مری خاطر سے واں تک دوستو جاتے تو کیا ہوتا ۔ نظام رامپوری

فرخ منظور

لائبریرین
مری خاطر سے واں تک دوستو جاتے تو کیا ہوتا
کسی ڈھب سے جو یاں تک اس کو لے آتے تو کیا ہوتا
ٹھکانے دل نہیں اب تک لگاوٹ کی بھی رنجش سے
میں حیراں ہوں جو تم یوں روٹھ نہ جاتے تو کیا ہوتا
ذرا تسکیں نہیں ہوتی کسی ہم دم کے کہنے سے
مرے حق میں اگر کچھ وہ بھی فرماتے تو کیا ہوتا
مرے سمجھانے کو تو ناصحا تشریف لائے ہو
اسے جا کر اگر کچھ آپ سمجھاتے تو کیا ہوتا
نہ تم آتے تو ہم کو چین آتا ہی نہیں ہرگز
ہزاروں طور سے گر دل کو بہلاتے تو کیا ہوتا
بھلا ناحق کے مجھ کو وہم میں کیوں آپ نے ڈالا
مرے آگے نہ غیروں کی قسم کھاتے تو کیا ہوتا
نظام اُن کو سحر ہوتے چلا جانا ہی جب ٹھہرا
ٹھہرتے کب، اگر ہم لاکھ ٹھہراتے تو کیا ہوتا
(نظام رامپوری)
 
Top