مری آج بدلی ہے یہ زندگانی--برائے اصلاح

الف عین
عظیم
یاسر شاہ
ریحان قریشی
-----------
فعولن فعولن فعولن فعولن
--------
مری آج بدلی ہے یہ زندگانی
شبِ وصل آئی ملی شادمانی
--------------
( مطلع ثانی )
محبّت عطا کی تری مہربانی
مرے دل کو بھائی تری قدردانی
-----------
مرے پاس رہنا نہ جانا کہیں بھی
مجھے دیکھنی ہے تری میزبانی
------------
محبّت کے وعدے سنے ہیں تمہارے
مجھے اب دکھا دو مری پاسبانی
----------------
محبّت تو ملتی نہیں ہر کسی کو
ہے تحفہ تمہارے لئے آسمانی
----------------
خدا تم سے چھینے گا اپنی یہ نعمت
کرو گے نہ اس کی اگر قدردانی
-------------
زباں سے کبھی کچھ بھی کہتا نہیں ہوں
مرے کام میں ہے مری ترجمانی
------------
تجھے یاد رکھتا ہے ارشد ہمیشہ
بھلا دو اگر دل میں ہے بد گمانی
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مری آج بدلی ہے یہ زندگانی
شبِ وصل آئی ملی شادمانی
--------------'مری آج بدلی' اچھا نہیں لگ رہا
ہے بدلی ہوئی آج یہ زندگانی
بہتر اور رواں ہو گا
مطلع بھی یہی والا بہتر ہے

( مطلع ثانی )
محبّت عطا کی تری مہربانی
مرے دل کو بھائی تری قدردانی
-----------
مرے پاس رہنا نہ جانا کہیں بھی
مجھے دیکھنی ہے تری میزبانی
------------ٹھیک لگ رہا ہے

محبّت کے وعدے سنے ہیں تمہارے
مجھے اب دکھا دو مری پاسبانی
----------------'مری پاسبانی' سے کیا مراد ہے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اور پہلے میں کسی اور کے محبت کے وعدے سنے تھے اور دوسرے مصرع میں کوئی دوسرا آپ کو آپ کی ہی پاسبانی کیسے دکھا سکتا ہے؟

محبّت تو ملتی نہیں ہر کسی کو
ہے تحفہ تمہارے لئے آسمانی
----------------'محبت تو' کو بدلنا ہو گا۔ محبت کہاں مل سکی ہر کسی کو
بہتر ہو گا۔
اور دوسرے مصرع میں 'یہ' کی کمی محسوس ہو رہی ہے
شاید۔ یہ تحفہ ہے تیرے لیے آسمانی، بہتر ہو

خدا تم سے چھینے گا اپنی یہ نعمت
کرو گے نہ اس کی اگر قدردانی
-------------پہلا مصرع روانی میں کمزور لگ رہا ہے۔ خاص طور پر 'اپنی یہ نعمت' کی وجہ سے۔ اور 'چھینے گا' کی جگہ بھی 'چھین لے گا' ہونا چاہیے تھا

زباں سے کبھی کچھ بھی کہتا نہیں ہوں
مرے کام میں ہے مری ترجمانی
------------'کام میں' تنافر آ گیا ہے، 'فعل میں' کر لیں تو ؟

تجھے یاد رکھتا ہے ارشد ہمیشہ
بھلا دو اگر دل میں ہے بد گمانی
۔۔۔'بھلا دو' کی جگہ 'نکال دو' کا محل ہے۔ اس کے علاوہ پہلے مصرع میں 'تجھے' کی وجہ سے شتر گربہ بھی ہے۔ اس کو آسانی سے 'تمہیں ' کیا جا سکتا ہے
 
الف عین
عظیم
--------
(اصلاح شدہ )
----------
ہے بدلی ہوئی آج یہ زندگانی
شبِ وصل آئی ملی شادمانی
-------
محبّت عطا کی تری مہربانی
مرے دل کو بھائی تری قدردانی
-----------
مرے پاس رہنا نہ جانا کہیں بھی
مجھے دیکھنی ہے تری میزبانی
-----------
محبّت تمہاری تبھی ہو گی سچی
کرو گے اگر تم مری پاسبانی
---------------
محبت کہاں مل سکی ہر کسی کو
یہ تحفہ ہے تیرے لیے آسمانی
---------------
خدا چھین لے گا یہ نعمت وہ تم سے
کرو گے نہ اس کی اگر قدردانی
-------------

زباں سے کبھی کچھ بھی کہتا نہیں ہوں
مرے فعل میں ہے مری ترجمانی
-----------
تمہیں یاد رکھتا ہے ارشد ہمیشہ
نکالو وہ دل سے جو ہے بد گمانی
 

عظیم

محفلین
مطلع کے بارے میں مَیں سمجھا تھا کہ شاید دوسرا مطلع پہلا کا متبادل دیا ہے آپ نے، مطلع ثانی دو لخت ہے۔ دونوں مصرعوں کا آپس میں کوئی ربط سمجھ میں نہیں آ رہا

خدا چھین لے گا یہ نعمت وہ تم سے
کرو گے نہ اس کی اگر قدردانی
۔۔پہلے میں 'وہ' کی معنویت سمجھ میں نہیں آ رہی۔ یوں کیا جا سکتا ہے
خدا چھین لے گا وہ نعمت ہی تم سے
اور دوسرے مصرع میں 'اس' کی جگہ کسی طرح 'جس' لایا جائے تو بہت بہتر ہو جائے کہ پہلے مصرع میں 'وہ' کا جواب ہ جائے گا
نہ کر پاؤ گے جس کی تم قدردانی
سے بہت بہتر ہو جائے گا

مقطع کے دوسرے مصرع میں 'وہ' بھرتی کا لگ رہا ہے۔ باقی اشعار میرا خیال ہے کہ درست ہو گئے ہیں
 
Top