کل میں ڈاکٹر طاہر القادری کو یہ کہتے ہوئے سن رہا تھا کہ چاند کا فیصلہ کرنے کیلئے ضروری نہیں کہ اسے آنکھوں سے دیکھا جائے، حدیث میں جو لفظ روئیت کا استعمال ہوا ہے اس سے مراد چاند کی موجودگی کا علم ہے، صرف آنکھوں سے دیکھنے کو ہی روئیت نہیں کہتے۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کی دلیل میں سورہ فیل کی یہ آیت پیش کی :
الم
تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل ( کیا آپ نے نہیں
دیکھا کہ آپکے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کی کیا؟)
انکا استدلال یہ تھا کہ اصحاب الفیل کا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے پیش آیا۔۔۔آپ نے اسے دیکھا نہیں تھا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپکو اسکا یقینی علم عطا فرمادیا ، لہذا یہاں دیکھنے کا لفظ یعنی رویت استعمال کیا گیا ہے۔ ۔ ۔چنانچہ مصدقہ علوم پر اعتماد کرتے ہوئے چاند کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے اور کافی زیادہ مسلم ملکوں میں ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ اس میں ایکوریسی بھی زیادہ ہے اور اختلاف کا بھی قلع قمع ہوجاتا ہے لیکن پوپلزئی کو یہ سمجھان مشکل ہے کیونکہ۔ ۔ ۔۔ ۔ آپ جانتے ہی ہیں