مریم نواز خاموش کیوں ہیں؟
08/12/2019 سید مجاہد علی
مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے لندن میں ملاقات کی ہے۔ اس اجلاس کے بعد پاکستان کی سیاسی صورت حال پر ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کا کوئی پالیسی بیان سامنے نہیں آیا۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کبھی کبھار بیان ضرور جاری کرتے ہیں لیکن وہ بھی اب اپنے والد کی ضمانت اور بیرون ملک روانگی کے لئے زیادہ سرگرم ہیں۔
مریم نواز نے گزشتہ ماہ کے شروع میں چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کے بعد زبان پر تالا لگا رکھا ہے۔ البتہ اب ان کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیاہے تاکہ وہ اپنے والد نواز شریف کی عیادت اور دیکھ بھال کے لئے لندن جا سکیں۔ نواز شریف کو علاج کے لئے لندن روانہ ہوئے تیسرا ہفتہ شروع ہو چکا ہے لیکن ان کی صحت کے بارے میں کوئی خاص معلومات سامنے نہیں آ سکیں۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان اگرچہ نواز شریف کے ہمراہ لندن میں موجود ہیں لیکن انہوں نے بھی معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ معطل کیا ہؤا ہے۔ حالانکہ لندن روانگی سے پہلے ڈاکٹر عدنان میڈیا سے گفتگو یا ٹوئٹر کے ذریعے تسلسل سے نواز شریف کی بگڑتی صحت اور ان کے جسم میں پلیٹیٹس کی خطرناک حد تک کمی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مریض کی رہائی اور پھر بیرون ملک روانگی کا ’مقدمہ‘ پیش کرنے میں سرگرم رہے تھے۔
قوم نہیں جانتی کہ نواز شریف کی صحت اب کیسی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو بغرض علاج چار ہفتے کے لئے ملک سے جانے کی اجازت دی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کی طرف سے ان کی صحت کے بارے میں پراسرار خاموشی اور اب مریم نواز کی لاہور ہائی کورٹ سے بیرون ملک روانگی کی استدعا، کیا ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں؟ کیا نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست دی جائے گی اور اس دوران مریم نواز کی لندن روانگی کا اہتمام کیا جائے گا؟
اسی طرح شاید آصف زرداری کو بھی طبی بنیادوں پر ضمانت مل جائے اور وہ بھی بیرون ملک روانہ ہونے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس وقت ملکی سیاست میں خوفناک سناٹا، کیا کسی طے شدہ منصوبہ کا حصہ ہے۔ کیا معاملات تیار شدہ اسکرپٹ کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں، اسی لئے سب خاموش اور مطمئن ہیں۔ حکومت کو تسلی ہے کہ اس کے اقتدار کے بارے میں مولانا فضل الرحمان کے دھرنے اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں آرمی چیف کے عہدہ کی مدت میں توسیع پر ججوں کے سوالات سے جو بے یقینی پیدا ہوئی تھی، وہ اگر ختم نہیں تو کسی حد تک کم ہوچکی ہے۔ اپوزیشن خوش ہے کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اس کے لیڈروں کو اچانک جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، اب ان میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
اس صورت میں کیا یہ سمجھ لینا درست ہوگا کہ اپوزیشن اور حکومت کے مابین اب کسی قسم کا براہ راست تصادم موجود نہیں ہے۔ بلکہ معاملات جس رفتار اور سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، ان سے فریقین یکساں طور سے مسرور و مطمئن ہیں۔ اگر یہ قیاس کر لیا جائے تو کیا یہ اس اصول پر متحارب سیاسی قوتوں کا اتفاق رائے ہے کہ ملکی سیاست کے فیصلے پارلیمنٹ کی بجائے کسی دوسرے مقام سے طے ہونا ہی عین قومی مفاد ہے؟ انتخاب میں دھاندلی کا دعویٰ واپس لے لیا گیا ہے۔ خلائی مخلوق کے چھو منتر کو تیر بہدف مانتے ہوئے تسلیم کرلیا گیا ہے کہ یہی جادو سر چڑھ کر بول سکتا ہے۔
کیا یہ سمجھ لینا درست ہو گا کہ سیاسی قوتوں نے مان لیا ہے کہ جمہوریت کے نام پر سیاسی خودمختاری کا خواب دیکھنا زمینی حقائق سے متصادم رویہ ہے۔ پاکستان میں ووٹ کو عزت دو کی سیاست کا سفر ترک کرکے، اس نعرہ کی گونج سے اپوزیشن لیڈروں کے لئے ریلیف لینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ تاکہ 2013 کے انتخاب میں ایک جدید ڈاکٹرائن کے تحت سیاست کا جو منصوبہ سامنے لایا گیا تھا، وہ اپنے فطری انجام تک پہنچ سکے۔ نواز شریف کے جمہوری نعرے اور مریم نواز کی پرجوش سیاست پر شہباز شریف کی مصلحت پسندی حاوی ہوچکی ہے۔ پیپلز پارٹی تمام تر انقلابیت کے باوجود اب ایک مزید لیڈر کی قربانی اور سندھ حکومت سے محرومی کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اب احتجاج نہیں بلکہ ہوشمندی کی سیاست کا چلن ہوگا۔ تمام تر پریشانی اور خرابی کے بعد اب راوی امن اور چین کا پیغام دیتا ہے۔
یا یہ سب کچھ طوفان سے پہلے کا سکوت ہے۔ ایک ایسا سناٹا جس کی کوکھ سے کوئی بڑی تباہ کاری جنم لے سکتی ہے۔ ملک کے حکمرانوں کو کسی قسم کی پشیمانی نہیں ہے۔ عمران خان موقع ملنے پر اب بھی بدعنوانی کے خلاف اپنا مشن مکمل کرنے کا نعرہ بلند کرلیتے ہیں اور سب کی آنکھوں کے سامنے براستہ برطانیہ ریاض ملک کے 38 ارب روپے، سعادت مندی سے اس ہنرمند سرمایہ دار کو واپس کرنے کے باوجود شفافیت کے نعرے کی گونج فضا میں ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ نئے پاکستان کا نعرہ اب بھی موجود ہے گو کہ اس کی گرج کچھ ماند پڑ چکی ہے۔ مدینہ ریاست کے اصول نافذ کرنے کا وعدہ ملک ریاض کی دولت کے سامنے شرمسار سا دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران نواز شریف کی بیماری اور آرمی چیف کی توسیع کے معاملہ پر اس قدر ہنگامہ بپا رہا کہ معیشت کے معاملات پر غور کرنا غیر ضروری سمجھا جانے لگا۔ یوں بھی حفیظ شیخ عالمی اداروں کی گریڈنگ دکھا کر یہ بتانے میں کامیاب ہیں کہ ملکی معیشت ’صحت مند‘ ہو رہی ہے۔ ملک میں اگر مہنگائی ہے تو اس کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے یا لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ مہنگائی سابقہ بدعنوان حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ پیدا ہوئی ہے۔ اس حکومت کی پالیسیاں پرانی خرابیاں دور کررہی ہیں۔ ماضی میں قرضے لے کر منی لانڈرنگ کی جاتی تھی اب اس سے دو گنا رفتار سے قرضے لے کر حکومت کی بے عملی اور نااہلی کا خمیازہ بھگتا جا رہا ہے۔ یوں بھی جب میڈیا اور لوگوں کو نواز شریف کی بیماری اور آرمی چیف کی تقرری کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا جائے تو ملک وقوم کو درپیش دیگر مسائل غیرضروری اور بے وقعت ہوجاتے ہیں۔
کشمیر کے مسئلہ پر ہمارے مقبول وزیر اعظم نے اتنے تند و تیز بیانات دیے اور تقریریں کیں کہ انہیں حکومت کی باقی ماندہ مدت کے لئے کافی سمجھنا چاہئے۔ اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو، پابندیوں اور شہری آزادیوں کا گلا گھونٹنے کے اقدامات کو پانچواں مہینہ شروع ہو چکا ہے لیکن پاکستان نہ تو بھارتی حکومت کی پالیسی میں سر مو تبدیلی لانے میں کامیاب ہؤا ہے اور نہ ہی مودی حکومت کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوئی کوشش بارآور ہوئی ہے۔ البتہ شاہ محمود قریشی کی خارجہ پالیسی کامیاب ہے کیوں کہ ٹرمپ کی دھمکیوں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کے بعد اب امریکہ نے طالبان سے پھر مذاکرات کا آغاز کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کی کامیاب سفارت کاری کی وجہ سے طالبان سے دو پروفیسروں کو رہا کروالیا گیا ہے۔ لہذا عوام کے لئے خوش ہونے کا کافی سامان ہے۔
یہ درست ہے کہ الیکشن کمیشن کے چئیر مین اور سندھ و بلوچستان سے ارکان کی تقرری کا معاملہ بدستور تعطل کا شکار ہے۔ لیکن حکومت نے جس طرح اپوزیشن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر زبان بندی کا اہمتام کر لیا ہے، اس کے بعد اپوزیشن کی چیخ و پکار کی کیا حیثیت باقی رہ جائے گی۔ اپوزیشن یوں بھی اس معاملہ پر سپریم کورٹ سے رجوع کرکے اپنی پارلیمانی کم ہمتی کا اعتراف کر چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر آرمی چیف کے عہدے کی مدت مقرر کرنے کا معاملہ بھی کسی بڑے تصادم کا سبب بننے کا امکان نہیں ہے۔ کیوں کہ اس ملک کی فوج ہم سب کی اور ہم سب فوج کے ہیں۔ اس کے کمانڈر کی تقرری یا توسیع کے معاملہ پر ہم ایک دوسرے کا گریبان چھوڑ کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بھنگڑا ڈالنے پر آمادہ ہوں گے۔ ایسی صورت میں آئینی ماہرین کی اس رائے پر غور کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اس معاملہ پر سپریم کورٹ کی مستعدی غیرضروری تھی۔ کیوں کہ آرمی چیف جیسے اہم عہدے کی تقرری کے معاملہ پر سول وزیر اعظم کو بااختیار رکھنے کے لئے آئین میں اس عہدہ کی مدت کا تعین نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ آئین کے علاوہ 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی اس عہدہ کی مدت ملازمت کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔
لندن میں مسلم لیگ (ن) کے اجلاس کے بعد خواجہ آصف نے بتایا ہے کہ پارٹی نے ملک ریاض سے برطانیہ میں وصول ہونے والے 19 کروڑ پاؤنڈ کے معاملہ پر غور نہیں کیا۔ اور یہ کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے آرمی چیف کے عہدہ کے مدت کے بارے میں رائے زنی نہیں کی جا سکتی۔ خواجہ آصف کے اس پیغام کے بعد مریم نواز کیا بیان دیں گی اور کیا ٹوئٹ کریں گی۔؟ یہی بہتر ہے کہ وہ ہائی کورٹ سے اجازت لے کر لندن جائیں اور اپنے والد کی تیمار داری کریں۔
محض چند ہفتے پہلے ملک میں جمہوری قوتوں کے سرخرو ہونے کا امکان، اب مایوس کن پسپائی کی طرف گامزن ہے۔ نااہل حکومت سرخرو ہے، میڈیا حملہ آوروں سے بچاؤ کی ترکیبیں سوچنے پر مجبور ہے اور پاک فوج جانتی ہے کہ اسے جنرل باجوہ کی اولوالعزم قیادت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔