الف نظامی
لائبریرین
مری تشنہ لبی کی خیر ، ہوگا لُطفِ عام ان کا
کہ بزم ان کی، شراب ان کی ، صراحی ان کی ، جام ان کا
حرم سے لامکاں تک اُن کے نقشِ پا چمکتے ہیں
کہ ہے کونین پر سایہ فگن حُسنِ خرام ان کا
زمانے نے ہزاروں ٹھوکروں کے بعد سمجھا ہے
علاجِ ظلمت ایام ہے بے شک نظام ان کا
جنہیں طیبہ کے جنت زار میں بسنا میسر ہو
حقیقت میں نماز ان ، سجود ان کا ، قیام ان کا
سنہری جالیوں کو جا کے جو چومے نظر وہ ہے
تری گلیوں کی خوشبو جن کو مل جائے مشام ان کا
مدینے جا کے جن کی زندگی کی شام ہو جائے
مبارک اِبتدا اُن کی ، مبارک اِختتام ان کا
مبارک ہو مدینے سے بلاوا آگیا جن کو
سوئے جنت چلا ہے قافلہ اب گام گام ان کا
میں اپنی آرزو کا ماحصل اب یہ سمجھتا ہوں
ہے جبتک تابِ گویائی رہے ہونٹوں پہ نام ان کا
اگرچہ عالمِ اسباب میں کچھ بھی نہیں اپنا
مگر ڈھارس بندھائے ہے ابھی تک لطفِ عام ان کا
نہ جانے کب سےاس امید میں پلکیں نہیں جھپکیں
کہ بادِ صبح گاہی لے کے آئے گی پیام ان کا
سمجھتا ہوں کہ اُن کے پیار کی دولت بڑی شے ہے
شہنشاہی کو کب خاطر میں لاتا ہے غلام ان کا
از "زخمۂ دل" از حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری