اسد قریشی
محفلین
مری زمیں ہے ترے آسماں سے الگ
مرا جہاں ہے ترے خاکداں سے الگ
مری جبیں کے نشاں آج بھی ہیں وہاں
تو پھر میں کیسے رہوں لامکاں سے الگ
میں حق شناس تھا، منصورہی تھا اگر
کیا نہ جاتا مجھے داستاں سے الگ
سفر ہوا نہ مرا ساحلوں کی طرف
ہوا ہوئی ہی نہیں بادباں سے الگ
ہیں شخصیت کے پُجاری یہ لوگ سبھی
سو چل پڑا ہوں اب اس کارواں سے الگ
نجانے کب وہ اتر جائے دل میں مرے
خرد کو رکھتا ہوں یوں بھی گماں سے الگ
بسا لیا ہے ترا عشق روح تلک
متاعِ عشق نہیں حرثِ جاں سے الگ
سنا رہا تھا وہ قصّہ تو میرا اسد
بیاں درست تھا لیکن بیاں سے الگ