مرڈر ان مکّہ

صرف علی

محفلین
آخرکار وہ سعودی ہسپتال میں ملا، وہاں موجود سعودی حکام کا کہنا تھا کہ انہیں اسکی لاش عرفات کے صنعتی علاقے کے قریب ایک کچرے کے ڈھیر میں ملی- لیکن وہ نوجوان پاکستانی جو پچھلے کئی دنوں سے مستقل اسکی تلاش میں تھے یہ ماننے کو تیار نہ تھے-

وہ اپنے دوست اور ساتھی کو جانتے تھے، وہ جانتے تھے کہ کتنی امیدیں لے کر وہ یہاں آیا تھا- وہ اپنے مستقبل کے لئے کتنا پرامید تھا- حتیٰ کہ اپنی گمشدگی کی رات کو بھی وہ بہت خوش تھا. اس رات وہ نہایا اور کپڑے بھی بدلے- اسنے کہا تھا وہ تھوڑی دیر کے لئے ہی جا رہا ہے، اور اس کے بعد انہوں نے اسکی لاش دیکھی-

الف کی کہانی کوئی غیر معمولی نہیں، وہ شمال مغربی پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا نوجوان تھا- اس مقدس شہر مکہ میں نجات اور کامیابی کی دعائیں مانگنے کے لئے آنے والوں کے برعکس، وہ لڑکا ملازمت کی تلاش میں آیا تھا-

سات بچوں میں سب سے بڑا بیٹا، اس کے لئے سعودی عرب کا ویزا حاصل کرنا اور اوپر سے عرفات کے نزدیک ملازمت ملنا خوش قسمتی کی علامت تھی، ایک بہتر مستقبل کا دروازہ-

گھر چھوڑ چھاڑ کر اس طرح چلے جانا آسان کام نہ تھا، ماں باپ کی شفقت، بھائی بہنوں کا پیار بھول پانا آسان نہیں ہوتا، لیکن یہ دوری ہر پردیس جانے والے کا مقدر ہوتی ہے-

عرفات میں دوسرے ورکرز کے رشتہ داروں کی مدد سے اسے رہنے کا ٹھکانہ مل گیا- جگہ گنجان تھی، وہاں اور بھی نوجوان تھے جو سعودیوں کی مزدوری کرتے تھے، لیکن اسے یہ سب برداشت کرنا تھا-

اور پھر اچانک ایک عام سے دن کی عام سی شام وہ کہیں غائب ہو گیا- اس کے ایک پاکستانی دوست کا کہنا تھا کہ وہ اسے دن میں کئی بار فون پر کال یا ایس ایم ایس کیا کرتا تھا لیکن گمشدگی کے دوران جب اس کے فون پر کال کی گئی تو جواب کسی عربی لہجے والے آدمی نے دیا- اس کے بعد اس فون سے کسی نے جواب نہیں دیا اور نا ہی اس کے سامان میں وہ فون ملا-

اس کے نئے دوستوں کو بلآخر جب وہ ہسپتال میں ملا تو سعودی حکام نے ان کے ہاتھ میں ایک پرچہ پکڑا دیا جس کے مطابق الف نے خودکشی کی تھی-

سعودی عرب میں مہاجر ورکرز کی پراسرار اموات پر یہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، اس طرح ناصرف انکے مالکان کی خلاصی ہو جاتی ہے ساتھ ہی سعودی حکام کو میت کے ورثا کو کسی قسم کا خون بہا یا معاوضہ بھی نہیں ادا کرنا پڑتا-

الف کے کیس میں اس کے ماں باپ پالیسی یا طریقہ کار کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے- انہیں اس بات کا یقین تھا کہ انکا دیندار مسلمان بیٹا کبھی اپنی جان نہیں لے سکتا- لیکن پیسے کے بغیر، انصاف کے مطالبے کی کوئی حیثیت نہیں-

چالیس دن تک الف کی لاش ہسپتال کے مردہ خانے میں پڑی رہی، اور اس کے گھر والے اسے واپس لانے کے لئے پیسوں کا انتظام کرتے رہے تاکہ اسی چھوٹے سے گاؤں میں اسے دفن کر سکیں جسے وہ چھوڑ کر گیا تھا-

ہر سال مکہ آنے والے لاکھوں مسلمان، عرفات کو مہاجر پاکستانی ورکروں کے انسلجهے قتل کے حوالے سے نہیں بلکہ حج کے ارکان اور رسومات کے حوالے سے جانتے ہیں-

یہ دیگر کہانیاں ایک ایسی گھناؤنی متوازی داستان کی تشکیل کرتی ہیں جسے مقدس زمین نے پوشیدہ کر رکھا ہے اور سرمایا داروں نے پرے دھکیل دیا ہے-

عبادت کی غرض سے آنے والے مسلمانوں کو فقط اپنی نجات اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے دعاؤں سے مطلب ہوتا ہے- ان فرائض سے فراغت کے بعد وہ دنیا کی طرف دیکھتے ہیں، جائے پاکیزہ سے تھوڑا پرے موجود مارکیٹوں سے چمکدار تسبیح اور عطر خریدتے ہیں-

ان بدقسمتوں کے بارے میں وہ نہیں جانتے جنکے مردہ جسم کچرے کے ڈھیر سے ملتے ہیں، ان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس مقام میں --جسے ہمیشہ سے وہ مقدس سمجھتے آئے ہیں-- ہونے والی نا انصافیوں کا تصور بھی کر سکیں.

اب جبکہ اگلے چند ماہ میں سعودی عرب سینکڑوں ہزاروں پاکستانی ورکروں کو نکال باہر کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، کروڑوں پاکستانی مستقل حج ویزا حاصل کرنے کی تک و دو میں لگے ہیں، وہی ویزا جسکی تقسیم خود ایک سکینڈل ہے- ذاتی نجات کی قیمت اجتماعی کارروائی کی سوچ پر بھاری ہے- اخلاقی بے حسی یہی ہے کہ ان غریب پاکستانی کارکنوں کی زندگی اور موت اسی طرح انسلجھی اور انصاف کے لئے ترستی رہے گی-

ایک بے قیمت زندگی کا زیاں کسی کا درد سر نہیں- مکہ میں ہونے والے ایک قتل پر اس مقدس سرزمین کے طریقہ کار اور اس کے امیروں کے فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں-
http://urdu.dawn.com/news/1001613/20jan14-a-murder-in-makkah-rafia-zakaria-dee-aq
 

شمشاد

لائبریرین
کب تک یہ بے انصافی ہو گی؟ یہ چند روزہ زندگی کسی نہ کسی طرح گزر ہی جائے گی۔ امیر کی بھی اور غریب کی بھی۔ پھر اس بڑی عدالت میں کیس دائر ہوں گے اور وہاں کسی امیر کی کسی غریب کے مقابلے میں نہیں مانی جائے گی۔ وہاں انصاف ہو گا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ تب تک صبر سے کام لینا ہو گا۔
 
Top