بیو" پانچ سواریوں کے بوجھ سے تو تانگہ ویسے ہی بے وزن ہورہا ہے۔ قنبر آگیا تو اسے کہاں بٹھلاو گی۔