مری تقدیر تو پہلے ہی سے لکھ رکھی تھی ۔ برائے تنقید اور مشورہ

میری تقدیر تو پہلے ہی سے لکھ رکھی تھی
کیوں فرشتے مرا ہر فعل رقم کرتے ہیں
عقل دی تھی تو ترے قرب پہ میرا حق تھا
کیوں یہ دیوانے ترے عشق کا دم بھرتے ہیں
تھا عبادت جو میرا کام تو شیطاں کیوں کر
میری گمراہی کا سامان بہم کرتے ہیں
مرے مولا مری فریاد پہ کیوں ہے گم سم
یہ روش تو مرے پتھر کے صنم رکھتے ہیں
عشق میں میں نے کئےاتنے ترے گھر کےطواف
پھر بھی اغیار پہ ہی لطف و کرم کرتے ہیں
 
میں نے ویسے غور سے پڑهی ہی نہیں غزل. رکهتے والے شعر میں ایطائے جلی ہے کیونکہ حرف روی قافیہ میں ر ہے جو رکهتے میں موجود ہی نہیں ہے. گرتے ، ٹهہرتے وغیرہ صحیح قوافی ہونگے.
 
دوبارہ پیش ہے۔ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ

ظلم کرتے ہیں بڑامجھ پہ ستم کرتے ہیں
میری تضحیک پہ ہر بات ختم کرتے ہیں
میری تقدیر تو پہلے ہی سے لکھ رکھی تھی
کیوں فرشتے مرا ہر فعل رقم کرتے ہیں
عقل دی تھی تو ترے قرب پہ میرا حق تھا
کیوں یہ دیوانے ترے عشق کا دم بھرتے ہیں
تھا عبادت جو مرا کام تو شیطاں کیوں کر
میری گمراہی کا سامان بہم کرتے ہیں
مرے مولا مری فریاد پہ کیوں ہے گم سم
اس طرح تو مرے پتھر کے صنم کرتے ہیں
عشق میں میں نے کئےاتنے ترے گھر کےطواف
پھر بھی اغیار پہ ہی لطف و کرم کرتے ہیں
 
کرتے ہیں ردیف مقرر ہوگئی ہے اس لیے بهرتے والا شعر زمین سے خارج ہے. اس کے علاوہ ختم میں ت اور م دونوں ساکن ہیں اس لیے وہ غلط بندها ہے.
 

الف عین

لائبریرین
اس کے علاوہ
عشق میں میں نے کئےاتنے ترے گھر کےطواف
پھر بھی اغیار پہ ہی لطف و کرم کرتے ہیں
شتر گربہ ہے، پہلے مصرع میں ’ترے‘ اور دوسرے مصرع میں احترام والا آپ ُکرتے ہیں‘ سے ظاہر ہونے والا!
 
آپکے مشوروں کے پیشِ نظر بہتری کی مزید کوشش کےساتھ:
کیا اچنبھا ہے کہ اپنوں پہ ستم کرتے ہیں
میری تضحیک ، رقیبوں پہ کرم کرتے ہیں
میری تقدیر تو پہلے ہی سے لکھ رکھی تھی
کیوں فرشتے مرا ہر فعل رقم کرتے ہیں
تھا عبادت جو مرا کام تو شیطاں کیوں کر
میری گمراہی کا سامان بہم کرتے ہیں
مرے مولا مری فریاد پہ کیوں ہے گم سم
اس طرح تو مرے پتھر کے صنم کرتے ہیں
عشق کے معرکے دیوانوں نے سر کر ڈالے
ہم فقط مشغلۂ لوح و قلم کرتے ہیں
انکا گھر میرے قدم اور عقیدت کے طواف
اور بدلے میں وہ غیروں پہ کرم کرتے ہیں
 
Top