مری خاموشیوں میں گونجتا ہے

ایک تازہ غزل۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مری خاموشیوں میں گُونجتا ہے
تُو زیروبم میں جس کو ڈھونڈتا ہے
میں اک بانگِ جرس کا منتظر اور
سکُوتِ شب میں صحرا اُونگھتا ہے
ھُدی خواں مست اپنے سوز میں گم
کسے صحرا بہ صحرا ڈھونڈتا ہے
کسی محمل نشیں کا فیض، ورنہ
وجد میں کون ایسے جُھومتا ہے
یوں آنکھیں موند لیں دیکھا سے جب
کوئی چوکھٹ کو جیسے چُومتا ہے
مری تنہائیاں محفل بنی ہیں
مرا نغمہ مجھی میں گُونجتا ہے
 

مغزل

محفلین
مری خاموشیوں میں گُونجتا ہے
تُو زیروبم مین جس کو ڈھونڈتا ہے
میں کو درست کرلیجیے گا ، بہت عمدہ واہ
میں اک بانگِ جرس کا منتظر ہوں
سکُوتِ شب میں صحرا اُونگھتا ہے
دولخت ہورہا ہے ، موصولہ و مخاطب دو ہوگئے ہیں ، ارتکاز مفقود ہے ۔
ھُدی خواں مست اپنے سوز میں گم
یونہی صحرا بہ صحرا گُھومتا ہے
واہ ، مگر محض منظوم بیان ہے، نہ علت اور نہ جواز میں ربط
کسی محمل نشیں کا فیض، ورنہ
وجد میں کون ایسے جُھومتا ہے
قبلہ یہ لفظ وَجد ہے ، آپ نے وَجَد باندھا ہے ، نظرِ ثانی کرلیجے گا۔
یوں پلکیں موند لیں اک دید پا کر
کوئی چوکھٹ کو جیسے چُومتا ہے
دید ہوتی ہے ، پائی نہیں‌جاتی ، زبان کا غلط استعمال ہے ، مصرعے دولخت بھی ہورہے ہیں ،
مری تنہائیاں محفل بنی ہیں
مرا نغمہ مجھی میں گُونجتا ہے
مجھی لکھنا غلط ہے ، ’’ مجھ ہی ‘‘ درست ہے ، شعر بہت خوب ہے ، جواب نہیں ،

محمود صاحب آپ کا کلام نظر نوازہوا ، خاکسار کی جانب سے ہدیہ مبارکباد قبول کیجے ،
اپنی جہالت پر مبنی رائے تحریر کردی ہے ، طبعِ نازک پر گراں گزرے تو دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں ،
امید ہے آپ سے مراسلت کر شرف حاصل رہے گا، تازہ کلام پر ایک بار پھر مبارکباد ، گر قبول افتد زہے عزو شرف
احقر: م۔م۔مغل، کراچی
 
شکریہ مغل صاحب۔ ۔ ۔ ارے صاحب طبعِ نازک اتنی بھی نازک نہیں۔ ۔ ۔آپ کے ارشادات سر آنکھوں پر:)۔۔
'وجد' کی آپکی نشاندہی درست ہے میں کوشش کروں گا اس شعر کو درست کرنے کی۔

دوسرا اور تیسرا شعر منظر کی حکایت ہے۔ ۔ ۔۔
'مجھی' کا استعمال شاعری میں کیا گیا ہے ۔قابل اجمیری کی وہ مشہور غزل تو آپ نے یقیناّ سنی ہوگی۔ ۔وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد۔:)
دید کا ہونا یا پانا۔۔ میرے خیال میں شاعری میں اسکی گنجائش ضرور ہوگی کہیں:)
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی دردِ لادوا پایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ :)
 

مغزل

محفلین
شکریہ مغل صاحب۔ ۔ ۔ ارے صاحب طبعِ نازک اتنی بھی نازک نہیں۔ ۔ ۔آپ کے ارشادات سر آنکھوں پر:)۔۔
'وجد' کی آپکی نشاندہی درست ہے میں کوشش کروں گا اس شعر کو درست کرنے کی۔

دوسرا اور تیسرا شعر منظر کی حکایت ہے۔ ۔ ۔۔
'مجھی' کا استعمال شاعری میں کیا گیا ہے ۔قابل اجمیری کی وہ مشہور غزل تو آپ نے یقیناّ سنی ہوگی۔ ۔وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد۔:)
دید کا ہونا یا پانا۔۔ میرے خیال میں شاعری میں اسکی گنجائش ضرور ہوگی کہیں:)
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی دردِ لادوا پایا۔ :)

محمود صاحب، شاعرِ اصل رعایت کی بیساکھیاں نہیں لیتے ، یا تو زبان کو بدل دیتے ہیں یا پھر خود بد ل جایا کرتے ہیں۔ رہی بات مجھی کی ، تو میں نے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا، بہر حال آپ کو اختیار ہے جو ’’ مزاجِ‌یار میں آئے ‘‘۔۔ منظر کی حکایت میرے لیے نئی بات ہے ، امید ہے تفصیل سے بتائیے گا ، تاکہ میں آئندہ محتاط رہوں ۔ دعا مطلوب و مقصود، والسلام
 

مغزل

محفلین
آبی بھیا، اب اتنے پنکھے بھی نہ بنیے کہ گھومنا ہی پڑ جائے ، بس محبتوں میں یاد رکھا کیجے ۔محمود صاحب کے ہم بھی مداح کم معترف زیادہ ہیں ، ۔
 

الف عین

لائبریرین
محمود مغل کا ’مجھی‘ پر اعتراض میں قبول نلہیں کرتا، میں درست سمجھتا ہوں۔ باقی محمود کے کمنٹس مانے جا سکتے ہیں۔ لیکن میری رائے میں قوافی میں بڑی بھاری غلطی ہے جو ایطا کی ذیل میں آئے گی۔ اگر حروف مشترک ’تا‘ نکال دیا جائے تو باقی ’چوم‘ ’گونج‘ ’اونگھ‘ قوافی نہیں ہوتے۔ چومتا کا گھومتا قافیہ ہو سکتا ہے، اونگھنا نہیں۔ ہاں اگر الف کو حرف روی مانا جائے تو کچھ قوافی ایسے ہونے ضروری تھے جن کے آخر میں تا ‘ نیہ آتا ہو۔ اس صورت میں جدا، رہا، چومتا، بولنا، سب قوافی درست ہیں۔
 
Top